• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ جانتے ہوئےکہ وطن واپسی پرانھیں جیل کاسامناکرناپڑےگا، نوازشریف اورمریم نوازکے13جولائی کووطن واپسی کےفیصلے سےپی ایم ایل(ن) کےکارکنان کونئی امیدملی ہے۔ احتساب عدالت کےفیصلےکےمطابق اکٹھےانھیں 10سال اور7سال سخت قید کاسامناکرناپڑےگا۔ اس فیصلےکےپیچھےممکنہ وجہ کیاہوسکتی تھی۔ 25جولائی کےانتخابات میں فتح کی امید کےعلاوہ کیا وہ 2001 کےبعدسے غلط ہونےوالی تاریخ(جب وہ 10سال کیلئےجلاوطن ہوگئےتھے)کودرست کرناچاہتےہیں۔ واپسی کےساتھ انھوں نےبڑا’سیاسی جوا‘کھیلاہےکیونکہ وہ جانتےہیں کہ ان کیلئےیہ ’اب نہیں توکبھی نہیں‘ والی بات ہےاور ان کی سیاست میں واپسی کافیصلہ اگرنہ ہوتاتوان کےمخالفین اورعمران خان کی زیرقیادت ان کےمخالف بیانیےکو’آسان فتح‘ مل جاتی، جومانتے ہیں کہ نواز شریف اب آئوٹ ہوچکےہیں اور پی ایم ایل(ن) بھی آئوٹ ہوجائےگی۔ ان کےاہم نقادعمران خان اورآصف علی زرداری کوان کی واپسی کایقین نہیں تھا۔ ایک کہہ رہاتھاکہ اب لندن ان کا حقیقی گھر ہے تو دوسراکہہ رہاتھا کہ انھوں نےلندن میں سیاسی پناہ کیلئے درخواست دےدی ہے۔ چند لوگوں کو ابھی تک ان کی واپسی کا یقین نہیں ہےاوران کامانناہےکہ آخری منٹ میں بھی پلان تبدیل ہوسکتاہے۔ لیکن جس طرح ان کےدامادنےگرفتاری دی ہےاس سے13جولائی کےپی ایم ایل(ن) کےپلان کاپتہ لگتاہے۔ نوازاوران کی بیٹی مریم نوازجانتےہیں کہ اگروہ واپس نہیں آئیں گے اور سزااورقیدکاسامنانہیں کریں گےتونوازشریف کابیانیہ ختم ہوجائےگا، وہ ایسانہیں چاہتے۔ اس کےبرعکس وہ چاہتےہیں کہ پی ایم ایل(ن) اگلے انتخا با ت اِسی بیانیے کےساتھ جیتیں۔ پی ایم ایل(ن) کےچندذرائع کےمطابق شہبازشریف بھی قائل ہوچکےہیں کہ ان کےبھائی کاموقف بالکل غلط نہیں ہےکیونکہ اگرنیب الیکشن تک کارروائی روکنےکافیصلہ نہ کرتا توانھیں خودممکنہ گرفتاری کاخوف تھا۔ اتوارکوان کی تقریران کی گزشتہ تقاریر کےمقابلےمیں کافی جارحانہ تھی۔ انہوں نےاپنی ترقیاتی سکیموں کی بجائے نواز شریف، ان کی سزا،نیب اور نوازشریف کی پالیسیوں کیخلاف زیادہ زوردیا۔ 13جولائی کوپی ایم ایل (ن)کےردعمل سےہی پارٹی کی زمینی سپورٹ کاپتہ لگےگاکیونکہ دونوں شہباز اور حمزہ نے جلسے کی قیادت کرنےکافیصلہ کیاہے۔ وہ پہلے ہی نواز اور مریم کو ’ویلکم‘کرنےکی کال دے چکے ہیں۔ یہ نگران حکومت اور انتظامیہ کا بھی امتحان ہوگا کہ وہ حالات کو کس طرح سنبھالتے ہیں کیونکہ سیاسی کشیدگی بڑھنےکاامکان ہے۔ نواز شریف اور مریم نوازکےفیصلےکی جانب واپس آتے ہیں، ان کی واپسی ان پرتنقیدکرنےوالوں کوکم از کم ایک نکتےپرخاموش کرادے گی وہ یہ کہ سابق ملٹری ڈکیٹیٹر جنرل(ر) پرویز مشرف کی طرح وہ ٹرائل اور سزا سے بھا گےنہیں ہیں۔ وہ اپنی اپیل کے منظورہونےیا حفاظتی ضمانت ملنےکےبارےمیں بھی زیادہ پُرامید نہیں ہیں۔ دونوں جانتے ہیں کہ انھیں کسی ’سب جیل‘ میں نہیں رکھا جائےگا کیونکہ سزا میں واضح طورپر لکھاہےکہ یہ ’قیدبامقشقت‘ ہوگی اورجولوگ قید ہیں انھیں پتہ ہے کہ اس کامطلب کیاہے۔ کیس کے میرٹ سے ہٹ کر نااہلیت سے سزا ہونے تک شریف کےفیصلے سے’این آراو‘ سے متعلق ہر قسم کی افواہیں دم توڑ گئیں ہیں، لہذا انہوں نے اتنی جلدی واپس آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ (1) نواز شریف جانتے ہیں کہ ان کے 2001کے فیصلے نے ان کی سیاست کو نہ صرف نقصان پہنچایاتھابلکہ پی ایم ایل(ن) کے ٹوٹنے کی وجہ بھی بناتھا اور اس سے جنرل(ر) پرویز مشرف مضبوط ہوئے تھے۔ غالباً وہ تاریخی غلطی کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ نواز اور ان کی فیملی نے انسدادِ دہشتگردی کی کراچی عدالت میں سزا کا سامنا کیا تھا جب جسٹس(ر) رحمت حسین جعفری نے بطور انسدادِ دہشتگردی عدالت کے جج انھیں ایک ’ہائی جیکنگ‘ کیس میں عمرقید کی سزاسنائی تھی یہ کیس سابق صدر جنرل(ر) پرویزمشرف کی ہدایات پر اکتوبر1999 میں دائرکیاگیاتھا۔ بعدمیں اس وقت کی حکومت نےسزا کو عمرقیدسےبڑھا کرسزائے موت میں تبدیل کرنے کیلئےسندھ ہائی کورٹ میں ایک اپیل دائر کی۔ یہ وہ موقع تھا جب خاندان کو محسوس ہوا کہ مشرف نواز شریف کوذوالفقار علی بھٹوکی طرح پھانسی لگوا سکتاتھا۔ اس موقع پرخاندان کےچند افرادنے سعودی شاہی خاندان سے رابطہ کیا اور مشرف نےاس شرط پرپورےخاندان کو پاکستان چھوڑنےکی اجازت دے دی کہ وہ کم از کم 10سال سے پہلے واپس نہیں آئیں گے۔ نواز شریف نے ہمیشہ اس سے انکار کیاہے اور وہ مانتے ہیں کہ مشرف نے خود دونوں کو انھیں اور بے نظیر کوسیاست سے دوررکھنےکافیصلہ کیاتھا جو انہوں نے2002کےانتخابات میں کیاتھا۔ اس کےباعث پی ایم ایل(ن) میں دراڑ یں پڑیں اور پی ایم ایل(ق)اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی ’مدرپارٹی‘ بن گئی اورایک چھوٹے گروپ پی پی پی (پیٹریا ٹ )کےساتھ مل کرمشرف کے ساتھ اقتدارکا حصہ بن گئی۔ لیکن نواز شریف نے2001 کے بعد سے یہ سیاسی بوجھ اٹھایاجس طرح پی پی پی نے مشرف کے ساتھ 2007 میں این آر او کرکےتنقید کاسامنا کیا۔ بےنظیربھٹوکوفوری طورپراحساس ہوگیاتھا اور 18اکتوبرکوواپس آتے ہی انہوں نےیہ معاہدہ توڑدیا اور اس کےنتیجےمیں 27 دسمبر2007کو شہیدہوگئیں۔ دوئم، نوازشریف یہ بھی ثابت کرناچاہتےہیں کہ لوگوں نے ان کی نااہلیت اور سزا کو قبول نہیں کیا۔ ان کےپاس انتخابات میں پی ایم ایل(ن) کی فتح کا ہی آخری راستہ بچاہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ اوران کی الیکشن نہیں لڑسکتے، لیکن اگرپی ایم ایل(ن) اگلے انتخابات میں ان کے بیا نیے پرجیت جاتی ہے تو وہ سیاسی طورپر اس تاثر کو پھیلانے کے قابل ہونگے۔ نواز شریف جسے اپنےخلاف ’ناانصافی‘کہتے ہیں انھوں نےاس کے خلاف28جولائی 2017 کے بعدجی ٹی روڈلاہورپرایک جلسے کی قیادت کرکےیہ تاثربنالیاتھا۔ اگرچہ اس کے باعث پی ایم ایل(ن) نظریاتی طورپر تقسیم ہوئی، لیکن ان کی نااہلیت کےبعد جو واقعات ہوئے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کابنیانیہ ان کےکارکنوں میں مقبول ہواہے۔ سوئم، نواز شریف کووراثت کے سنجیدہ مسئلے کا بھی سامناہےکہ ان کے بعد کون ہوگا۔ وہ انتخابی دوڑ میں شامل نہیں ہوں گے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ کم ازکم مریم کو کچھ جگہ ملے۔ وہ ہمیشہ چاہتے تھے کہ مریم ان کی بیمار اہلیہ کلثوم نواز کے مقابلے میں زیادہ کردار اداکرے، جنھوں نے مشرف کے خلاف احتجاج کرکے انھیں حیران کردیاتھا۔ مریم کی سیاست میں انٹری کلثوم نواز کے ساتھ ہوئی تھی لیکن فیملی کے پاکستان چھوڑنے کے بعد انھیں اپنی قابلیت دکھانے کا موقع نہیں ملا۔ ان کی دوبارہ انٹری پانامہ کے بعد2016 اور2018کےدرمیان ہوئی۔ انھوں نے این اے -127 لاہورمیں اپنی ماں کیلئے مہم چلائی اور انھیں منتخب کرایا۔ انھیں تین بار منتخب ہونےوالے اپنے والدسے بھی زیادہ سنجیدہ مسئلے کاسامناہے۔ ان کا انتخابی آغاز روک دیاگیاہے کیونکہ انھیں سات سال کی سزا ہوئی ہے اور اس کے بعد10سال کی نااہلیت کی سزا ہوئی۔ لہذا جب تک سزااورنااہلیت معطل نہیں ہوتی تو تب تک ان کے پاس پارلیمنٹ جانے کابہت کم موقع ہے۔ نواز شریف کے قریبی ذرائع کاماننا ہے کہ گزشتہ دو سال ان کے سیاسی کیرئیرکے تکلیف دہ ترین سال تھے، ایساصرف ان کی نااہلیت اور سزا کے باعث نہیں تھابلکہ عدالتی کارروائی کےدوران آنےوالے براہِ راست اور غیربراہِ راست ریمارکس کے باعث زیادہ تھا۔ لہذا یہ شریف خاندان اور پی ایم ایل(ن) کیلئے حتمی مرحلہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کیلئے ناکامی کوئی راستہ نہیں ہے بالخصوص ان کے مخالف مضبوط بیانیےکی موجودگی، جس کی قیادت ان کے مضبوط ترین سیاسی مخالف عمران خان کررہے ہیں جو مانتے ہیں کہ 25جولائی کوکرپشن کےخلاف ان کابیانیہ شریف اوران کےبیانیےکو شکست دےگا۔

تازہ ترین