سرورِ کائنات،حضرت محمدﷺ کی حیات ِ طیبہ اور آپ ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہرشعبۂ زندگی میں رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے جہاں عبادات، معاملات، اخلاقیات، معاشرت، تہذیب و تمدن، دین و دنیا کے مسائل میں انسانیت کی رہبری فرمائی۔ وہیں بنی نوع آدم کو جامع دستور حیات اور ابدی ضابطۂ زندگی بھی عطا فرمایا۔ جہاں دینی معاملات میں رہنمائی فرمائی۔ وہیں اصولِ جہاں بانی و فلسفۂ حکمرانی بھی عطا فرمایا۔ آپﷺ نے نظامِ سیاست، طرزِ حکمرانی کی بنیاد،دیانت و امانت ،نظم و ضبط ،قانون کی حکمرانی ،بے لاگ عدل، مساوات، سرکاری مناصب کے ذمّہ دارانہ استعمال احساسِ ذمّہ داری، فرض شناسی، دیانت و امانت کے اعلیٰ اصولوں پر استوار کی ۔ ریاست مدینہ کی صورت میں آپﷺ نے بے مثال قیادت و حکمرانی کا تصور عطا فرمایا۔جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے جو بہترین نظامِ زندگی آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر قیامت تک کے لیے ہوسکتا تھا، وہ اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاءﷺ کے ذریعے اپنی کامل اور اکمل ترین شکل میں دے دیا۔ حضور اکرم ﷺنے اپنی بعثت کے بعد عمر بھر جس لگن اور ذمے داری کے ساتھ اپنے فرض کو پورا کرکے انسانیت کو پستی سے نکال کر رفعت تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا، اس کی مثال تاریخِ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ کا مثالی طرزِ حکم رانی، جس نے داخلی و خارجی سطح پر بکھرے یثرب کو دنیا کی بہترین اسلامی فلاحی ریاست مدینہ میں تبدیل کر دیا، اس کی جھلک ہمہ وقت ہمارے سامنے ہونی چاہیے، تاکہ ان مشکل ترین حالات میں ہم اسوہٴ حسنہ کی روشنی میں اپنے مسائل حل کر سکیں۔
’’آپﷺ کا اسوۂ حسنہ اور آپﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو امت کے لیے لائق تقلید نمونہ اور ایک روشن مثال ہے، آپﷺ ریاستِ مدینہ کے سربراہ اور حکمرانی کی مسند پر سادگی، زہد و قناعت، عجز و انکساری، فقر و درویشی اور غریب پروری میں ایسے بلند مقام پر نظر آتے ہیں، جس پر عقل حیران رہ جاتی ہے اور دل عش عش کر اٹھتا ہے‘‘
یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب بھی کوئی نیا نظام نافذ کرنا ہوتا ہے تو اس کے لیے پہلے ایک ایسی ٹیم تیار کی جاتی ہے جو نہ صرف اس نئے نظام کی جزئیات سے آگاہ ہو، بلکہ اس پر غیر متزلزل یقین بھی رکھتی ہو۔ اسی بنیادی اصول کے پیشِ نظر حضور اکرمﷺ نے ایک طویل عرصے مکہ میں اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے گزارا۔ آپ ﷺ کی انتھک کوششوں کی وجہ سے اچھا خاصا طبقہ مسلمان ہو گیا، مگر ابھی ایک ضرورت باقی تھی یعنی ایسا خطۂ زمین جہاں کی آبادی مکمل طور پر یا اکثریت اس نظام کے قبول کرنے پر تیار ہو، مکہ میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی،ایسی حالت میں اسلامی نظام قانون کا نفاذ بے اثر ہو کر رہ جاتا۔نبی اکرم ﷺ کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد فوری طور پر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی، دوسرے لفظوں میں ریاست کے لیے سیکریٹریٹ قائم کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ معاشرے کے معاشی مسائل کے حل کو اوّلیت دی گئی۔ایک طرف ریاست میں ہنگامی حالت تھی تو دوسری طرف انصارِ مدینہ تھے جن میں متوسط بھی تھے اور کافی مال دار بھی ۔
