سہیل وڑائچ نے جب یہ کالم لکھا اور اس میں (ن) لیگ کے خاتمے کی بات کی تو بیشتر مبصرین اور قاری چونک گئے۔ ن لیگ کے حق میں حالات برے جارہے تھے لیکن آگے جا کر ان کاکیا رنگ ہونے جارہا ہے، سہیل وڑائچ کایہ تجزیہ ان کے لئے حیرت کا باعث بنا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج سے کافی عرصہ قبل جب سہیل وڑائچ نے یہ کالم لکھا اس وقت ایسے کیا ’’معاملات‘‘ تھے جن کے نتیجے میں انہیںیہ لکھنا پڑا۔ آج جب نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور داماد کو سزائیں سنا دی گئی ہیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ بیٹی اور دامادکو اسمبلی الیکشن لڑنے سے بھی روک دیاگیاہے، تو کیا مسلم لیگ (ن) کے متوالے ایسے ری ایکشن کو دکھانے میں کامیاب ہوںگے کہ لگے کہ ان کے لئے ’’دی پارٹی اِز ناٹ اوور‘‘۔ اس حوالے سے اگر کل شہباز شریف کی ہی پریس کانفرنس دیکھ لیں تو جس ری ایکشن کی ایک لیڈر کے طور پر ان سے توقع تھی وہ نظر نہیں آیا۔ ہم مانتے ہیں کہ شہباز شریف اس زمانے سے ہی عسکری خان(یہ ٹرم بھی سہیل وڑائچ نے ہی بنائی ہے) سے حالات بہتر رکھنے کے مشورے دیتے رہے ہیں۔ اگراس وقت نوازشریف اپنےبرادر خوردکی بات مان لیتے تو ان کے اور ان کی پارٹی کےلئے حالات شاید اتنے خراب نہ ہوتے۔
اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں ہم یہ جاننے کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ ’’کس جن کی وزیراعظم بو‘‘ کا احساس شدید سہیل وڑائچ کو ہوا کہ انہوں نے نواز شریف کے لئے ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ لکھ دیا، خود ان ہی کے الفاظ میں ’’ایک ریاست میں ایک دیو رہتاتھا۔ وہ وہاں کےباشندوں کو نظر نہیں آتا تھا مگر اس کی کارروائیاں نظر آتی رہتی تھیں۔ یہ ’’دیو‘‘ ہر حرکت پر نظر رکھتا تھا۔ ہر ایک کی گفتگو سنتا تھا مگر کوئی دوسرا اس کی گفتگو سن سکتا تھا نہ اس کی کارروائیوں کا علم رکھتا تھا۔ ہمارا ’’دیو‘‘ دنیاکی دوسری کہانیوں کی طرح ’’آدم بو آدم بو‘‘نہیں کرتا تھا بلکہ یہ منتخب حکمران بناتا، اکھاڑتا اور وزیراعظموں کو کھاتا تھا۔ اس عمل میں ’’دیو‘‘ نہ تو نظر آتا تھا اور نہ ہی اس کاکوئی کردار نظر آتا تھا۔ سارا کام انتہائی خوش اسلوبی سے ’’دیو‘‘ کے سیاسی اور ادارہ جاتی رفیق کرتے تھے اور یہ کام اس صفائی سے ہوتا تھاکہ ’’دیو‘‘ کا کہیں نام تک نہ آتا تھا۔‘‘
