• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
متن میں تو جرم ثابت ہے مگر۔۔۔

میرے سامنے کئی برس پہلے کا جنگ اخبار کھلا پڑا ہے جس میں نواز شریف کو 14 برس قید کی سزا کے ساتھ ساتھ 21 سال نااہل کرنے کی شہ سرخی ہے۔لوگوں کو یاد بھی نہیں کہ کبھی ایسا بھی ہوا تھا۔وقت کے فرعون بھول جاتے ہیں کہ سب سے بڑا منصف تو رب ہے جو سب سے بڑی عدالت کا سربراہ ہے۔

ایک فیصلہ 1979 میں بھی آیا تھا اانسانی فیصلہ لیکن 1986 کا لاہور آج تک شہید بھٹو کی بیٹی کا استقبال نہیں بھولا جب وقت کا سب سے بڑا ڈکٹیٹر بھی لوگوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے لرز گیا تھا۔

پھر وہ خاتون دو مرتبہ وزیر اعظم بنی کیونکہ بے شک عزت دینے والی ذات میرے رب کی ہے۔کیا کچھ نہیں کیا ہم نے اس عورت کے ساتھ، کبھی آئی جے آئی بنائی کبھی سیکورٹی رسک کہا اور کبھی کیا کبھی کیا آخر وہ بھی مار دی گئی۔

سن1999 میں میرے قائد کے پاکستان نے اپنے منتخب وزیر اعظم کو پھر جیل کے پیچھے دیکھا۔آمریت کے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود نواز شریف واپس آئے لیکن اب دونوں رہنما سمجھ چکے تھے کہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ایٹم بم دینے والے کو ٹھوکریں مار مار کر پھانسی پر چڑھا دیا اور میزائل ٹیکنالوجی دینے والی کو راولپنڈی میں مار کر بڑی عجلت میں بے گناہ کا خون بھی صاف کر دیا گیا۔

ہائے ہمارے وزرائے اعظموں کا خون کتنا ارزاں ہے میرے پاک وطن میں۔نواز شریف راولپنڈی کے اسپتال میں دختر مشرق کو مردہ دیکھ کر رو رہے تھے وہ جانتے تھے کہ ظالموں نے پاکستان کی سالمیت پر بڑا سخت وار کیا ہے۔

میرا لاہور اس بات کا بھی گواہ ہے۔ جب ہر راستہ بند تھا اس ملک کا چیف جسٹس اپنے بچوں سمیت قید میں تھا۔نواز شریف ماڈل ٹاؤن سے باہر کیا نکلا سارا لاہور باہر نکل آیا پھر لوگوں کا ایک سمندر تھا جس کے سامنے پولیس نے راستہ چھوڑ دیا اور وہ شخص اس منصب پر دوبارہ جا بیٹھا جس کے بارے میں ایک آمر نے مکا لہرا کر کہا تھا کہ وہ گزرا وقت ہے کبھی واپس نہیں آ سکتا لیکن چیف جسٹس بحال ہوئے۔اسی نواز شریف کی بدولت سب بھول گئے،سب احسان بھول گیے ہیں۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو۔نواز شریف اس فرمان کو یاد رکھتے تو ایسے شر پسندوں سے بچ کر رہتے۔

تازہ ترین