ہمارے ہاں بھی ایک طبقہ بدحالی کا شکار اور دوسرا طبقہ کافی متمول ہے۔ ایسی حالت میں محسنِ انسانیت ﷺنے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو مواخات کے ذریعے بھائی بھائی بنا دیا۔ ایک ٹیم موجود تھی جو اسلامی فلاحی نظام پر پختہ یقین رکھتی تھی۔ اس ٹیم میں شامل لوگوں نے ایک دوسرے کے لیے قربانیاں دیں اور اس طرح دو طبقوں میں جو غیر معقول معاشی فرق تھا،وہ ختم ہو گیا۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں مدینہ منورہ کی معیشت کا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا، مگر حضورِ اکرم ﷺ نے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر دو، کیوں کہ اس طرح معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ناممکن تھی،بلکہ آپ ﷺ نے انصارِ مدینہ سے فرمایا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور پھر قرضِ حسنہ کا نظام رائج فرمایا اور جب معاشرے کے افراد عملاً باہمی تعاون کے ذریعے بلا سود قرضوں پر معیشت کو قائم کرنے میں مصروف ہو گئے تو آپ ﷺ نے سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے کر اس لعنت کو ختم کر دیا۔آپ ﷺ کی مدنی زندگی بھرپور مصروفیت کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ انتہائی مشکل اوقات میں بھی آپ ﷺ نے اپنی خداداد بصیرت سے سلامتی کی راہیں نکالیں۔ مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد آپ ﷺکی حیثیت مکے سے مختلف ہو گئی تھی، کیوں کہ مکہ میں مسلمان ایک مختصر جماعت کے طور پر رہ رہے تھے، جب کہ یہاں انہیں اکثریت حاصل تھی۔ پھر آپ ﷺنے شہریت کی اسلامی تنظیم کا آغاز کیا، جس میں آپ ﷺ کو منتظمِ ریاست کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اس میں شک نہیں کہ مکی زندگی کے مقابلے میں یہ بڑی کام یابی تھی، لیکن پر سکون معاشرے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا۔
مواخات کے طرزِ عمل نے مسلم معاشرے کو استحکام بخشا اور اسے ہر جارحیت کے خلاف مجتمع ہو کر لڑنے میں مدد دی۔ جن لوگوں میں مواخات قائم کی گئی تھی، ان کے متعلق دل چسپ اور حیرت انگیز تفصیلات کتبِ سیرت میں موجود ہیں۔ رسول اللہ ﷺکو مسلمانوں کے درمیان مواخات قائم ہوجانے سے اطمینان حاصل ہو گیا۔منافقین نے مہاجرین و انصار کے درمیان منافرت پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر مواخات نے ان کی چالیں ناکام بنادیں،اب ضرورت اس بات کی تھی کہ اہلِ مدینہ کو بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے مسلم اور غیر مسلم کسی خاص نکتے پر متفق ہوتے، اہل مدینہ کے باہمی اختلافات کو بھی ہوا نہ ملتی اور مدینہ کے باہر کے لوگ بھی مدینہ منورہ پر حملے کی جرأت نہ کرتے۔ان ہی اغراض و مقاصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حضورِ اکرم ﷺ نے ہجرت کے چند ہی ماہ بعد ایک دستاویز مرتب فرمائی، جسے اسی دستاویز میں کتاب اور صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیا۔
اس دستاویز کو متعلقہ اشخاص سے گفت و شنید کے بعد لکھا گیا۔دستاویز کے ذریعے شہر مدینہ کو پہلی مرتبہ ”شہری مملکت“ قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا۔ اس معاہدے سے نبی کریم ﷺ نے مدینہ کی شہری ریاست کو ایک مستحکم نظم عطا کیا اور اس کے لیے خارجی خطرات سے نمٹنے کی بنیاد قائم کی۔ اس دستاویز نے نبی کریم ﷺ کو ایک منتظمِ اعلیٰ کی حیثیت سے پیش کیا اور یہ آپ ﷺ کی زبردست کام یابی تھی۔ دستاویز میں ایک بار لفظ ”دین“ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس لفظ میں بیک وقت مذہب اور حکومت دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے اور یہ ایک ایسا اہم امر ہے کہ اسے پیش نظر رکھے بغیر مذہبِ اسلام اور سیاسیاتِ اسلام کو اچھی طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔
یہ تحریری معاہدہ ہے جس کی رو سے حضرت محمد مصطفی ﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا معاشرتی ضابطہ قائم کیا، جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہوا۔ اس سے انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی، اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی۔ ارتکابِ جرم پر گرفت اور مواخذے نے دباؤ ڈالا اور معاہدین کی یہ بستی اس میں رہنے والوں کے لیے امن کا گہوارہ بن گئی۔ غور فرمائیے کہ سیاسی اور مذہبی زندگی کو ارتقاء کا کتنا بلند مرتبہ حاصل ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاست اور مدنیت (دونوں ) پر دستِ استبداد مسلط تھا اور دنیا فساد و ظلم کا مرکز بنی ہوئی تھی۔یہ معاہدہ اسلامی ریاست کی بنیاد تھا،یہاں سے حضورِ اکرم ﷺ کی زندگی نیا رخ اختیار کرتی ہے۔
اب تک آپ ﷺ کے تدبر و فراست کے تمام پہلو ایک ایسے مرکز کے قیام کے لیے تھے، جہاں سے دعوتِ اسلام موثر طریقے سے دی جا سکے۔ آپ ﷺکی سابقہ کوششیں ایک مدبر کی تھیں، لیکن اب آپ منتظمِ ریاست کے طور پر سامنے آئے ، لہٰذا آپ کے تدبر کا مطالعہ اسی زاویے سے کرنا ہو گا۔سب سے پہلی بات تو یہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ آپ ﷺ کے پیشِ نظر ایک اہم مقصد صالح معاشرے کا قیام تھا اور اس کے لیے حکومت کا ہونا ناگزیر تھا۔ آپ اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! اقتدار کے ذریعے اسلام کی مدد فرما۔ آپ ﷺ کی یہ دعا قبول ہوئی۔ اب ایک اسلامی ریاست کے قیام کی حرکت تیز ہو گئی۔ آپ ﷺ کی حکومت دینی حکومت تھی اور اس کا مقصد دعوتِ دین، اصلاحِ اخلاق اور تزکیہ نفس تھا۔ قرآن پاک نے اسلامی ریاست کا مقصد متعین کر دیا ہے۔ ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخش دیں تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃدیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور سب کاموں کا اختیار اللہ کے حکم میں ہے‘‘۔ (سورۃالحج)یہ آیت آپ ﷺ کی حکومت کے طریقِ کار کو متعین کرتی ہے۔ آپ ﷺ کی حکومت کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور عوامی بہبود تھا۔
اس حکومت کی بنیاد خاندانی عصبیت اور نسلی شعور کی جگہ دینی وحدت پر قائم تھی۔ اس انوکھی اور اپنی نوعیت کی منفرد ریاست کے منتظم کا انداز بھی عام حکمرانوں سے یکسر مختلف تھا۔ منتظمِ ریاست کی حیثیت سے آپ ﷺکے تدبر کی بے شمار مثالیں آپ ﷺکی حقیقی عظمت کا پتا دیتی ہیں۔آج جو پوری دنیا میں بدامنی اور ابتری کا دور دورہ ہے، اسے ختم کر نے کے لیے نبی اکرم ﷺ کی حیات ِ طیبہ سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ آپﷺ نے اپنے دورِ حکمرانی میں تمام نوعِ انسانیت کے ساتھ عدل، مساوات اور سما جی برا بری کا رویہ اپنایا، لہٰذااسلامی ریاست کے حکمرانوں کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ ریاست میں عدل کی بالادستی،ظلم کے سدباب اور امن و سلامتی کے قیام کے لیے عدل و مساوات اوربے لاگ احتساب کا وہ تصور قائم کریں جو اسلامی ریاست کی اساس اور بنیادہے،آج امت مسلمہ کو بالعموم اور اسلامی جمہوریہ پاکستا ن کو جو مسائل درپیش ہیں،اس کے لیے ہم رسول اکرمﷺ کی قیادت و حکمرانی کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کوپیش نظر رکھتے ہوئے زندگی کے ہر شعبے میں آپﷺ کی حیاتِ طیبہ اور اسوۂ حسنہ کی اتباع کریں۔یہی ہماری فلاح اورکامیابی کا حقیقی راستہ ہے۔