بھارتی وزیر دفاع نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایف سولہ طیارے دینے پربہت صدمہ ہوا ہے۔ پاکستانی وزارت ِ خارجہ کو اس بیان پر حیرت ہوئی۔ نریندر مودی کی جاتی عمرہ میں تشریف آوری سے ہم نے کیا کیا توقعات وابستہ کر لی تھیں۔بہر حال پاکستان نے بھارت کی طرف دوستی کیلئے ایک اورقدم آگے بڑھا دیا ہے۔ گوجرانوالہ میں پٹھا نکوٹ ایئر بیس حملے کا مقدمہ درج کردیا گیا ہے ۔یعنی ہم نے یہ بات توتسلیم کرلی کہ پٹھان کوٹ ایئربیس پرحملہ کرنے والے پاکستانی تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسے پاکستانی تھے۔ان کا نام و پتہ کیا تھا۔ اس بات کی تحقیق کیلئے پاکستانی تحقیقاتی ٹیم اگلے ماہ بھارت کا دورہ کرے گی۔ وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے مقدمےکے اندراج کو پاکستان کی سنجیدگی کا ثبوت قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ اب بھارت کو شکوک وشبہات سے باہر آجاناچاہئے۔شواہد ملنے پر یقیناً ہم مولانامسعود اظہر کے خلاف بھی کارروائی کریں گے۔ دہشت گردی اسی وقت ختم ہوگی جب بھارت اورافغانستان بھی ایک پیج پرہوں گے ‘‘۔ رانا ثنااللہ کی خوش فہمیوں پر قربان جانے کو جی چاہ رہا ہے ۔ان کے نام ظفر خان نیازی کا ایک شعر۔
وفا کی آس اسی یارِ بے وفا سے ہے
بدن ہے راکھ مگر دوستی سے ہواسے ہے
لطف کی بات یہ ہے کہ بھارت نے اس مقدمے کے اندراج پر خوشی کا اظہار نہیںکیا بلکہ ایف آئی آر میں کالعدم تنظیم جیش محمد اور اس کے سربراہ کے نام شامل نہ کرنے پر اظہار افسوس کیا ہے اور ناراضی کے اظہار کے طور پر پاکستانی ہائی کمشنرعبدالباسط کوآئی آئی ایم ٹی کالج میں خطاب کرنے سے روک دیا۔
جو دابے شوق سے پائوں تو یہ ہوامنصور
لگایا جوتے چرانے کا یار نے الزام
لوگ پوچھتے پھرتے ہیں کہ بھارت میں ہونے والے وقوعہ کی ایف آئی آر پاکستانی وزارتِ داخلہ کیسے درج کراسکتی ہے ۔چوہدری نثار بھلے مانس آدمی ہیں ان کابھلا بھارت سے کیا تعلق ہوسکتا ہے ۔یہ مقدمہ بھارتی ہائی کمیشن درج کراتا تو بات سمجھ میں آتی یا اس کی درخواست پر وزارت خارجہ یہ کام کرتی تو مناسب بات تھی مگر یہ تو پاکستانی وزارت داخلہ کے ڈپٹی سیکرٹری اعتزازالدین کی درخواست پر اور سب انسپکٹر کی مدعیت میں نامعلوم دہشت گردوں کے خلاف درج کیاگیاہے۔یہ دونوں صاحبان اس کام کیلئے موزوں نہیںتھے۔ہاں اگر وزارت خارجہ کے کہنے پر وزارت داخلہ نے اس کیس کی تحقیقات مکمل کرلی ہوں اوروہ اِس نتیجے پر پہنچی ہو کہ دہشت گرد پاکستانی تھے تو پھر وزارت داخلہ مدعی بن سکتی تھی لیکن اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ ایف آئی آر نامعلوم لوگوں کے خلاف درج نہ کی گئی ہوتی۔اسے گوجرانوالہ میں اسلئے درج کیا گیا کہ بھارتی سراغ رسانوں کے مطابق یہ دہشت گردشکر گڑھ کے علاقے سے بھارت میں داخل ہوئے تھے اور شکر گڑھ گوجرانوالہ ڈویژن میں آتا ہے ۔یہ بھی کوئی بات نہ ہوئی کیونکہ مقدمہ تھانے میں درج کیا جاتا ہے ڈویژن میں نہیں ۔اصولاً اسے شکر گڑھ تھانے میں درج ہونا چاہئے تھا۔