• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’وجود زن سے ہے تصویرِکائنات میں رنگ،، جی ہاں ! صنف نازک کے بغیر کائنات مکمل نہیں تو بھلا ان کے بناکرہ ارض پر پھیلی ریاستوں میں سیاست کیسے ممکن ہے ۔اب وہ دور نہیں جب خواتین معاشرتی رویوں اور راہ میں آنے والی رکاوٹوں سے ڈری سہمی گھر کی چار دیواری میں قید رہیں۔ آج کی خواتین معاشرتی رویوں کی پرواہ کیے بغیر کامیابی کے زینے چڑھ رہی ہیں۔ دنیا کا کون سا ایسا شعبہ ہے جس میں قدرت کی یہ بہترین تخلیق اپنا آپ نہ منوارہی ہو۔ 

دنیا کے ہر شعبے کی طرح سیاسی میدان میں بھی خواتین نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیںاور آج کئی خواتین عالمی لیڈر کے طو پرجانی جاتی ہیں، ان میں کچھ ایسی بھی ہیں جودنیا کے اہم ممالک کی باگ دوڑ سنبھالتے ہوئے بطور صدرفرائض انجام دے رہی ہیں۔ یورپ، ایشیا اور افریقا سمیت دنیا کے دیگر خطوں کے30ممالک یا ریاستوں کی سربراہی ان دنوں خواتین کے ہاتھوں میںہے۔ بین الاقوامی سیاست کی کچھ ایسی ہی طاقتور ترین خواتین کی معلومات ہم اپنے قارئین سے شیئر کرنے جارہے ہیں ۔

ڈالیا گریباؤ اسکائٹے (لیتھوینیا)

دنیا کی طاقتور ترین خواتین صدور

ڈالیا گریباؤ اسکائٹے یورپی ملک لیتھوینیا کی وہ پہلی خاتون ہیں جنھیں ملکی تاریخ میںایک نہیں بلکہ دوبار صدر منتخب کیا گیا ۔ 

پہلی بار سنہ 2009 میں انھیں لیتھوینیا کا صدر منتخب کیا گیا اور پھر 2014ء میں ڈالیا گریباؤ اسکائٹے نے صدارتی انتخابات میں دوسری بار کامیابی حاصل کر لی۔ 2014ءمیںیہ کامیابی انھوں نے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ میں 58 فیصد سے زائد ووٹ لے کر حاصل کی ۔اس منفرد اعزاز کی بدولت ڈالیا کو’’ آئرن لیڈی،، اور’’ اسٹیل منگولیا،،بھی کہا جاتا ہے۔

تسائی انگ ون (تائیوان)

دنیا کی طاقتور ترین خواتین صدور

59سالہ تسائی انگ ون تائیوان کی وہ پہلی خاتون ہیں جنھیں جنوری 2016ءمیں تائیوان کی خاتون صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔تسائی انگ ون تائیوان کی صدر منتخب ہونےسے قبل متعدد سرکاری عہدوں پر بھی فائز رہ چکی ہیں۔ 

تسائی انگ ونگ کا تعلق ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) سے ہے، جو چین سے آزادی حاصل کرنےکے حق میں ہے۔تسائی کے مطابق تائیوان کا دفاع، معیشت کی مضبوطی اور جمہوریت کے اُصولوں پر عمل پیرا رہنا ان کی ترجیحات میں شامل ہیں۔

ہلڈا ہین (مارشل آئرلینڈ)

دنیا کی طاقتور ترین خواتین صدور

ہلڈا ہین مارشل آئرلینڈ کی وہ پہلی عورت ہیں جنھوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، یہی نہیں ہلڈا کو ایکواڈور کے قریب متعدد جزائر پر مشتمل جزیرہ نما ملک مارشل کی پہلی صدر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ ہلڈاہین کو یہ اعزاز 2016 میں حاصل ہوا، اس سے قبل وہ متعدد سرکاری عہدوں پر تعینات رہی تھیں۔

میری لوئس (صدر مالٹا)

دنیا کی طاقتور ترین خواتین صدور

سنہ 2016میں اقوام متحدہ کی فہرست میں بحیرہ روم کےجزائر پر مشتمل ملک مالٹاکودنیا کا محفوظ ترین ملک قرار دیا گیااوراس محفوظ ترین ملک کی قیادت بھی ایک 59سالہ خاتون میری لوئس کررہی ہیں۔وہ مالٹا کی دوسری خاتون ہیں جنھیں دو بار ملک کی صدر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔میری لوئس کو دوسری خاتون صدر ہونے کے ساتھ ساتھ مالٹا کی نوجوان صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہےمیری لوئس نے اگرچہ 55 سالہ کی عمر میں عہدہ صدارت سنبھالاتھاتاہم وہ جدید دور کی پہلی خاتون صدر ہیں۔

مشعل باشلے(چلی )

دنیا کی طاقتور ترین خواتین صدور

نام کی طرح خوبصورت مشعل باشلےلاطینی امریکا کی واحد خاتون سیاسی لیڈر اور چلی کی صدر ہیںڈالیا گریباؤ اسکائٹے کی طرح مشعل باشلے چلی کی پہلی عورت ہیں جنھیں دوسری بار 2014ءمیں چلی کا صدر منتخب کیا گیا ۔ان کا تعلق سوشلسٹ پارٹی آف چلی سے ہے۔

پہلی مرتبہ انھیں2006ء میں چلی کا صدر منتخب کیا گیا، وہ اس سے قبل بھی اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہ چکی ہیںاوراپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے تشدد بھی برداشت کر چکی ہیں۔مشعل اپنی زندگی اور کامیابی سے متعلق کہتی ہیں کہ والد اوروالدہ نے انھیں ہمیشہ سپورٹ کیا اور یہی وہ ہستی ہیں جو زندگی کے ہر موڑ پر میرے ہمراہ رہے۔

حلیمہ یعقوب (سنگاپور)

دنیا کی طاقتور ترین خواتین صدور

حلیمہ یعقوب سنگاپور کی پہلی ملائی نژادخاتون ہیں جو پچھلے پچاس سال میں پہلی مرتبہ ملک کی صدر بنی ہیں۔ انھیں سنگاپور کی پہلی اورباحجاب مسلم خاتون صدر ہونے کا اعزازحاصل ہے۔ سنگا پور 2017ءمیں ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدر منتخب ہونے والی63سالہ حلیمہ یعقوب پیشے کے اعتبارسے وکیل ہیں۔ ان کےوالد کا تعلق ہندوستان سے تھا اوروہ سنگا پور میں محض ایک چوکیدار تھے۔

اس لحاظ سےصدارتی انتخابات نے ایک تاریخ رقم کی جس میںایک چوکیدار کی بیٹی کو ریاست کے ایوانوں کا حکمران بنادیاگیا۔ حلیمہ یعقوب نے حکومتی جماعت پیپلز ایکشن پارٹی (PAP ) سے بحیثیت رُکن سیاسی زندگی کا آغازکیا۔ 2001ء میں میں سنگاپور کی پارلیمنٹ کی رُکن منتخب ہوئیں اور2013ء میں اسمبلی کی تیرھویں اسپیکرمنتخب کرلی گئیںجبکہ2015ء میں وہ اپنی جماعت کی ہائی کمان میں شامل ہوگئیں۔

تازہ ترین