• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئس لینڈ، دنیا کا پہلا ملک جہاں خواتین کو کم تنخواہ دینا جرم ٹھہرا

آئس لینڈ، دنیا کا پہلا ملک جہاں خواتین کو کم تنخواہ دینا جرم ٹھہرا

اگر دنیا کا نقشہ دیکھیں تو آپ کو یورپ اور امریکا کے درمیان ایک بڑاسا جزیرہ دکھائی دے گا، یہ یورپ کی طرف سے آخری اور امریکا کی طرف سے پہلی انسانی آبادی ہے، یہ جزیرہ آئس لینڈ کہلاتا ہے۔

آئس لینڈ کئی لحاظ سے منفرد اور سب سے مختلف ہے۔ یہ قطب شمالی کے قریب ہونے کی وجہ سے موسمِ سرما میں برف سے ڈھکا رہتاہے، یہاں سردیوں کی راتیں لمبی اور گرمیوں کے دن طویل ہوتے ہیں۔ سردیوں میں سورج صرف دو گھنٹے کےلیے طلوع ہوتا ہے جبکہ گرمیوں کے دن 22 اور 23 گھنٹے پر محیط ہوتے ہیں۔ 40ہزار مربع میل پر پھیلے اس ملک میں صرف تین لاکھ 40ہزارلوگ آباد ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو بیک وقت یورپ اور امریکا میں شامل ہے۔ آئس لینڈ میں ایک جگہ ہے، جس کا نام ”یورو امریکن ٹیکٹانک پلیٹ“ ہے۔ اس ملک میں ہر سال دوسو سے زائد بڑے زلزلے آتے ہیں۔ ان زلزلوں کی وجہ سے پلیٹوں کی کھائی میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زمین کی یہ تقسیم اگر بڑھتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب آئس لینڈ، زمینی طور پر باقاعدہ دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ایک حصہ یورپ میں رہ جائے گا اور دوسرا براعظم امریکا کے وجود میں شامل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ بھی دیگر کئی خصوصیات کے باعث یہ ملک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔

اب اس ملک نے ایک اور کام کر دِکھایا ہے، جس کے باعث اس چھوٹے سے ملک نے اپنا قد بہت بلند کردیا ہے۔ آئس لینڈ کی پارلیمان نے ایک قانون متعارف کرایا ہے، جس کے تحت اب اس ملک میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کم تنخواہ دینا غیرقانونی عمل قرار دے دیا گیا ہے۔ اس طرح آئس لینڈ، مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کم تنخواہ دینے کو جرم قرار دینے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔

خواتین کے لیے آئس لینڈ دنیا کے چند بہترین ممالک میں سے ایک ہے۔ اس سے پہلے بھی، تقریباً ایک عشرے سے آئس لینڈ کا شمار ان ممالک میں ہوتا تھا، جہاں مردوں اور خواتین کی تنخواہوں میں سب سے کم فرق پایا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا ملک تھا، جہاں براہِ راست انتخاب کے ذریعے دنیا میں سب سے پہلے ایک خاتون کو ملک کا چیف ایگزیکٹو منتخب کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی آئس لینڈ کی وزیر اعظم ایک خاتون ہیں۔ 42سالہ ’کیٹرین جیکبس ڈاٹیر‘ یورپ کی سب سے کم عمرخاتون سربراہ مملکت ہیں۔ اس کے علاوہ، آئس لینڈ کی تقریباً نصف اراکین پارلیمان اور کمپنی ڈائریکٹرز خواتین ہیں۔ اس ملک میں دنیا کا فرسٹ کلاس ’ڈے کیئر‘ سسٹم موجود ہے اور لازمی Parentalچھٹیاں بھی دی جاتی ہیں۔ ان تمام وجوہات کے باعث، یہاں ہر پانچ میں سے کم از کم چار خواتین نوکری پیشہ ہیں۔

آئس لینڈ میںمردوں اور خواتین میں مساوی تنخواہ کا قانون 1961ءسے موجود ہے، تاہم نئے قانون کے پاس ہونے تک اس ملک میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کو 14فی صد سے 20فی صد کم تنخواہ دی جاتی رہی ہے۔ اس صنفی تفریق کے خلاف آئس لینڈ میں انسانی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہ کافی عرصہ سے جدوجہد میں مصروف تھے۔ ان کی یہ جدوجہد بلٓاخر رنگ لے آئی ہے اوراس ملک میں ریاست نے مساوی تنخواہ کے قانون پر زبردستی عمل درآمدکروانے کا اعلان کیا ہے۔ قانون کے تحت، ایسے سرکاری یا نجی ادارے جہاں کم از کم25 یا اس سے زائد افراد کام کرتے ہیں، وہاں آئندہ چار سال میں مردوں اور خواتین کی تنخواہوں کو مساوی سطح پر لایا جائے گا۔ تصدیق کے طور پر، ان اداروں کو اس بات کی آزادانہ سند بھی پیش کرنا ہوگی۔ جو ادارے مساوی تنخواہ دیتے ہوئے نہیں پائے جائیںگے، انھیں روزانہ کی بنیاد پر جرمانہ کیا جائے گا۔

اس طاقت ور قانونی سازی سے متعلق، آئس لینڈ کی وومن رائٹس ایسوسی ایشن کی بورڈ رکن ’ڈِنگی اوسک ایراڈوٹِر‘ کا کہنا ہےکہ، ’یہ قانونی سازی بنیادی طور پر کمپنیوں اور اداروں کو ایک طریقِ کار فراہم کرتی ہے جس کے تحت، وہاں ادا کی جانے والی ہر ذمہ داری اور اس کے بدلے کی جانے والی ادائیگی کی سند حاصل کی جائے گی کہ آیا وہاں مردوں اور خواتین کو مساوی ادائیگی کی جارہی ہے یا نہیں‘۔

آئس لینڈ بظاہر تو ایک چھوٹا ملک ہے، تاہم اس کی معیشت کافی مضبوط ہے۔ سیاحت اور ماہی گیری یہاں کی اہم اور بڑی صنعتیں ہیں۔ کم از کم گزشتہ 9سال سے، ورلڈ اکنامک فورم اس ملک کو دنیا کا سب سے زیادہ Gender-equalملک قرار دیتا آیا ہے۔ 2006ءمیں یہ رینکنگ شروع ہونے کے بعد، آئس لینڈ نے خواتین اور مردوں کی مساوات میں 10درجے ترقی کی ہے، جو اس شعبے میں دنیا کی تیز ترین پیش رفت سمجھی جاتی ہے۔

اب آئس لینڈ کی حکومت پُرعزم ہے کہ وہ 2020تک خواتین اور مردوں کے مابین تنخواہوں میں پائی جانے والی تفریق کو مکمل طور پر ختم کردے گی۔

تازہ ترین