اقبال حیدر
وہ سب کے لئے یوں تو فسوں گر نہ ہوا تھا
ایسا ہے مگر کون، جو پتھر نہ ہوا تھا
میرا تھا، مگر میرا مقدر نہ ہوا تھا
وہ ایک ستارہ، جو فلک پر نہ ہوا تھا
جتنا مجھے دکھ آج اُسے مل کے ہوا ہے
اُتنا مجھے کل اُس سے بچھڑ کر نہ ہوا تھا
جب تک نہ زمانے کی ہوا، اُس کو لگی تھی
میرے لیے اُس سے کوئی بڑھ کر نہ ہوا تھا
روداد کُل اتنی سی ہے بس میری زباں کی
اک گھر، جو مرا گھر تھا، مرا گھر نہ ہوا تھا
یہ حال اگر اب ہےتو کیا حال تھا پہلے
اس دنیا میں جب کوئی سخنور نہ ہوا تھا