پروفیسر شاداب احمد صدیقی،حیدر آباد
الیکشن کی آمدآمد ہے ،ووٹ کے ذریعے عوام اپنی پسندکا نمائندہ ایوان میںبھیجتے ہیں۔ انتخابات کی تاریخ جب قریب آتی ہے تو ہر شخص اس سوچ میںمبتلا ہوجاتا ہے کہ اپنا قیمتی ووٹ کسےدے؟ عوام کو سمجھنا چاہئے کہ ووٹ صرف کاغذ کی پرچی نہیںجو بغیر سوچے سمجھے مہر لگاکر کسی کے بھی حق میں ڈال دی جائے بلکہ یہ آپ کی قیمتی رائے ہے۔ الیکشن کے قریب آتے ہی سیاسی گہماگہمی بھی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ آج کی سیاست میں نوجوانوںکے کردارکو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ان میں سیاسی شعور بیدار ہوچکا ہے۔ ترقی یافتہ معاشرے کے قیام کے لیےنسل نو کا سیاست میں کردار بہت اہم ہے۔معاشرے کے بعض افراد اس بات کے حق میں ہیں کہ طلباء کو سیاست میں بھرپور حصہ لینا چاہیے،ان کے خیال میں ایک پڑھا لکھا ہونہار طالب علم کل کا ایک اچھا سیاستدان بن سکتا ہے، ہمارے ملک میں ویسے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاست دانوں کا فقدان ہے۔ اس کے برعکس دوسرا طبقہ نوجوانوں کی سیاست میں شمولیت کی مخالفت کرتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ نوجوانوں کو سیاست سے دورہی رہناچاہیے۔ طالب علمی کا زمانہ ذہنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور تعلیم حاصل کرنے کا ہوتا ہے ،جو نوجوان زمانۂ طالب علمی میں سیاست میں حصہ لینا شروع کردیتے ہیں، اس وجہ سے وہ اپنے مقصد تعلیم سے دور ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کی اکثریت نوجوانوں کو سیاست میں شمولیت اختیار کرنے سے روکتی ہے، جب کالج یا یونیورسٹی میں ان کا داخلہ ہوتا ہے تو انہیں سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں ہے۔لیکن عام خیال ہے کہ نسل نو کو تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیگر شعبوں کی طرح سیاست میں بھی جانا چاہیے،اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ سیاست میں جھوٹ و مکرو و فریب کا عنصر غالب رہتا ہے ، جب تک نوجوان اس شعبے میں نہیں آئیں گے، تب تک ملک و قوم کس طرح ترقی کر سکے گی۔محض برا بھلا کہنے سے ملک کی تقدیر نہیں بدلتی ہے، جب بھی کوئی مثبت اقدامات کئے جاتے ہیں تو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ سیاست اور سیاستدان برے نہیں صرف سوچ اور رویوںکو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر ماضی کی کتاب کے اوراق کو پلٹ کر تحریک پاکستان پر نظر ڈالی جائے، تو واضح ہوجاتا ہے کہ اس پاک سرزمین کے حصول میں نوجوان طلباء نے کتنا اہم بنیادی کردار ادا کیا۔برصغیر کے مسلم نوجوانوں نے انتہائی نامساعد حالات اور بے سروسامانی کے عالم میں بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ نوجوان دوستو! پڑھے لکھے نوجوانوں کی سیاست سے دوری کی وجہ سے ہی ہماری سیاست میں وہ خلاء پیدا ہو گیا ہے، جس کا خمیازہ اس قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے، اگر تعلیم یافتہ نوجوان سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیں گے، تو نااہل لوگ ہی سامنے آئیں گے ،جب آپ ہی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گے، تو پھر آپ کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ پھر اس ملک کی سیاست ، بدعنوانی یا دیگر مسائل کے بارے میں تنقید یا شکایت کریں۔ گھرمیں بیٹھ کر صرف سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے یا کسی کو برا بھلا کہنے سے کچھ نہیں ہوگا، جب تک عملی اقدام نہیں کریں گے۔ نوجوان منفی سیاست اور لڑائی جھگڑے سے گریز کریں، سیاست خدمت کرنے کا نام ہے۔
ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے نسل نو کو ہمیشہ ہی صرف نعروں اور ووٹ حاصل کرنے اور اپنے جلسے جلوسوں کی رونقیں بڑھانے کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔پارلیمان میں نوجوانوں کی نمائندگی کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن گزشتہ چند برسوں سے پاکستان کی سیاست میں نوجوان نسل کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ہمارے ملک میں سیاست کو درست سمت اسی وقت مل سکتی ہے، جب نسل نو کی سیاسی تربیت ہوگی، جب تعلیم یافتہ نوجوان ملک کی قیادت سنبھالیں گے۔
یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب نسل نو اپنےملک اور دنیاکی سیاست سے زیادہ سے زیادہ واقف ہو، طلباءکے لیے لازم ہے کہ وہ نہ صرف شامل نصاب کتب کا اچھی طرح مطالعہ کریں بلکہ کتب و رسائل، کرنٹ افیئرز کو بھی زیرمطالعہ رکھیں۔ سیاسی ذہن شعور اور سوچ و فکر کو زیادہ متحرک رکھتا ہے۔
نوجوان سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں پر سوشل میڈیا کے ذریعے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اب حالات بدل گئے ہیں۔سیاستدان جہاںبھی اپنے حلقے میںجاتے ہیں تو اس حلقے کےعوام سوالات شروع کردیتے ہیں۔لیکن یہاں نسل نوکو بھی یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اپنی رائے، اپنی پسنداور پسندیدہ جماعت کا ساتھ اخلاق کے دائرے میں رہ کردیں اپناموقف ضرور پیش کرنا چاہیے،لیکن کسی بھی سیاست دان یا جماعت کے لیے غیر مہذب زبان کا استعمال نہیں کرناچاہیے،ایسی کوئی بات نہ کی جائے، جس سے کسی کا وقار یا عزت نفس مجروح ہو، شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئےمنطقی دلائل سے قائل کریں۔تنقید کرنا جمہوری عمل ہے، لیکن تنقید برائے تنقید ناانصافی ہے۔ نوجوانوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ عدم برداشت کےمنفی اور خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔سوشل میڈیا سیاسی جماعتوں کا ہتھیار ہے جس کے ذریعے چندلمحوں میں پوری دنیا میں اپنی تشہیر اور خبرکو بآسانی پہنچایاجارہا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ تمام سیاسی جماعتوںکے سوشل میڈیا کو آپریٹ نوجوان ہی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا حالیہ عرصےمیں جہاں عوامی رابطوں کا موثر ذریعہ بنا ہے وہیں پاکستان میں اب عام انتخابات سے قبل عوام کے ان مسائل کو سامنے لانے کا سبب بھی بنا ہے، جو پہلے کم ہی منظرعام پر آتے تھے۔ سیاسی جماعتیں دعویٰ کررہی ہیںکہ یوتھ لیڈرشپ کو سامنے لائیں گی،یہ نوجوان عام انتخابات میں بھرپور طریقہ سے حصہ لے کرعوام کی بہتر انداز میں رہنمائی کرسکتے ہیں۔ قوم کو اپنے نوجوانوں سے قوی امیدیں ہیںکہ وہ ان کی توقعات پر پورا اتریں گے۔ توقع کی جارہی ہے کہ نسل نو جس جماعت کو سب سے زیادہ سپورٹ کرے گی، وہی جماعت جیتے گی،اسی لیے تمام سیاسی جماعتوں کی یہی کوشش ہے کہ نوجوان ان کا ساتھ دیں۔ ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے، جو اس ملک کے مسائل سے بہ خوبی واقف ہوںاور جنہوںنے ان مسائل کو خودبرداشت کیاہو، تاکہ وہ قوم کے درد کو محسوس کرسکیں۔ قومی ترقی کا حصول صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب نوجوان نسل اخلاص کے ساتھ اس مقصدکے لیے خود کو وقف کردیں۔نوجوانو!خودکو غیرضروری سرگرمیوں میں ضائع نہ کریں، ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں۔جذباتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر اندھی تقلید کے بہ جائے عقل، درست خیالی اور تحقیق کا راستہ اختیار کریں۔ سیاسی نظام، سیاسی نظریات کا مطالعہ کریں، جب آپ کے پاس آگاہی، فہم، ادراک کی دولت ہوگی ،تو کوئی بھی آپ کواپنے مقاصدکے لیےاستعمال نہیںکرسکے گا۔ آنکھیںکھلی رکھیں،آپ کوقائداعظم کے خوابوںکو پورا کرنا ہے۔ ذاتی پسند اور نا پسند کو ملک پر ترجیح نہیں دینی ۔آپ کو ووٹ محض کاغذ کی پرچی نہیں بلکہ ملک کی بقا اور مستقبل کا تعین کرے گا۔ ہر سیاسی جماعت الیکشن سے پہلے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کرتی ہے،جس کے ذریعے عوام کو اپنی طرف راغب کرتی ہے۔ اس لیےتمام سیاسی پارٹیوں کے انتخابی منشور پر گہری نظررکھیں ، اپنا ووٹ استعمال کرتے وقت وسیع النظری سے کام لیں۔نوجوان ہی ملک کا سیاسی منظرنامہ بدل سکتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ کون سی جماعت معاشی مسائل حل کرنے ، تعلیمی سہولتیں فراہم کرنے،دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بہتر پالیسی تشکیل دے رہی ہے۔ آپ کا فیصلہ، آپ کی قسمت بدل سکتا ہے، اس لیے سوچ سمجھ کر اپنے حق کا استعمال کریں۔