کراچی(ٹی وی رپورٹ)پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے بیان نے نیب کو متنازع بنایا ہے، وزیراعظم کے پورے بیان کو دیکھا جائے پتا چل جاتا ہے وہ کس سے بات کررہے ہیں، وزیراعظم کہتے ہیں مینڈیٹ ہمیں عوام دیتے ہیں اور ہٹاتا کوئی اور ہے،وزیراعظم کو یہ بیانات دینے کی ضرورت کیوں پڑی ہے،نیب سے متعلق سندھ نے چند ماہ پہلے جو کہا تھا اس پر تنقید کی گئی ،اب وہی بات پنجاب میں تلخ طریقے سے کہی جارہی ہے، نیب کا طریقہ کار درست نہیں ہے، نیب الزام ثابت ہونے پر ہی کسی کو گرفتار کرے، ڈاکٹر عاصم کا معاملہ عدالت میں ہے، نیب کو ان پر الزامات ثابت کرنا ہوں گے، ایف آئی اے اگر صوبائی حکومتوں کے معاملات میں مداخلت کرے گی تو صوبے اعتراض کریں گے۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ’’نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ‘‘ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں جنرل راحیل شریف کی مدت میں توسیع کیلئے چلائی جانے والی تحریک ’’موو آن پاکستان‘‘ کے سربراہ محمد کامران سے بھی گفتگو کی گئی۔محمد کامران نے کہا کہ پاکستانی عوام کو جنرل راحیل شریف کی سخت ضرورت ہے،عوام دُہائی دے رہی ہے کہ جنرل راحیل شریف کوآرمی چیف رہنا چاہئے، امن کی بحالی اور کرپشن کیخلاف فوج کے اقدامات کو پسند کیا جارہا ہے، جنرل راحیل شریف معاملات کو صحیح سمت میں لے کر چل رہے ہیں۔اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کے معاملہ پر بحث نہیں کرنا چاہتا، سندھ حکومت کے اعتراضات پر جیوڈیشل کمیشن بنانے کی پیشکش چوہدری نثار نے خود کی تھی مگر اب پیچھے ہٹ گئے ہیں ، سندھ حکومت تو جیوڈیشل کمیشن کیلئے تیار ہے، وزیر داخلہ کی بریفنگ سے آج تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا، اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں اور وفاق میں اختیارات کی واضح تقسیم ہوگئی ہے، ایف آئی اے اگر صوبائی حکومتوں کے معاملات میں مداخلت کرے گی تو صوبے اعتراض کریں گے، عدالت جانے کا فیصلہ صوبائی حکومت کرے گی۔انہوں نے کہا کہ کراچی صوبہ سندھ سے الگ نہیں ہے، آرمی چیف اور وزیراعظم کراچی میں ایپکس کمیٹی کی میٹنگوں میں آتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، کیا صوبے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو کہیں کہ آپ نہ آئیں،سندھ میں رینجرز صوبائی حکومت کی درخواست پر امن و امان کے قیام کیلئے آئی ہے، اگر صوبے کرپشن کے خلاف وفاق سے ایف آئی اے کی مدد مانگیں تو اسی صورت میں مدد دینی چاہئے۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ کو ٹارگٹ نہ بنایا جائے، نیب سے متعلق سندھ نے چند ماہ پہلے جو کہا تھا اس پر تنقید کی گئی ،اب وہی بات پنجاب میں تلخ طریقے سے کہی جارہی ہے، صوبے صحیح کہہ رہے ہیں کہ ہر ادارہ اپنے اختیارات قانون کے دائرے میں رہ کر استعمال کرے، صوبہ سندھ نے رینجرز کو توسیع دے کر لڑائی کے بجائے سمجھوتہ کیا مگر پنجاب جذباتی بیانات دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کا معاملہ عدالت میں ہے، نیب کو عدالت میں ان پر الزامات ثابت کرنا ہوں گے، ڈاکٹر عاصم پر پہلے دہشتگردوں کی مدد کے الزامات لگائے گئے، جب الزامات ثابت نہ کیے جاسکے تو انہیں نیب کے حوالے کردیا گیا، ڈاکٹر عاصم کیس کو سیاسی کیس بنایا جارہا ہے،کرپشن کرنے والوں کو سزا بھگتنا چاہئے، کرپشن کیخلاف کارروائی صرف سندھ میں نہیں پورے ملک میں ہونی چاہئے۔اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کے بیان نے نیب کو متنازع بنایا ہے، نواز شریف کے بیان کو صرف نیب کو بہتر کرنے کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا، وزیراعظم کے پورے بیان کو دیکھا جائے پتا چل جاتا ہے وہ کس سے بات کررہے ہیں، وزیراعظم کہتے ہیں مینڈیٹ ہمیں عوام دیتے ہیں اور ہٹاتا کوئی اور ہے،نواز شریف کہتے ہیں 91ء میں جو اختیارات تھے آج وہ نہیں ہیں،وزیراعظم کو یہ بیانات دینے کی ضرورت کیوں پڑی اور ان کا اشارہ کس طرف ہے، اپوزیشن نے تو ہمیشہ پارلیمنٹ اور وزیراعظم کی مدد کی ہے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ میں نے اور نواز شریف نے چھان بین کے بعد قمر الزماں کو چیئرمین نیب بنایا تھا، اب ہم دونوں ہی ان پر الزامات لگائیں تو اچھی بات نہیں ہے، میں اس پوزیشن میں نہیں کہ چیئرمین نیب قمر الزماں کو غلط کہہ سکوں، میں وزیراعظم کی جگہ ہوتا تو تسلیم کرتا کہ میں غلط شخص کو لایا ہوں اس لئے مجھے عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے، نیب بھی خود کو ٹھیک کرے، نیب کا طریقہ کار درست نہیں ہے، اگر کسی پر الزام ہے تو نیب باقاعدہ تحقیقات کرے اور الزام ثابت ہونے پر ہی گرفتاری کرے۔