اسلام آباد(جنگ رپورٹر) عدالت عظمیٰ نے سابق حکومت کی جانب سے عطاء الحق قاسمی کی بطور ایم ڈی سرکاری ٹی وی تقرری سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عطاء الحق قاسمی ، اس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کو آئندہ سماعت پر طلب کر تے ہوئے ،عطاء الحق قاسمی تقرری کی سمری بھی عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے سماعت منگل 3جولائی تک ملتوی کر دی ہے جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عطاء الحق قاسمی پر27کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں،اگر وہ پیسے واپس کر دیں تو کیس ختم کر دیں گے ،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحی ٰ آفریدی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جمعہ کے روز کیس کی سماعت کی تو عطاالحق قاسمی کی وکیل ،عائشہ حامد نے بیان کیا کہ انہوںنے اپنے موکل کی جانب سے آڈٹ رپورٹ پر اعتراضات جمع کروا دیے ہیں ،انہوںنے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ ان کے موکل عطاالحق قاسمی نے دو سال میں86 .35 ملین روپے بطور تنخواہ وصول کیے ہیں، جس پرفاضل چیف جسٹس نے کہا کہ کیا عطاالحق قاسمی اتنی بھاری تنخواہ کے اہل تھے،ان پر 27 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں ،سرکاری ٹی وی نے تو انہیں لوٹا،بالٹی، چادر اور تولیے تک لے کر دیے اور انہیں اسلام آباد کلب کی ممبر شپ بھی 15 لاکھ روپے میں دلوائی ، اس وقت ہم کرپشن کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں کیوں نا غیر قانونی تقرری کا کیس نیب کو بھجوا دیا جائے ،انہوںنے مزید کہا کہ عطاالحق قاسمی 27 کروڑ روپے واپس کردیں تو کیس ختم کردیتے ہیں، یہ پیسے ڈیم کی تعمیر کے فنڈزکے لیے رکھ دینگے، جتنے پیسے خرچ ہوئے ہیں وہ سابق وزیراعظم اور سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید سے وصول کر یں گے،بعد ازاں فاضل عدالت نے مذکورہ بالا حکم جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کر دی، جبکہ عطاء الحق قاسمی کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ ان کا سرکاری ٹی وی کی تزئین و آرائش ،سرکاری ٹی وی کے پروگراموں اور اشتہارات کی منظوری جیسے معاملات سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا،انہوںنے کہا ہے کہ جب تک آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کا کسی مجاز عدالت میں جائزہ نہیں لیا جاتا اس وقت تک اسے ثبوت کی بجائے صرف ایک رائے ہی تصور کیا جائے گا،اسی بناء پر آڈیٹر جنرل نے خود ہی عدالت سے استدعا کی ہے کہ اس رپورٹ کو فریقین میں تقسیم نہ کیا جائے، سرکاری ٹی وی سمیت تمام ریاستی اداروں کے اکائونٹس چیک کرنا پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذمہ داری ہے ،اور یہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ طے کرے کہ اگر مجھ سے کوئی رقم وصول کرنی ہے تو وہی حتمی طور پرطے کرے ، انہوںنے کہا ہے کہ وہ پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں ،انہوںنے 3دسمبر 2017کو اس عہدہ سے استعفیٰ دے دیا ہے ،جسے 20دسمبر کو منظور کرلیا گیا تھا ،اور اب وہ ایک پرائیوٹ شہری ہیں،اگر ان سے کسی قسم کی کوئی ریکوری بھی کی جانی ہے تو یہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت مفاد عامہ کا معاملات کے زمرہ میں نہیں آتا ، اس مقدمہ میں عدالت کے سامنے اصل مسئلہ سرکاری ٹی وی کے ایم ڈی کی تقرری کا تھا ،اور عدالت نے طے کرنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک لمبے عرصہ تک اس عہدہ پر تقرری کا نہ کیا جانا بنیادی حقوق کی پامالی ہے ، ان سے کسی قسم کی رقم کی وصولی کے معاملہ کا تعلق سول عدالت سے ہے،اور اس حوالے سے عدالت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت جاری کیا گیا کوئی بھی حکم درخواست گزار کے بنیادی حقوق کی پامالی کے مترادف ہوگا۔