جب سہیل وڑائچ نے اس ’’دیو‘‘ کی کارروائیوں کی تمثیل لکھی تو اس وقت تک ابھی بلوچستان اسمبلی کی اکھاڑ پچھاڑ نہیں ہوئی تھی نہ ہی سنجرانی برآمد ہوا تھا لیکن سہیل وڑائچ کے اس طرح کے کالموں نے عوام کو تیار کردیا تھا کہ وہ نون لیگ کی بلوچستان سے چھٹی کے لئے تیار رہیں۔ بلوچستان کا وقوعہ ہوا لیکن پھر بھی نواز شریف نے اپنی ہٹ دھرمی نہیں چھوڑی۔ چوہدری نثار ناراضی پر آمادہ نظر آنے لگے۔ لوگوںنے نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان حتیٰ کہ ان کے خاندانوں کے درمیان تلخی کے حوالے بھی محسوس کئے لیکن اب نواز شریف، شہباز شریف اور حمزہ کے بجائے اپنی دختر مریم نواز کی زیادہ سننے لگ گئے تھے۔ ان حالات میں سہیل وڑائچ کی تمثیل گاری زوروں پررہی۔ اگر آپ ان کی کتاب میں پہلا صفحہ اٹھاکر کالموں کی فہرست پڑھیں تو آپ کو خوب اندازہ ہوگا کہ سہیل کبھی میاں شریف کے پوتوں پوتیوں کے نام خطوط کے ذریعے، کبھی بھٹو صاحب اور بینظیر کے بلاول کے نام خطوط کے ذریعے اشاروں کنایوں میں کیا بات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس دوران سہیل وڑائچ کاکمال یہ رہا کہ انہوں نے ساری بات کھول بھی دی، اپنا خوبصورت اسٹائل بھی برقرار رکھا اور کسی بھی حلقے کو ناراض نہیں کیا۔ ان تحریروں میں انہوں نےکبھی شیکسپیئر کے حوالے، کبھی سوہنی مہینوال ایسی داستانوں کے حوالوں سے اپنی بات مضبوط طور پر بیان کی۔ اس اثناء میں ہمیں کالم نگاری میں حضرت سعدی شیرازی ایسے اسٹائل دیکھنے کو ملے، جہاں سعدی حکایات کے ذریعے لوگوں کو سمجھاتے بھی ہیں اور ان کو آئندہ آنے والے حالات کے بارے میں خبردار بھی کرتے ہیں۔ سہیل وڑائچ ان کالموں میں ایک اچھے استاداور ایک اچھے نباض نظر آتے ہیں۔ وہ معاشرے کی اور حالات کی نبض دیکھ کر سیاستدانوں کو تنبیہ کررہےہیں کہ حالات کا کیا رخ ہونے جارہا ہے۔
کہیں کہیں ان کالموں میں جیسے کہ ’’غالب بنام خاتون اول‘‘ ، ’’بزدل خان بنام عسکری خان‘‘ اور ’’دو کزنز کا سیاسی مکالمہ‘‘ جیسے کالم ہیں جن میںکسی ڈرامے کے کرداروں کی طرح کردار ڈائیلاگ کےذریعے بات کرتے ہیں تو اس بارے جسے شیکسپیئر کو پڑھنے والےکہتے ہیں کہ اس کے ہاں ڈائیلاگ کامعیار ایسا ہوتاہے کہ ڈائیلاگ کے ذریعے ہمیںجو یہ جملے اداکر رہاہے اس کی شخصیت بارے پتا چلتا ہے جس کے بارے میں یہ ڈائیلاگ بولے جارہےہیں،ہمیں اس کے بارے آگاہی ہوتی ہے۔ہمیں ماضی کے حالات کا ادراک بھی ہوتا ہے اور مستقبل کامنظر بھی سامنے آجاتا ہے۔ ایسا ہی کمال سہیل وڑائچ نے اپنے ان کالموں میں دکھایا ہے۔ اس نے ان لوگوں کامقدمہ بھی لڑاہے جنہیںماضی میں غدار کہا گیا اور لوگوں کو بھی تاریخ کے سبق سکھانے کی کوشش کی کہ سیاسی اداروںکو اس طرح اکھاڑنے سے حالات کبھی بھی بہتر نہیںہوتے۔
سہیل وڑائچ کے کالم اب بھی جاری ہیں۔ کہانی ’’دی پارٹی اِز اوور‘‘ سے آگے چل پڑی ہے۔ ’’ن‘‘ لیگ تو گویا سہیل کے ہی بقول اب اپنی بقا کی آخری لڑائی لڑ رہی ہے لیکن اس سب میں ’’جیپ سواروں‘‘ اور ’’مٹکا فروشوں‘‘کے لئے بھی کچھ سبق ہے کہ آخر کار نواز شریف نے بھی تو سیاسی سفر کا آغاز ’’عسکری خان‘‘ کے سائے تلے کیا تھا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)