کہا جاتا ہے کہ ابھی تک بھارت نے اس حملے کے سلسلے میں جتنی معلومات پاکستان کو فراہم کی ہیں ان سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دہشت گرد پاکستانی تھے۔بلکہ بی بی سی کے مطابق اس حملے کے دوران ہی کشمیری مسلح گروپوں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے بھارت پر واضح کیا کہ وہ ہر حملے کے پیچھے پاکستان کا کردار تلاش کرنے کی عادت سے باز رہے۔یہاں ایک اور پیچیدگی پیداہوگئی ہے۔ مقدمہ کا اندراج اس بات کا ثبوت بن سکتاہے کہ کشمیرجہاد کونسل دراصل ایک پاکستانی تنظیم کا نام ہے یقیناً اس ایف آئی آر نے تحریک آزادی کشمیرکو ایک دھچکا لگا یاہے مگربھارت کے ساتھ کاروباری معاملات میں بہتری لانے کیلئے ایسی قربانیاں تو دینی پڑیں گی ۔ پاکستان کے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے اس حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ’’ بھارتی ڈرامے دوستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ پٹھان کوٹ حملے میں بھارت کے اپنے لوگ ملوث تھے۔ ممبئی حملہ بھی ’’را ‘‘نے کروایا۔ ڈیوڈ ہیڈلے بھی را کا ایجنٹ تھا۔ ہمیں بھارت کو پوری طرح بے نقاب کرنا ہو گا اس مقصد کیلئے وہ ثبوت بھی دے سکتے ہیں‘‘ مگر پاکستانی حکومت نے ان کے مشورے پر کان نہیں دھرے کیونکہ ایسی باتوں سے معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے ۔سامنے بند گلی آجاتی ہے۔اب آتے ہیں مولانا مسعود اظہر کی طرف جنہیں پٹھان کوٹ حملے میں ملوث ہونے کے شک میں گرفتار کیا جا چکا ہے مگرابھی اس بات کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا کہ وہ اس حملے کے ماسٹر مائنڈ ہیں یا نہیں ۔ ایف آئی آر میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا ۔پاکستان میں ان کے ہمدرد بھی کافی موجود ہیں۔ان کے حوالے سے اہم ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر بھارت اس بات پر بضد ہوگیا کہ مولانا مسعود اظہر کواس کے حوالے کیا جائے تو پاکستان کیا کرے گا۔ اگرچہ بھارت اور پاکستان میں مجرموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ موجود نہیں مگر معاہدہ تو امریکہ اور پاکستا ن میں بھی نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان بے شمار پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کرچکا ہے جن میںیوسف رمزی سے لے کر ڈاکٹر عافیہ تک کے نام آتے ہیں ۔مولانا مسعود اظہر کو پاکستانی حکومت نے دسمبر 2001میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد بھی گرفتار کیا تھا لیکن باقاعدہ فرد جرم عائد نہیں کی تھی ۔اب بھی اس بات کا امکان کم ہے۔ کیونکہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں مولانا مسعود اظہر کا نام کہیں سنائی نہیں دیا اسلئے ان کے بارے میں عسکری اداروں کے رویے میں نرمی پائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب پرویز مشرف کے دور میں لال مسجد کے خلاف آپریشن کیا جارہا تھا تو مولانا فضل الرحمن خلیل اور مولانا مسعود اظہر عسکری اداروں کی طرف سے غازی برادران کو سمجھانے آئے تھے ۔