• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج بڑے تاریخی فیصلے کا دن ہے۔ یہ طے ہوگا کہ معذول وزیراعظم اور قائد نون لیگ نوازشریف جیل جائیں گے یا بری ہو جائیں گے۔ بڑا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری احتساب عدالت اسلام آبادکے جج محمد بشیر کے کندھوں پر ہے۔ یہ ان کی زندگی کا اہم ترین فیصلہ ہوگا۔ اس سے قبل وہ سابق صدر آصف علی زرداری کو پانچ کرپشن ریفرنسوں میں بری کر چکے ہیں۔ نوازشریف بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے بیانیے سے نہیں ہٹیں گے اور وہ اس کیلئے جیل جانے کو بھی تیار ہیں۔28 جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ کے پاناما کیس میں فیصلے جس میں نوازشریف کو بطور وزیراعظم ہٹا دیا گیا تھا کے بعد جس قسم کا ماحول بنایا گیا ہے اور ہر جگہ جس قسم کا تاثردیا گیا ہے میں نوازشریف کی بریت معجزے سے کم نہیں ہوگی تاہم یہ تو جج محمد بشیر پر انحصار ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ نوازشریف کے ساتھ ان کی بیٹی مریم نواز، ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر اور ان کے دو بیٹے حسین اور حسن بھی اس ریفرنس جو کہ ان کے لندن فلیٹس کے بارے میں ہے ملزم ہیں۔ یہ فیصلہ سابق وزیراعظم، مریم اور صفدر کے بارے میں ہوگا جبکہ حسین اور حسن جو اس ٹرائل کا حصہ ہی نہیں بنے یہ کہتے ہوئے کہ وہ برطانوی شہری ہیں اور ان پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا کے بارے میں ان کی غیر حاضری کے جرم میں فیصلہ تو آئے گا مگر اصل کیس کا فیصلہ بعد میں آئے گا جب وہ اس عدالتی کارروائی میں شامل ہوں گے۔ دوسری وجوہات کے علاوہ ان کی پاکستان میں غیر موجودگی کی سب سے بڑی وجہ ان کی والدہ بیگم کلثوم نواز کی شدید علالت ہے جو کہ پچھلے دس ماہ میں زیادہ کم نہیں ہوئی اور انہیں ایک سے ایک بڑھ کر مسائل کا سامنا ہے۔
یہ بات تو حتمی طور پر طے ہے کہ اگر نوازشریف کو سزا ہوتی ہے تو وہ بغیر کوئی وقت ضائع کئے اور بغیر اپنی زوجہ کی بیماری کو سامنے رکھتے ہوئے فوراً پاکستان آجائیں گے اور سیدھے جیل جانے کو ترجیح دیں گے۔ وہ اپنے قول وفعل کہ وہ بزدل نہیں ہیں اور نہ ہی وہ جیل کی سلاخوں سے ڈرتے ہیں کو سچ ثابت کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ یہ پیغام بھی دینا چاہتے ہیں کہ وہ ایسی سختیوں سے گھبرانے والے نہیں ہیں اور وہ ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں مگر وہ اپنے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ تاہم اگر وہ بری ہو جاتے ہیں تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اپنی بیمار بیوی کے ساتھ ہی رہیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس وجہ سے نون لیگ کی الیکشن کمپین بھی لیڈ نہ کرسکیں۔ وہ تین ہفتوں سے لندن میں ہیں جبکہ پاکستان میں ان کی موجودگی اپنی جماعت کیلئے انتہائی ضروری ہے کیونکہ اصل ووٹ بینک ان کا ہے اور وہی پاکستان کے سب سے پاپولر لیڈر ہیں۔ ان کی جماعت ان کی غیر موجودگی کی وجہ سے کوئی بہت بڑی انتخابی مہم شروع نہیں کر سکتی جس کا یقیناً اسے نقصان ہو رہا ہے۔ ان کے بغیر نون لیگ میں کوئی بھی ایسا رہنما نہیں ہے جو کہ الیکشن کمپین میں ان جتنا موثر ثابت ہو۔ شہبازشریف کافی محنت کر رہے ہیں مگر ان کا وہ عوامی اثر ورسوخ نہیں ہے جو کہ ان کے بڑے بھائی کا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس جماعت میں نوازشریف کے بعد مریم ایک بہت طاقتور کمپینر کے طور پر سامنے آئی ہیں مگر وہ بھی لندن میں ہیں اور ان کی بھی اپنے والد کی طرح وطن واپسی کنفیوژن کا شکار ہے۔ سابق وزیراعظم نے جج محمد بشیر سے درخواست کی ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلہ کچھ عرصہ کیلئے موخر کر دیا جائے کیونکہ وہ یہ فیصلہ خود عدالت میں موجود ہو کر سننا چاہتے ہیں مگر اپنی زوجہ کی علالت کی وجہ سے فوراً واپس نہیں آسکتے۔ تاہم یہ جج کی صوابدید پر ہے۔ ہمارے ہاں بے شمار مثالیں موجود ہیں جبکہ مختلف عدالتیں فیصلے محفوظ کرنے کے کئی کئی ماہ بعد سناتی ہیں اور ان میں وہ بھی مقدمات شامل ہیں جن کی سیاسی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ فیصلہ تو وہی ہے جو جج کوکرنا ہے لہٰذا اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کچھ عرصہ کیلئے اسے موخر کر دیا جائے۔ چونکہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو کوئی بھی مطالبہ چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا جو سابق وزیراعظم کرتے ہیں اس کی مخالفت کرنی ہوتی ہے لہٰذا اب بھی انہوں نے کہہ دیا ہے کہ نوازشریف آسمان سے نہیں اترے کہ ان کیلئے الگ قانون ہو اور فیصلہ اسی دن ہی سنایا جائے جو دن مقرر کیا گیا ہے۔ اب آتے ہیں اس فیصلے کے سیاسی مضمرات کے بارے میں۔ کوئی مانے یا نہ مانے رائے سب کی ایک ہی ہے کہ نوازشریف کیلئے اس فیصلے میں سیاسی فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اگر انہیں، ان کی بیٹی اور داماد کو سزا ہوتی ہے اور وہ جیل جاتے ہیں تو ان کیلئے ہمدردی کی لہر مزید بڑھے گی اور وہ ’’وکٹم ہڈکارڈ‘‘ کو زیادہ استعمال کر سکیں گے۔ جب نوازشریف بار بار احتساب عدالت میں پیش ہوتے رہے اور کوئی 100 کے لگ بھگ پیشیاں بھگت چکے ہیں تو عوام میں ان کی پذیرائی بڑھی کیونکہ پاکستان کا کوئی بھی اتنا اہم سیاسی رہنما نہیں ہے جس نے اس قدر کڑے احتساب کا سامنا کیا ہو اور قانون کے سامنے سر جھکایا ہو۔ یہاں تو ڈکٹیٹر ایک بھی پیشی بھگتنے کو تیار نہیں ہوتا اور مختلف خیلوں بہانوں سے ملک سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ سزا ہونے کی صورت میں نوازشریف کے پاس قانونی آپشنز موجود ہوں گے۔ ہوسکتا ہے وہ جیل سے زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کے اندر ہی باہر آ جائیں۔ وہ ایسے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے اور تقریباً سو فیصد کیسوں میں عدالتیں ایسے فیصلے فوراً معطل کر دیتی ہیں اور ملزمان کو ضمانت دے دیتی ہیں پھر بعد میں اپیل پر فیصلہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیا میں کیا پیغام جائے گا کہ ایک سابق وزیراعظم جو کہ اب بھی پاکستان کے سب سے پاپولر لیڈر ہیں کو جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ خاتون ہونے کے ناطے مریم کو سزا دینا بھی کسی بڑے رسک سے خالی نہیں ہوگا۔ اگر نوازشریف بری ہو جاتے ہیں جس کا امکان قطعاً نہیں ہے تو بھی انہیں ہی سیاسی فائدہ ہوگا کیونکہ ایسے فیصلے سے ان کا یہ بیانیہ کہ وہ بے قصور ہیں، ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے اور انہیں ایک منصوبے کے تحت نشانہ بنایا گیا ہے مزید مضبوط ہوگا۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوگا جبکہ 20 دن بعد الیکشن ہوں گے ۔ایسے حالات پید اہوگئے ہیںجس میں بہت سے پلان ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال سے سر توڑکوششیں جاری رہیں جو کہ پچھلے دو سال میں بہت تیز کر دی گئیں کہ کسی نہ کسی طرح نوازشریف کو گندا کیا جائے اور ان کی مقبولیت کو ٹھیس پہنچائی جائے مگر کامیابی نہیں ہوسکی۔ اس سارے کمپین میں کچھ سیاسی جماعتیں خصوصاً پی ٹی آئی سب سے آگے رہی مگر اب بھی حالت یہ ہے کہ شاید کوئی بیوقوف ہی یہ کہے گا کہ یہ پارٹی 25 جولائی کے انتخابات میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔ اس کے اپنے بہت سے لیڈروں کو بھی اس بات کا یقین نہیں ہے کہ یہ قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ سیٹیں لے لے گی۔ وہ بات کرتے ہیں کہ عمران خان مانگے تانگے کی سیٹیں لے کر وزیر اعظم بن جائیں گے لیکن یہ کوئی آسان بات نہیں ہے کیونکہ ابھی تو بہت سے مشکل مراحل طے ہونے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین