مسلمان حکمرانوں میں حضرت عمربن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ واحد حکمراں تھے کہ جن کےدورِ خلافت نے خلافتِ راشدہ کے دَور کی یادیں تازہ کیں۔ انہوں نے وہی طرز عمل اختیار کیا، جو خلفائے اربع کا رہا تھا۔ یعنی حقیقتاً باشندگانِ ریاست کے خادم کا کردار ادا کرکے دکھایا۔ ایک وقت تو وہ تھا کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ جس طرف سے گزرتے، وہ راستہ خوشبو سے مہک اٹھتا اور اس خوشبو ہی سے لوگوں کو علم ہوجاتا کہ یہاں سے عمر بن عبدالعزیز ؒ گزرے ہیں۔
وہ، جو لباس ایک باراستعمال کرلیتے، دوبارہ استعمال میں نہیں آتا تھا، لیکن جب خلافت کی ذمّے داریاں ان کے کاندھوں پر آئیں، تو گویاان کی کائنات ہی بدل گئی۔انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ سے جو ان سے پہلے خلیفۂ وقت کی صاحب زادی تھیں اور بے بہا مال و دولت جہیز میں ساتھ لائی تھیں، تمام مال و اسباب لے کر بیت المال میں جمع کروادیا اورعمالِ حکومت کے پاس بھی کچھ نہ رہنے دیا۔ ان سے بھی سارا مال و اسباب لے کر سرکاری خزانے میں جمع کروادیا۔
ہم ذیل میں عمرِثانی، محدث، مجدّد، فقیہ، مردِ صالح، حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒسے متعلق ایک تفصیلی مضمون سلسلہ وار پیش کررہے ہیں۔امید ہے، سابقہ مضامین کی طرح یہ مضمون بھی قارئین کی معلومات میں اضافے کے ساتھ، پسندیدگی کے معیار پر بھی پورا اترے گا۔ (ایڈیٹر، سن ڈے میگزین)
پرسکون، شبنمی رات کا ایک پہر گزر چکا ہے۔ ہر سو اندھیرے کا راج ہے۔ آسمان پر چھائے گہرے بادلوں نے شب کی تاریکی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ ماحول پر ایک سکوت سا طاری ہے۔ ہاں، کہیں دور کسی کتّے کے بھونکنے کی آواز یا کسی پرندے کے پَروں کی پھڑپھڑاہٹ ضرور کچھ دیر کے لیے فضا میں ایک خفیف سا ارتعاش پیدا کردیتی ہے۔ اہلِ دمشق خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ خلیفۂ وقت کے سادہ مکان میں بھی خاموشی ہے۔ سب مکیں سوچکے ہیں، لیکن خلیفہ کے کمرے میں روشن چراغ کی لَو یہ ظاہر کرتی ہے کہ خلیفہ اہم امور اور عوام النّاس کے مسائل نمٹانے میں مصروف ہیں۔ کچھ وقت گزرتا ہے کہ اچانک دروازے پر آہٹ ہوتی ہے اور اہلیہ محترمہ نہایت آہستگی سے اندر داخل ہوتی ہیں۔ خلیفۂ وقت کاغذات سے نظریں ہٹا کر دروازے کی جانب دیکھتے ہیں، تو چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ قلم ہاتھ سے رکھتے ہوئے اہلیہ محترمہ کو مخاطب کرتے ہیں۔’’جی فاطمہ! آیئے تشریف رکھیے۔
آپ ابھی تک سوئی نہیں؟‘‘اہلیہ کچھ کہنا چاہتی ہیں، لیکن الفاظ ساتھ نہیں دے پارہے، چہرے سے گھبراہٹ عیاں ہے۔’’آپ کچھ کہنا چاہتی ہیں؟‘‘ شوہرِ محترم متجسّس نظروں سے دیکھتے ہوئے خوش گوار لہجے میں دریافت کرتے ہیں۔ ’’جی ہاں، امیرالمومنین! مجھے کچھ عرض کرنا ہے۔‘‘ اہلیہ کی گھبراہٹ دیکھ کر خلیفۂ وقت ہاتھ بڑھا کر چراغ بجھادیتے ہیں اور فرماتے ہیں، ’’جی… اب آپ سکون سے بتایئے کیا کہنا چاہتی ہیں؟‘‘ اہلیہ عرض کرتی ہیں۔ ’’امیرالمومنین ؒ! آپ جانتے ہیں کہ عید میں صرف چند دن باقی ہیں، ہمارے بچّوں کے پاس جو معمولی نوعیت کے چند کپڑے ہیں، وہ بھی بوسیدہ ہوچکے ہیں۔ اگر بچّوں کے لیے عید پر نئے جوڑے بنادئیے جائیں، تو بہتر ہو، ورنہ لوگ کہیں گے کہ امیرالمومنین ؒ کے بچّے عید کے دن بھی بوسیدہ لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں۔‘‘خلیفۂ وقت اہلیہ کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’آپ کو جو یومیہ خرچ ملتا ہے، کیا اس میں یہ ممکن نہیں؟‘‘اہلیہ آہستگی سے عرض کرتی ہیں ’’امیرالمومنین ؒ! وہ تو صرف دو درہم ملتے ہیں، جس میں دو وقت کی روٹی ہی بڑی مشکل سے پوری ہوپاتی ہے۔‘‘امیرالمومنین ؒ سوچ میں پڑجاتے ہیں، ایک لمحے کو یادوں کے دریچوں سے اپنا شاہانہ بچپن جھانکتا نظر آتا ہے، دل میں خیال آتا ہے کہ اہلیہ کی بات مناسب ہے۔ کم از کم عید کے موقعے پر بچّوں کا ایک جوڑا ضرور بنا دیا جائے۔
اپنے بوسیدہ اور پیوند زدہ کرتے کے پلّو سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے اہلیہ سے فرماتے ہیں، ’’فاطمہ! تم فکر نہ کرو، ہم کچھ کرتے ہیں۔‘‘ اہلیہ مثبت جواب سن کر خوشی خوشی واپس چلی جاتی ہیں۔ صبح امیرالمومنین ؒ بیت المال کے نگراں کو ایک رقعہ تحریر کرتے ہیں کہ ’’مجھے ایک ماہ کا وظیفہ پیشگی دے دیا جائے، تاکہ بچّوں کے کپڑے بنائے جاسکیں۔‘‘ قاصد رقعہ لے کر بیت المال کے نگراں کے پاس پہنچا۔ نگراں نے رقعہ پڑھا اور اس کی پشت پر کچھ لکھ کر قاصد کے حوالے کردیا۔ امیرالمومنین ؒ نے جب رقعے کا جواب پڑھا، تو بے اختیار آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑیاں جاری ہو گئیں۔ رقعے کے جواب میں نگراں بیت المال نے تحریر کیا تھا۔’’امیرالمومنین ؒ! کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ایک مہینے تک زندہ رہیں گے؟‘‘آپ نے اشک بار نگاہوں کے ساتھ اہلیہ سے فرمایا۔ ’’فاطمہ! تم فکر نہ کرو، اِن شاء اللہ ہمارے بچّوں کو بہشت میں نہایت عمدہ پوشاک ملے گی، جو یہاں کے عمدہ لباس سے بہت بہتر ہوگی۔‘‘
غذا بہ قدر لایموت، لباس بہ قدر سَترپوشی: ایک دن خلیفہ کے غلام نے ان کی اہلیہ سے شکایت کی کہ ’’مالکن! میں روز روز مسور کی دال کھا کھاکے تنگ آ چکا ہوں۔ کسی دن کچھ اور بھی پکالیا کیجیے۔‘‘ مالکن مسکراتے ہوئے گویا ہوئیں۔ ’’تمہارے امیرالمومنین ؒ کا من بھاتا کھانا یہی ہے۔‘‘ یہ ہے عظیم الشّان خلافتِ اسلامیہ کا وہ نام وَر حکمراں کہ جس کا خلافت سے پہلے کا دَور، شاہانہ جاہ و جلال، دولت و ثروت، زیبائش و آرائش سے بھرپور تھا کہ جہاں عسرت و تنگ دستی کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔
بیش بہا، قیمتی، نرم و نازک، ریشم و کم خواب کے لباسِ فاخرانہ زیب تن کرنے والے جب خلیفہ کا منصب سنبھالنے کے بعد جمعے کا خطبہ دینے منبر پر بیٹھے، تو ان کے معمولی بوسیدہ کپڑوں پر پیوند لگے تھے۔ اور پھر اہلیہ بھی کون؟ وہ فاطمہ کہ جو خلیفہ کی پوتی، خلیفہ کی بیٹی، جس کا بھائی بھی خلیفہ اور جس کا شوہر بھی خلیفہ۔ تاریخ میں یہ منفرد اعزاز پھر کسی اور خاتون کو نہیں ملا۔ اس جلیل القدر خلیفہ کا نام، حضرت عمر بن عبدالعزیز ہے، جن کا دورِ خلافت مختصر، لیکن اتنا شان دار، تاب ناک، روشن اور عدل و انصاف سے بھرپور تھا کہ دنیا انہیں ’’پانچویں خلیفہ‘‘ راشد کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ان کے مختصر سے دورِ خلافت میں امّت مسلمہ کی اعلیٰ ترین خدمات نے فاروق اعظم سیّدنا عمر بن خطابؓ کے دورِ خلافت کی یاد تازہ کردی۔ اسی لیے تاریخ نے آپ کو ’’عمرِثانی‘‘ کے لقب سے سرفراز کیا۔
