• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک ووٹ کا سوال ہے لیکن

ایک ووٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔تاریخ میں بے شمار ایسے واقعات ملتےہیںکہ صرف ایک ووٹ سے امیدوار مسند اقتدار پر بیٹھ گیا۔امریکا کے سابق صدررونالڈ ریگن صرف ایک ووٹ کی جیت سے صدر منتخب ہوئے تھے۔نوجوانو!آپ کا قیمتی ووٹ بھی اچھے یا برے حکمراںمنتخب کرنے میںفیصلہ کن ثابت ہوگا۔لیکن جس اُمیدوار کو ووٹ دیں،اُس کے بارے میں اچھی طرح چھان پھٹک کرلیں، کیوں25 جولائی کو انتخابی نتائج کے بعد جو پارٹی بھی حکومت بنائے گی، وہ نوجوانوںکی دانش کا مظہر ہوگی ۔گزشتہ ہفتےکراچی کی چند شاہراہوں پر جہاںالیکشن کی گہما گہمی خوب ہے۔ہم نے وہاںنوجوانوں کو پوسٹر ز بنانے ،بینرزسجانے ،اُمیدوار کی حمایت میں مختلف سجاوٹی اشیاماتھے پر سجائے کام میں مگن دیکھا،جب اُن سے سوال کیا کہ آپ کس اُمیدوار کو کس بنیاد پر ووٹ دیںگے ،تو بیش تر کا جواب تھا، ہم ووٹ کیوںدیں؟کسی نے آج تک ہمارےلیے کوئی کام نہیںکیا،ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیںکیا،خواہ وہ تعلیمی ہویا معاشی ،صحت سے متعلق ہویاروزگار سے متعلق ۔تعلیم حاصل کرنے کے بعد دربدر ٹھوکر کھاتے رہے ،لیکن روزگارنہ ملا،جس کا نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے کہ،یہ کام جو آج ہم کررہے ہیں،یہ اپنےمعاشی مسائل حل کرنے کے لیے کررہے ہیں۔کسی پارٹی کے بینرز بنارہے ہیںتوکسی کے پوسٹر ز لکھ رہے ہیں،تاکہ کچھ پیسے ہاتھ آجائیںتو گھر کا چولہابند ہونے سے بچ جائے۔ہمارا ہنر آج ہمارے کام آرہاہے۔

میں ایک سول انجینئر ہوں، دیگر نوجوانوں کی طرح میرا بھی یہی خواب تھا، کہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے شعبے میں کوئی معقول نوکری کروں، لیکن مجھے گریجویٹ ہوئے ، ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر ابھی تک کوئی ملازمت نہیں مل سکی، ایسا نہیں ہے کہ میرے نمبر کم تھے یا میں ذہین نہیں ہوں ، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں نوکریوں کا فقدان ہے، صرف میں ہی نہیں ، میری کلا س کے کئی لڑکے تاحال نوکری حاصل کرنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔ اگر میں ووٹ ڈالوں گا تو اس بات کا خاص خیال رکھوں گا کہ کسی ایسی جماعت کو ووٹ دوں، جو اقتدار میں آکر اس ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ کر سکے۔ مجھ جیسے کئی نوجوانوں کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کر سکے۔ کہنے کے لیے تو جب بھی انتخابات کا موسم آتا ہے، تو ہر سیاسی جماعت یہ نعرہ لگاتی ہے کہ ہم ملک کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں گے، لیکن ، در حقیقت ان کا مقصد صرف ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے، اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنے تمام وعدے بھول جاتے ہیں۔ امیدواروں کا ایک ووٹ کا سوال ہے، ہمارا سوال ان سے اپنے مستقبل کا ہے، جو وہ کبھی نہیںسنوارسکتے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہم نوجوان فٹ پاتھوں پر بیٹھے ان امیدواروں کے لیے کیسے اپنے ہنر کو کام میں لا رہے ہیں لیکن کسی بھی امیدوار کو ووٹ دینے کا ارادہ نہیں ہے، کوئی کچھ نہیں کرے گا۔

کہتے ہیں نوجوان بڑی طاقت ہیں لیکن ہماری طاقت پیسے کے بغیر ادھوری ہے۔ہم ووٹ کیوںدیں،کوئی ہمارےلیےکیا ،کسی کے لیے بھی کچھ نہیں کرے گا۔

یہ کراچی کی ایک مصروف شاہ راہ ، بہادرآباد کی کشادہ دو رویہ سڑک کی فٹ پاتھ پر بیٹھے پڑھے لکھے چند نوجوانوںکی رائے ہے۔جو ووٹ دینے سے انکاری ہیں۔لیکن ہماری نوجوانوںسے درخواست ہے کہ ووٹ ضرور دیں۔اب سب کچھ پہلے جیسا نہیںہوگا۔اپنے حلقے کے اُمیدواروںکو اپنے مسائل بتائیں،وہ منتخب ہوجائیں،تواُن سے مسائل حل کرائیں،نہ کریںتو اُن کا احتساب کریں۔پانچ سال تک اُن کے اقتدار میں رہنے کا انتظار نہ کریں ،اُن کے خلاف آواز بلند کریں،پھر دیکھیں کیسے مسائل حل ہوتے ہیں۔ایک ووٹ آپ کی بھی اورملک کی تقدیر بھی بدل سکتاہے۔

تازہ ترین