• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خواتین کو جنسی ہراسگی کا نشانہ بنانا

موجودہ دور میں صنف نازک گھر سے باہر قدم رکھ کر ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ آ گئی ہے اور اس میں کوئی شک نہیںکہ تعلیمی اور انتظامی اداروں سے لیکر عسکری میدان تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں خواتین نے خود کو منوا بھی لیا ہے۔ لیکن آج کی خواتین بظاہر خو مختار اور آزاد ہونے کے باوجود بھی مردوںکی ہراساں کرنے کی ازلی فطرت سے محفوظ نہیں۔اور چار دیواری سے باہر قدم رکھتے ہی حوا کی بیٹی پر چاروں اطراف ایک انجانے خوف کی کیفیت طاری رہتی ہے۔دوران سفر سے لیکر دفاتر تک عورت کو کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی شکل میں ہراساں کرنے کے قبیح فعل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس وقت ہمارے ملک کی نصف سے بھی زیادہ آبادی خواتین پر مشتمل ہے جو مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے لیکن افسوس کہ ان کی حوصلہ افزائی کی بجائے ہم انہیں جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں، جس سےاکثر خواتین ذہنی کوفت کا شکار رہتی ہیں اور اپنی عزت کی خاطر کسی سے بات بھی نہیں کرپاتیں۔خواتین کے ساتھ ایسا ہوتا چلا آیا ہے کہ انھیں دفتر میں ڈیوٹی اور یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران جنسی طورپرہراساں کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ راہ چلتے اوربازاروں میں فقرے بازی، چھیڑ چھاڑ کے واقعات بھی عام ہیں۔

قانون کا سہارا

اگر خواتین کو دفاتر،کالج،فیکٹری یا پھرہسپتال وغیرہ میں ہراساں کیا جائے، توان کوڈرنے کی بجائے قانون کا سہارا لینا چاہیے کیونکہ جب تک کسی کو سزا نہیں ہو گی تب تک خواتین جنسی طور پر ہراساں ہوتی رہیں گی۔ اچھے دفاتر میںخواتین کی راہنمائی کے لئے ایک ایسا شعبہ بھی بنایا جاتا ہے تاکہ خواتین اپنی شکایات درج کرا سکیں اور معاملہ زیادہ خرابی کی جانب نہ جائے، اس کا حل فوری نکالا جائے اور اگر پھر بھی کوئی خواتین کو ہراساں کرتا ہے تو اس کے خلاف بھر پور ایکشن لیا جائے تا کہ وہ اپنے انجام کو پہنچ جائے۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگرکوئی خاتون جنسی طور پر ہراساں کرنے کا غلط الزام عائد کرتی ہے تواس کو بھی سزا دی جائے تا کہ انصاف کا بول بالا ہو اور کوئی قانون کی آڑ میں اپنے غلط مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔

ثبوت کا نہ ہونا

ہمارے معاشرے میں جہاں جنسی تشدد کے گھناؤنے فعل کے ثبوت مشکل سے ملتے ہیں تو چھیڑ چھاڑ، جملے بازی کرکے ذہنی اذیت پہنچانا اور دست درازی کے شواہد اور ثبوتوں کا تو تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ عموماً خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات سے ارد گرد کے لوگ آگاہ ہوتے ہیں اورکچھ انفرادی طور پر اس کی مذمت بھی کرتے ہیں لیکن جب کوئی عورت انسانیت سے گرے ہوئے مجرم کی نشاندہی کرتی ہے تو انکی گواہی دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ مرد تو کجا، خواتین بھی بدنامی کے خوف اور سخت رد عمل سے خائف ہو کر اپنے لب سینے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

