محمد علی منظر
کہیں سلام، کہیں یہ قیام کرتے ہوئے
سفر تمام ہوا، صبح و شام کرتے ہوئے
سحابِ سبز، اُسے رکھے اپنے سائے میں
چمن کو آئے گا جب وہ خرام کرتےہوئے
وہ خوش نظر ہی نہیں ہے، وہ خوش سخن بھی ہے
کبھی سنو، جو اُسے تم کلام کرتے ہوئے
وہ، جس نے کوئی تکلف، کبھی نہیں رکھا
بہت عجیب لگا، احترام کرتے ہوئے
زمانہ ہوگیا، سوچے ہوئے اُسے، منظر
جو یاد رہتا تھا، دن رات کام کرتےہوئے