• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’بادشاہی مسجد‘‘ مغلیہ دور کا ایک عظیم تعمیراتی شاہکار

’’بادشاہی مسجد‘‘ مغلیہ دور کا ایک عظیم تعمیراتی شاہکار

لاہور کی نمائندگی کرنے والی تاریخی اور ثقافتی عمارات میں سے ایک اہم ترین عمارت بادشاہی مسجد ہے۔ بادشاہی مسجد قلعہ لاہور کے مغربی جانب کھلنے والے عالمگیری دروازے کے بالکل سامنے واقع ہے ۔ اس خوب صورت اور تاریخی مسجدکی تعمیر، مغلیہ سلطنت کے چھٹے حکمران اورنگزیب عالمگیر کے حکم کے تحت شاہی سرپرستی میں 1671ء میں شروع ہوئی اور1084ھ بمطابق 1673ء میں اسے مکمل کرلیا گیا۔ یہ مسجد مغل شہنشاہ اورنگزیب کے رضاعی بھائی فدائی خان کوکہ نے اپنی نگرانی میں تعمیر کروائی۔ اس وقت اس کی تعمیر پر 6لاکھ روپے کے مساوی خطیر رقم خرچ ہوئی۔

بادشاہی مسجد پاکستان کی دوسری اور جنوبی ایشیا کی پانچویں بڑی مسجد ہے۔ 1673ء سے1986ء تک اسے دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل رہا، یعنی 313سال تک یہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد کہلائی۔ مسجد کی چھت سے اس کے چار میناروں کی اُونچائی 13.9 فٹ ہے، یہ مینار تاج محل سے بھی بڑے ہیں۔ تاج محل کا پلیٹ فارم اس مسجد کے 278,784 مربع فٹ کے اندر سما سکتا ہے۔

یہ مسجد ایک بہت بڑے چبوترے پر بنائی گئی ہے، جو تمام کا تمام سرخ پتھر کا بنا ہوا ہے اور زمین سے کافی بلندی پر واقع ہے۔ اس چبوترے کے چاروں کونوں پر چا ر اونچے اونچے مینار ہیں اور ہر مینار کی چار منزلیں ہیں۔ آخری منزل تک پہنچنے کے لیے مینار کے اندر چکر والی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں، جن کے ذریعے اوپر چڑھ کر لوگ آس پاس کے مناظر دیکھ کر لطف اٹھاتے ہیں۔ ان چار میناروں کے ذریعے لاہور شہرکے چاروں حصوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔مسجد کے ایک طرف دریائے راوی بہتا ہے، جو مینار کی اونچائی سے ایک چمکدار اور سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی لکیر کی مانند نظر آتا ہے۔ دوسری طرف شہر کی چھوٹی بڑی عمارتیں یوں دکھائی دیتی ہیں جیسے دور تک مٹی کے گھروندے بکھرے ہوئے ہوں۔ دروازے کی طرف لاہور کا شاہی قلعہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کا منتظر رہتا ہے۔

’’بادشاہی مسجد‘‘ مغلیہ دور کا ایک عظیم تعمیراتی شاہکار

ان میناروں کے بارے میں ایک خاص بات یہ مشہور ہے کہ ان میں سے چاہے کسی بھی مینار پر کھڑے ہو کر جہانگیر کے مقبرے کے میناروں کو دیکھا جائے، توہر صورت صرف تین ہی نظر آتے ہیں اور چوتھا آنکھوں سے اوجھل رہتا ہےتاہم اگر جہانگیر کے مقبرے سے شاہی مسجد کے مینار دیکھے جائیں تو چاروں نظر آتے ہیں۔ صرف اسی ایک بات سے اس زمانے کے ماہر انجینئروں کی فنی مہارت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔مسجد کے باہر کے حصے میں گیارہ محرابیں اور سنگ مر مر کے بنے ہوئے آٹھ مینار ہیں، ان کے علاوہ تین بڑے گنبد بھی ہیں جو سنگ سرخ اور سنگ مر مر سے تیار کیے گئے ہیں۔

مسجد کا داخلی دروازہ 15 فٹ اونچے چبوترے پر بناہوا ہے جبکہ چبوترے کی اپنی پیمائش35'X65'ہے، جس پر پہنچنے کے لیے 22 زینے چڑھنے پڑتے ہیں ۔ داخلی دروازے کی اونچائی 77فٹ ہے، جس کے چاروں کونوں پر مینارہیں، جن کی چوٹی پر گنبدبنے ہوئےہیں۔ داخلی دروازے کے اُلٹے ہاتھ پر شاعر مشرق علامہ اقبال کا مزار ہے ۔ ڈیوڑھی کی عمارت بھی دو منزلہ ہے، جس کی بالائی منزل پر کبھی امام مسجد اور مؤذن وغیرہ رہائش پذیر ہواکرتے تھے مگر آج کل وہاں تبرکات گیلری قائم ہے۔ اس گیلری میں اہم اسلامی تبرکات شو کیسز میں رکھے گئے ہیں۔

بادشاہی مسجد کے وسیع وکشادہ صحن کا مجموعی رقبہ 3,64,500 مربع فٹ بنتا ہے۔ ایوان کے سامنے ایک پلیٹ فارم ہے اور اس کا سائز150'X225'ہے۔ صحن کے وسط میں ایک تین فٹ گہرا پانی کا تالاب ہے، جس کی لمبائی اور چوڑائی 50 فٹ ہے، جو اب بھی وضو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔

ایوان کی چھت تین گنبدوں پر مشتمل ہے۔ بادشاہی مسجد لاہور کے مینار اپنی قامت میں بلند اور شکل میں عام میناروں سے قدرے مختلف ہیں۔ بادشاہی مسجد کی تعمیر سے قبل اس قسم کے مینار مغل بادشاہ جہانگیر کے مقبرے پر تعمیر کیے گئے تھے۔ بادشاہی مسجد کے میناروں کی کل اونچائی176'-4'' ہے، سیڑھیوں کی تعداد 204 ہے جبکہ کرسی کی اونچائی 20 فٹ ہے ۔

’’بادشاہی مسجد‘‘ مغلیہ دور کا ایک عظیم تعمیراتی شاہکار

ان کی اونچائی 21 فٹ ہے جبکہ صحن سےیہ 3 فٹ بلند ہیں۔ دالان کی اندرونی چوڑائی 13 فٹ ہے ۔ مشرقی جانب کا دالان برطانوی حکومت کے ابتدائی سالوں میں گراد یا گیا تھا۔

سکھوں کے عہد میں یہ مسجد مسلمانوں سے چھین لی گئی تھی اور سرکار نے اپنی مرضی سے یہاں اصطبل بنادیاتھا۔ انگریز عہد میں بھی یہاں فوجیں قیام پذیر رہیں۔ 1856ء میں یہ مسجد ایک بار پھر مسلمانوں کے حوالے کی گئی، جس کے بعد مختلف ادوار میںاس کی مرمت و بحالی کا کام جاری رہا اور بالآخر 1960ء میں اسے اس کی اصل اور موجودہ شکل میں بحال کیا گیا۔

تازہ ترین