ہراسگی کا قانون

خواتین کو جنسی ہراسگی سے محفوظ رکھنے کی اقوام متحدہ کی قرارداد پر دستخط کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔2010ء میں پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کا قانون منظور کیا گیا۔قانون کے تحت باقاعدہ سزاؤں کا اعلان ہوا کہ اگر کوئی بھی شخص کسی ملازمت پیشہ خاتون کو ہراساں کرے گا تو آئینِ پاکستان کی دفعہ509کے تحت اسے تین سال قید اور پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔بعد میں 2012ء میں ایک ترمیمی ایکٹ کے ذریعے ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی طالبات اور پبلک مقامات پر سفر کرنے والی خواتین کو بھی اس ایکٹ کے تحت تحفظ فراہم کیا گیااوروضاحت کی گئی کہ ہراساں کرنے کا مطلب صرف جنسی طور پر ہراساں کرنا نہیں بلکہ غیر اخلاقی گفتگو یا جنسی عمل کی طرف مائل کرنے کا کوئی اشارہ یا جملہ کسنا، گھورنا یا ایسے دیکھنا کہ جس سے خاتون خود کو غیر محفوظ تصور کرے، ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے اور جنسی طور پر ہراساں کرنا اس کی انتہائی شکل ہے۔

خواتین کی قوانین سے لاعلمی

ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 90 فیصد خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ اور 82 فیصد خواتین کو بس اسٹاپ پر ہراساں کیا جاتا ہے لیکن بے عزتی اور بدنامی کے خوف سے خواتین اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی آواز بلند نہیںکرتیں اور نہ ہی اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کی کوئی رپورٹ درج کراتی ہیں۔اس کی ایک وجہ خواتین کی خود کو حاصل ہونے والے حقوق سے لاعلمی بھی ہے۔رپورٹ میں مزیدبتایا گیا ہے کہ ملک کی 95 فیصد خواتین اس بات سے آگاہ ہی نہیں کہ ان کے تحفظ کے لیے کون سے قوانین موجود ہیں جبکہ 99 فیصد خواتین دفعہ 509 سے لاعلم ہیں۔ایک دوسری رپورٹ کے مطابق پنجاب اور سندھ میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات رپورٹ کرنے کی شرح صرف 10 فیصد جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں یہ شرح اس سے بھی کم ہے۔

معاشرے میں سدھار کی ضرورت

مرد کے طاقتور ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ جسے چاہے اپنی ہوس کا نشانہ بنا لے،اسلام ہمیں ہر عورت کی عزت کا درس دیتا ہے۔ اسی طرح خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنی عزت کا خودبھی خیال رکھیں اور مردوں کے ساتھ اتنے ہی مراسم بڑھائے جائیں جو ضرورت سے زیادہ نہ ہوں، انھیںاپنے دائرہ کار سے باہر ہر گز نہیں نکلنا چاہیے۔ اس کے علاوہ گھر سے باہر جانے والی خواتین اپنے لباس پر بھی خصوصی توجہ دیں،ایسا لباس پہننے سے اجتناب کیا جائے جومردوں کے جذبات کو ابھارتا ہے۔ ہم سب کا فرض ہے کہ معاشرے کی بہتری کے لئے اپنی اپنی جگہ مل کر کام

کریں تا کہ معاشرے میں خواتین اور بچیوںکی عزت کا بھرم رہ سکے ہمیں ایسی فلمیں اور ڈرامے بنانے کی ضرورت ہے جس سے معاشرے کی اصلاح ہو سکے نہ کہ ایسے ڈرامے بنائے جائیں جو معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن جائیں۔ ہمیں اپنی نسل نو کی تربیت کرنی ہو گی، ہمیں مادر پدر آزادی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا ورنہ ہماری مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں یوں ہی سر عام رسوا ہوتی رہیں گی۔ والدین کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اپنے بچوں پرنظر رکھیں، دیکھیں کہ وہ کس سے ملتے ہیں اور ان کے دوستوں میں کس قسم کے لوگ شامل ہیں۔ والدین کے لئے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے اوراگر آپ ایسا نہیں کرتے تو پھر کسی غلط سرگرمی میں آپ اپنے بچوں کو الزام نہیں دے سکتے۔ 

تازہ ترین