ولادت: حضرت عمر کے والد، عبدالعزیز بن مروان مصر کے حاکم تھے۔ آپ کی ولادت61ہجری میں مصر کے پرفضا علاقے ’’حلوان‘‘ میں واقع محل میں ہوئی۔ اس وقت دنیا کا ایک تہائی سے زیادہ علاقہ مسلمانوں کے زیرِنگیں تھا۔ افریقا کے دوردراز جنگلات سے یورپ کے سبزہ زاروں تک، اندلس کے میدانوں سے سندھ کے ریگستانوں تک، ملتان کے لہلہاتے کھیتوں، کابل کے پہاڑوں سے ہندوستان کی سرحدوں تک اور روم سے چین تک امّتِ مسلمہ کا پرچم لہرا رہا تھا۔ بنو امّیہ دنیائے اسلام کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ ان کی قوت و سطوت کے آگے کسی کو دَم مارنے کی ہمّت تھی، نہ جرأت۔
نام و نسب اور خاندان: آپ کا نام ’’عمر‘‘ اور کنیت ’’ابو حفص‘‘ تھی۔ والد ماجد کی جانب سے شجرئہ نسب کچھ یوں ہے، عمر بن عبدالعزیز ابن مروان بن حکم بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب القرشی الاموی۔جب کہ آپ کی والدہ محترمہ ’’امّ عاصم‘‘ امیرالمومنین سیّدنا عمر بن خطاب کی پوتی ہیں۔ والدہ کے اس تعلق کی بناء پر آپ کی زندگی پر فاروق اعظم، خلیفۂ ثانی، حضرت عمر بن خطابؓکا گہرا اثر رہا۔امیرالمومنین، حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا تعلق خاندانِ قریش کی ایک شاخ بنوامّیہ سے تھا۔وہی قبیلہ قریش، جوسرزمینِ عرب میںاپنی شجاعت، بہادری، جرأت و عظمت، فہم و فراست اورطاقت و ذہانت میں بے مثال تھا۔
علم و فضل کے خزینوں تک رسائی: مال و دولت کی فراوانی اور بیش بہا آسائشوں کی موجودگی کے باوجود سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ بچپن ہی سے انصاف پسند، صلح جو، نرم طبیعت اور پاک باز انسان تھے۔ بردباری اور سنجیدگی ان کے منفرد اور جداگانہ مزاج کا حصّہ تھی۔شخصیت میں قائدانہ صلاحیتیں بچپن ہی سے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔ والد محترم نے ان کی ان ہی صلاحیتوں کے سبب بچپن ہی میں دین کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مدینہ منورہ روانہ کردیا۔ مدینہ اس وقت دنیا میں علم و ادب کا اعلیٰ ترین مرکز تھا۔ یہاں آپ ؒ نے صحابہ اکرام اجمعینؓ اور مشہور تابعین حضرت عبداللہ بن جعفرؓ ، حضرت انس بن مالکؓ ، حضرت ابوبکر بن عبدالرحمنؓ ، حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعودؓ کے درِ دولت سے علم و عمل کے خزینے حاصل کیے اور یہیں قرآن پاک حفظ کیا۔
اس زمانے میں محدث صالح بن کیسان، مدینہ منورہ میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے، لہٰذا حاکمِ مصر، عبدالعزیز کی ہدایت پر انہوں نے سیّدنا عمر ؒ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ (سیرت ابن جوزیہ)۔ علم و فضل اور قرآن و حدیث فقہ میں ان کا یہ عالم تھا کہ یوں محسوس ہوتا، جیسے علم کا بے پایاں اور عمیق سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور اس کی موجیں گویاساحلِ قرطاس پر گوہر ہائے آبدار بکھیرتی چلی جاتی ہیں۔ وہ اگر وہ خلیفہ نہ ہوتے تویقیناً آئمہ شرع میں سب سے بڑے امام مانے جاتے۔زید بن اسلم، حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بجزعمر بن عبدالعزیز ؒ ، کسی شخص کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سےاس قدر مشابہ ہو۔ (تاریخ الخلفاء)۔
عالمِ شباب اور شان و شوکت: حضرت عمر بن العزیز ؒکا بچپن نازونعم اور نوجوانی شان و شوکت میں گزری۔ زیبائش و آرائش کا یہ عالم تھا کہ قیمتی سے قیمتی لباس بھی اگر ایک مرتبہ زیبِ تن فرما لیتے، تو دوبارہ ہاتھ تک نہ لگاتے۔ دنیا کی بہترین خوشبوئیں، عطر، مشک و عنبر استعمال فرماتے۔ جس راستے سے گزر جاتے دور تک لوگوں کو پتا چلتا کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کی سواری گزری ہے۔ آپ کی داڑھی مشک و عنبر سے تر رہتی۔ مشک و عنبر یوں بکھرا ہوتا کہ جیسے نمک بکھرا ہو۔ آپ کی چال ڈھال، ناز و انداز، خوشبوئوں سے معطر لباسِ فاخرہ دیکھ کر لوگ ورطہ حیرت میں ڈوب جاتے، لیکن اس سب ٹھاٹ باٹ کے باوجود خوف ِخدا، پاک بازی، تقویٰ، طہارت، بردباری و سنجیدگی، شرم و حیا، عدل و انصاف، سخاوت و فیّاضی، مہر و محبت اور نزاکت و نفاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
نکاحِ مسنونہ: حضرت عمر بن عبدالعزیز ابھی مدینہ منورہ ہی میں تھے کہ والدِ محترم دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ والد کے انتقال کے بعد تایا، عبدالملک بن مروان نے انہیں مدینہ سے دمشق بلوا لیا اور اپنی عزیز ترین بیٹی فاطمہ سے ان کا نکاح کر دیا۔ آپ کی اہلیہ، فاطمہ کی شان میں کسی شاعر نے کیا خوب قصیدہ لکھا۔ترجمہ۔ ’’وہ خلیفہ کی بیٹی، اس کا دادا بھی خلیفہ، وہ خلیفہ کی بہن، اس کا شوہر بھی خلیفہ۔‘‘
مدینہ منورہ کی گورنری اور مسجد نبوی ؐ کی توسیع: عبدالملک کی وفات کے بعد جب ولید خلیفہ بنا، تو اس نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مدینہ منورہ کا گورنر مقرر کردیا۔ چناں چہ86ہجری سے93ہجری تک آپ مدینہ کے گورنر رہے۔ یہ دور، مدینہ کے عوام اور اہلِ علم کے لیے نہایت شان دار رہا۔ مدینے کا حاکم مقرر ہوتے ہی آپ نے بڑے بڑے فقہاء اور علماء کو جمع کر کے ایک فقہائے مدینہ کونسل بنائی،جن کے مشوروں سے شرعی اور امارتی امور سرانجام دیئے جانے لگے۔
اپنے اس دور میں آپ نے ولید کے مشورے سے مسجد نبویؐ کی ازسرِنو تعمیر کروائی اور مسجد کی تین سمتوں مغرب، شمال اور مشرق میں2369مربع میٹر رقبہ کا اضافہ فرمایا۔ ازواجِ مطہراتؓ کے حجرات مقدّسہ کو بھی مسجد کی حدود میں شامل کر لیا۔ اس طرح مسجد کا کل رقبہ6440مربع میٹر ہو گیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ ہی نے پہلی مرتبہ مسجد نبوی ؐ میں محراب بنوائی اور مسجد کے چاروں کونوں میں مینار تعمیر کروائے۔ اس سے پہلے مسجد نبوی ؐ میں نہ مینار تھے ،نہ محراب، یہ کام91ہجری (709ء) میں تکمیل پزیر ہوا۔ (تاریخ مدینہ، مولانا عبدالمعبود)۔
