عیدین اور قومی تہواروں کے مواقع پر فلم بینی پاکستانی قوم کے مزاج کا حصہ ہے، قیامِ پاکستان سے اب تک کا جائزہ لیا جائے تو عیدین کے مواقع پر فلم ساز کی بھی خواہش ہوتی ہے، اس کی فلم عید پر ریلیز ہو ۔ ماضی میں جب فلمی صنعت عروج پر تھی اور مشرقی ومغربی پاکستان میں سینمائوں کی تعداد1200 کے لگ بھگ تھی، 71ء کے بعد پاکستان میں یہ تعداد 750 اور780 کے درمیان بچی تھی، اس وقت بھی عیدین کے مواقع 7 سے 10فلمیں دوڑ میں شامل ہوتی تھیں، کراچی میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا، اس دور میں ایک ہی فلم اور ایک سنیما میں ریلیز ہوتی تھی، جب کہ آج ایک ہی سینما پر مختلف شوز مختلف فلموں کے لیے مختص کردیے جاتے ہیں، جو فلم زیادہ بزنس کررہی ہوتی ہے، اس کے شوز میں اضافہ کردیتے ہیں، جو کہ یقیناً تقسیم کار اور سینما مالکان کے مابین طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی ضرور ہے، اس بارے میں ندیم مانڈوی والا نے بتایا کہ سینمامالکان کا موقف ہے کہ رمضان المبارک میں ہم نے دو شوز چلائے، مگر حاضری 13فی صد سے بھی کم رہی، کسی فلم ساز تقسیم کار نے ہم سے آکر یہ نہیں پوچھا کہ سینما خسارے میں جارہا ہے، کیا ہم کوئی مدد کریں، سینما بھی بزنس کے لیے ہی کھلے ہوئےہیں، اب اگر کوئی فلم کمزور ہے، اس میں ٹکٹوں کی فروخت کی تعداد اس شو پر آنے والی آمدنی سے بہت ہی کم ہو، تو سینما مالکان کیا کریں گے، وہ اس فلم کے شو دے دیں گے، جو کام یاب ہو اور ہائوس فلم نہ سہی 80 سے 90 فیصد سیٹیں فل ہو رہی ہوں تو اسے شو دینے میں حق بجانب ہیں، فلم ساز واداکار جاوید شیخ نے بتایا کہ ہم نے اپنے تقسیم کار ادارے سے بہت اچھے انداز میں فلم کے حقوق دیے تھے ،مگر ہماری بدقسمتی کہ تقسیم کار ادارے کے سربراہ ایک اور ادارے کی پروڈکشن کے پارٹنر بھی تھے، جس کی وجہ سے ان کا جھکائو اپنی فلم پر رہا، عید کی چھٹیوں میں ’’وجود‘‘ کو 108 شوز دئیے گئے، جب کہ تقسیم کار نے اپنی فلم کو222 شوز دیے ۔ ہماری فلم کو شو ٹائم بھی ایسے دیے گئے کہ فلم میں نہ دیکھ سکیں۔ ہماری فلم کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا گیا۔ ہم نے عید سے قبل جب تقسیم کار سے بات کی تو انہوں نے مکمل یقین دہانی کرائی کہ وجود کو بھی مزید شوز دیے جائیں گے، مگر ایسا نہ ہوسکا، جس کی وجہ سے ہماری فلم کا بزنس بہت کم رہا، جب کہ فلم بینوں کی رائے یہ ہے کہ وجود ایک اچھی فلم ہے ،جسے دیکھا جاسکتا ہے۔
وجود کی بزنس رپورٹ اس وجہ سے تقسیم کار کی فلم سے کم رہی، یوں ہماری فلم کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا گیا ہے، اگر دونوں فلموں کو برابر کے شوز ملتے، تو ہماری فلم بھی اچھی بزنس کرتی، حالاں کہ حکومت نے ایک اچھا فیصلہ کیا تھا کہ بھارتی فلموں کی عیدین کے مواقع پر دو ہفتے کی پابندی عائد کی تھی، جسے بعد میں ایک ہفتہ کردیا گیا تھا، اب اسی تقسیم کار کی بھارتی فلم ’’ریس 3‘‘ ریلیز ہوگئی ہے اور اب بھی وجود شوز کے سلسلے میں جلد ہی دوبارہ تقسیم کار سے میٹنگ طے ہے۔ ہم نے ان سے کہا ہے کہ تمام سینماز کو ایک لیٹر جاری کردیا جائے اور شوز بڑھائے جائیں۔‘‘ اس سلسلے میں ہم نے تقسیم کار کاموقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی اور میسج بھی بھیجا اگر رابطہ نہ ہوسکا، جسے ہی ان کا موقف ملےگا، وہ بھی شائع کردیا جائے گا۔
اس ضمن میں چوہدری اعجاز کامران سے بات ہوئی تو انہوں نے بھی کہا کہ وجود کے ساتھ تھوڑی بہت زیادتی ضرور ہوئی ہے، مگر فلم رش لیتی ہے تو سینما مالکان خود ہی شوز میں اضافہ کرنے کے مجاز ہیں، ایسا ہی ان فلموں کے ساتھ بھی ہوا، ماضی میں اس قسم کے معاملات فلم سازوں تقسیم کاروں اور سینما مالکان کے مابین کاروباری اختلاف ہوتے تھے، تو ایک مصالحتی کمیٹی اس قسم کے تنازعات کو حل کرانے میں بہت ہی فعال کردار ادا کرتی تھی، اب تمام ایسوسی ایشن تقریباً غیر فعال ہیں، جس کی وجہ سے مصالحتی کمیٹی کی بھی کوئی نہیں سنتا، فلم ساز سہیل خان نے اپنی فلم ایسی وجہ سے عید دنگل سے نکال لی تھی، جاوید شیخ نے بھی تقسیم کار کو آفر کی تھی کہ ہم اپنی فلم عیدالفطر سے بیک کرلیتے ہیں اور 3اگست کو ریلیز شیڈول بنالیتے ہیں، مگر تقسیم کار نے یقین دہائی کرائی تھی نا انصافی نہیں ہوگی۔ ہم نے بھروسہ کیا ندیم مانڈوی والا نے بتایا کہ اس معاملے میں دیکھنا پڑے گا کہ فلم ساز اور تقسیم کار کے مابین معاہدہ کیا ہوا تھا، معاہدے کی خلاف ورزی کس جانب سےہوئی ہے۔ فلمی صنعت کے مفاد میں تو یہ ہے کہ فلم ساز اور تقسیم کار بیک وقت بہت سی فلمیں ریلیز کرنے سے بہتر ہے کہ آپس میں اتفاق رائے سے فلمیں ریلیز کریں تاکہ کسی فلم ساز کا بھی نقصان نہ ہو۔