کہتے ہیں یکم جولائی کو صاحب کوئلوں پر چلیں گے۔ 8جولائی کو زنجیرزنی کریںگے۔ 12جولائی کو قبرستان میں برہنہ چلّا کاٹیں گے۔ 16جولائی کو کسی دربار پر دھمال ڈالیں گے اور پھر شاید اکیلے کمرے میں جاکر بقول مبشر علی زیدی اپنی جیب سے کرسی کی مورتی نکال کر اس کا طواف شروع کردیں گے۔
کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے ہمارے ہونہار بروا نے اس بار الیکشن جیتنے کے لئے۔ اس تمام کے باوجود کہ بقول شخصے خلائی مخلوق اس کی پوری مدد کرنے کوتیار بیٹھی ہے۔ مخالفین کبھی ایک ماہ کے لئے، کبھی 5برس کے لئے اور کہیں تاحیات نااہل ہو رہے ہیں۔ لوٹے جو ہمیشہ سے جیتنے والی جماعتوں میں شامل رہے ہیں، جوق در جوق ا ن کی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ میڈیا کافی حد تک ہمنوا ہوچکا ہے۔اگر ہونہار بروا سے اس کی جماعت کے نظریاتی کارکن سوال کریں کہ یہ سب کیا ہے؟ انہیں کیوں نظرانداز کیاجارہا ہےتو کم از کم وہ بات لپیٹ کر نہیں کر رہا، صاف کہہ رہا ہے کہ اس نے ان امیدواروں کا انتخاب کیا ہے جو الیکشن جیتیں گے۔ اس طرح کے لوگوں سے کیا انقلاب آئے گا، اس کو کون پوچھتا ہے؟ ووٹروں کے دل کو لبھانے کے لئے آخر کو 100 دن کا پروگرام تو ترتیب دے ہی دیا گیا ہے۔
خلائی مخلوق کے کردار پر اعتراض کرنے والے بھی صاف اعتراض نہیں کرتے لیکن اشاروں کنایوں میں وہ اپنی بات کرتے رہتے ہیں۔ ان کے بقول ایمپائر کی انگلی تو ہونہار بروا کے حق میں ہی بلند ہے۔ مبصرین یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ آخر کار اس بار خلائی مخلوق اوروں کو آگے کرنے کے بجائے خود کیوں نہیںآجاتی۔ یہ تو گویا یہ ہوا کہ
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
یہ لوگ شاید کسی نظریاتی ریاست یا نظریاتی سیاست کی بات بھی کرتے ہوں لیکن اب یہ سب کہاں؟ ہماری یہ نظریاتی ریاست اس وقت دہشت گردی کی مدد کرنے والے ملکوں کی گرے لسٹ میں شامل ہوچکی ہے۔ اس بار اسے اس سے بچانے کے لئے چین، خطہ عرب اور ترکی نے بھی ساتھ نہیں دیا بلکہ اس کے خلاف ووٹ دیا۔ چین کےبارے میں تو کہا جارہا ہے کہ اب وہ کسی ایسی تحریک کا حصہ نہیں بننا چاہ رہا جس میں اسے شکست ہو لیکن باقی دو کو کیا ہوا؟ باقی رہی نظریاتی سیاست تو اب کون سی جماعت اس کادعویٰ کرسکتی ہے۔ میاں صاحب نے خود پرلگے الزامات سے توجہ ہٹانے کے لئے نعرہ ضرور لگایا کہ وہ نظریاتی سیاست کریں گے لیکن اب تک وہ کون سی نظریاتی سیاست کرتے رہے ہیں۔ اگر سڑکیں بنانے، پل بنانے وغیرہ کا نام نظریاتی سیاست کرنا ہے تو پھر ہم تو اس سے باز رہے۔ پی پی پی کااب ذکر ہی کیا۔ سب جماعتوں کے ہاں صرف اور صرف کرسی ہی مطمح نظر ہے۔ اس کی خاطر ہر چیز حتیٰ کہ ایمان کی قربانی دینا بھی غالباً جائز سمجھاجائے گا۔ اس بار جو لوٹے ہونہار بروا کی جماعت کارخ کئے ہوئے ہیں تو کیا اسے خود نہیں سوچنا چاہئے کہ یہ نام نہاد الیکٹ ایبلز کسی نظریے کی خاطر ان کی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں یا محض اقتدار کاحصول ہی ان کا گول ہے۔ ان کے اس بار ڈکلیئر کئے گئے اثاثوں کو ہی دیکھ لیں ان کے ماضی پر نظر دوڑائیں تو ان کی نظریاتی سیاست سب پرعیاں ہو جاتی ہے۔ اگر اتنی سختیوں کے باوجود شریفوںکی پارٹی کے بہت سے لوگ اب بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں تو اس میں بھی مسئلہ کسی نظریاتی سیاست کا نہیں ہے۔ اس کرپشن میں گھرے ملک کی معاشی پالیسیوں اور عوامی نمائندوں اور سرمایہ کاروں کی بے ایمانیوں کا حال یہ ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت اب تک 2ہزارارب سے زائد روپیہ کالے سے سفید دھن ہو چکاہے۔ اگر ایف بی آر ان کے نام بتا دے تو شاید قوم کو صحیح اندازہ ہوجائے کہ یہ کون لوگ ہیں اور شاید اس کا بھی اندازہ ہو جائے کہ کن کن طریقوں سے انہوں نے یہ کالا دھن سفید کیا ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ اس میں بہت سے لوگ پالیسی میکر ہوں گےاور شاید نام نہادنظریاتی سیاست کے داعی بھی ہوں۔
کالم کی دم:مجھ ایسے بہت سے ماحولیات دوستوں کے لئے پانی کا مسئلہ انتہائی شدید مسئلہ ہے۔ کراچی کے بعداب یہ خبر ہے کہ اسلام آبادمیں بھی پانی کا شدید بحران پیدا ہوچکا ہے اور یہ کہ راولپنڈی کینٹ اور شہر کو سپلائی کیاجانے والاپانی جو خانپور ڈیم سے آتا تھا اس کی سطح اب ڈیڈ لیول تک پہنچ چکی ہے۔ اس حوالے سے بھی اگر دیکھیںتو ہمارے نظریاتی سیاست کرنے والےلوگ جنہوں نے چالیس برس سے زیادہ اس ملک پر حکومت کی اس مسئلے کا ادراک کرنے سے قاصررہے ہیں۔ سب کہہ رہے ہیں کہ جتنا پانی اس ملک میں سیلاب کے دنوں میںضائع ہوتا ہے اسے اسٹور کرکے ممکنہ تباہی سے بچا جاسکتا ہے لیکن کاش کوئی اس کا سوچے بھی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)