روضہ رسولؐ پر پنج گوشہ دیوار کی تعمیر: یہ88ہجری (706ء) کی بات ہے، جسے حضرت عبداللہ بن محمد بن عقیل بیان کرتے ہیں کہ ’’میں حسب ِمعمول رات کے آخری حصّے میں نمازِ تہجّد کی ادائیگی کے لیے مسجد نبوی ؐ جانے کے لیے گھر سے نکلا، اس وقت بارِ رحمت کا نزول بھی جاری تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ مدینے کی فضائوں میں نہایت دل آویز خوشبو رچی بسی ہے۔ میں نے زندگی بھر ایسی نفیس اور قابلِ رشک خوشبو کبھی نہیں پائی۔ بہرحال، روضہ رسول اللہؐ پر سلام کے لیے حاضر ہوا ،تومیںنے دیکھا کہ اس بقعہ نور کی ایک دیوار زمیں بوس ہو گئی ہے۔
اس وقت یہ راز افشا ہوا کہ بادِ مشک بار، قبر اطہر مبارکہ ؐ سے پھوٹ رہی ہے۔ میں نے ابھی روضہ مطہرہ ؐ پر سلام پیش ہی کیا تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ آ پہنچے۔ ان کے حکم سے فوری طور پر اس جگہ ایک چادر سے پردہ کر دیا گیا اور امیرِ شہر کی نگرانی میں کچھ ہی دیر میں قبرِ اطہر کے چاروں جانب دیوار کی بنیادوں کی کھدائی کا کام شروع ہو گیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنی نگرانی میں روضہ مبارک ؐ کے چاروں جانب پنج گوشہ دیوار بنوا کر اسے مسجد کی چھت تک بلند کروا دیا۔ اس دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے، اس طرح روضہ شریف اندر سے محفوظ ہو گیا۔‘‘ مقصورہ شریف کی جالیوں سے اندر کی جانب دیکھنے سے روضہ شریف کی اس پنج گوشہ دیوار پر ہرے رنگ کا پردہ پڑا نظر آتا ہے۔ روضہ شریف کی دیوار اور مقصورہ شریف کے درمیان پانچ میٹر کا فاصلہ ہے۔مدینہ منورہ میں اپنی گورنری کے دوران سیّدنا عمر بن عبدالعزیز نے بہت سے ترقیاتی کام سرانجام دیئے، جن میں مساجد اور کنوئوں کی تعمیر اور گزرگاہوں کو پکّا کروانا بھی شامل ہے۔
امیرِ مدینہ کے عہدے سے معذوری: ولید بھی مزاجاً بنوامیہ کے دیگر خلفاء سے مختلف نہیں تھا،لہٰذا 93ہجری میں اس نے چند افراد کی شکایت پر سیّدنا عمر کو معزول کر کے دمشق واپس بلا لیا۔ طبری کی روایت ہے کہ ایک رات جب مدینے کے باسی آرام کر رہے تھے، سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ اپنے غلام ’’مزاحم‘‘ کے ساتھ نہایت خاموشی سے مدینے سے نکلے اور دمشق کی راہ لی۔
مدینہ طیبہ کی پاک سرزمین، کھجوروں کے لہلہاتے درخت، خوشبوئوں سے معطر فضائیں، نیلگوں آسمان پر روشن خوب صورت چانداور چمکتے جھلملاتے ستاروں کی کہکشاں اس بات کے گواہ تھےکہ جب مصر اور دمشق کے محلوں میں رہنے والا یہ شہزادہ مدینے آیا تھا، تو اس کا دیدہ زیب، زرق برق، بیش قیمت سامان تیس اونٹوں پر لدَ کر مدینہ آیا تھا اور آج مدینے کا یہ حاکم اپنے دونوں ہاتھ خالی لیے ایک اونٹ پر اپنے غلام کے ساتھ نہایت خاموشی سے بہتے اشکوں، پرنم پلکوں اور بوجھل قدموں کے ساتھ شاہِ عرب و عجم کے شہر، مدینے کو الوداع کہہ رہا ہے۔ انہیں ڈر تھاکہ اگر صبح ہو گئی اور مدینے کے باسی جاگ گئے، تو وہ انہیںجانے نہیں دیں گے۔ (جا ری ہے)