محمّد مظفّر الحق فاروقی
انسان نے ہمیشہ ہی سے اپنے لیے ایسی منزلیں منتخب کی ہیں کہ جنھیں سَر کرنا بھی پھر اُسی کے عزم و حوصلے کی بات تھی۔ کولمبس اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ایک اَن دیکھی دنیا کی جانب نکل کھڑا ہوا اور سمندر کی تیز طوفانی لہروں سے لڑتے ہوئے نئی دنیا دریافت کرلی۔ دیکھا جائے، تو اس نئی دنیا کی دریافت میں سائنس کا کوئی کردار نہیں، کیوں کہ کولمبس کے جہاز میں کوئی انجن نہیں تھا اور وہ ہَوا اور پتواروں ہی کے سہارے چلتا تھا۔ ہالینڈ کا ایک باسی ہلاریHelari اور نیپال کے ایک شہریTen Zing وہ پہلے انسان تھے، جنہوں نے سطحِ سمندر سے 29 ہزار 200 فٹ بلند، کوہِ ہمالیہ کی چوٹی ایورسٹ کو سَر کیا۔ نئی دنیائوں اور منازل کی کھوج لگاتے لگاتے انسان، ایک دن آسمان کی بلندیوں پر واقع اس چمکتی دَمکتی دنیا میں بھی جا پہنچا، جسے’’ چاند‘‘ کہتے ہیں۔ وہ 21 جولائی 1969ء کا تاریخی دن تھا، جب نیل آرم اسٹرانگ( Neil Armstrong) اور ایڈون آلڈرن (Edwin Aldrin) چاند کی سرزمین پر اترے۔ چاند تک انسان کی رسائی کس طرح اور کِن مراحل کو عبور کرتے ہوئے ہوئی، یہ سائنس کی بے پناہ ترقّی اور انسان کے عزم، جستجو اور حوصلے کی ایک عظیم داستان ہے۔
ہمارا چاند، آسمان یا خلا میں 2 لاکھ 38 ہزار میل یا تقریباً ساڑھے تین لاکھ کلومیٹر کی بلندی پر گردش کررہا ہے۔ آسمان کا یہ خُوب صورت اور مسحور کُن وجود، ہمیشہ ہی سے انسان کی توجّہ کا مرکز رہا ہے۔ چاند کی جانب انسان نے اپنا پہلا قدم کوئی 61 سال قبل اٹھایا، جب روسیوں نے ایک چھوٹا سا مصنوعی چاند یا سیارہ بنایا اور اُسے خلا میں روانہ کردیا۔ یہ 4 اکتوبر 1957ء کا واقعہ ہے۔ دنیا یہ سُن کر حیران رہ گئی کہ روسیوں نے ایک چھوٹا سا’’ چاند‘‘ زمین کے مدار میں اس طرح گردش کرتا ہوا رکھا ہے، جس طرح چاند زمین کے گرد مدار میں گردش کرتا ہے۔ یہ مصنوعی چاند، فُٹ بال سے دُگنی جسامت کے برابر اور اس کا وزن 83 پونڈ تھا۔
اُس کا نام اسپیوٹنک وَن( Sputnic-1 ) رکھا گیا، یعنی زمین کا ساتھی۔ اس واقعے کے صرف ایک ماہ بعد ہی روس نے اسپیوٹنک ٹو نامی مصنوعی سیّارہ خلا میں روانہ کردیا۔ ایک ہزار، ایک سو بیس پاؤنڈ وزنی اُس سیّارے کی اہم بات یہ تھی کہ اُس میں LAIKA نامی ایک کُتیا سوار تھی۔ اُسے یہ جاننے کے لیے خلا میں بھیجا گیا تھا کہ وہاں کی فضا سے جان داروں پر کیا اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ کُتیا خلا میں سفر کے دَوران مر گئی، مگر اس تجربے سے بہت سی معلومات اخذ کرنے میں مدد ملی۔ لائکا کی موت کی وجہ، خلا کا بلند درجۂ حرارت قرار پایا۔ اُن دنوں خلائی دَوڑ میں روس سب سے آگے تھا۔
اُس نے ایک اور سنگِ میل یہ عبور کیا کہ دنیا کے پہلے انسان، Yuri Gagarin کو 1961ء میں خلا میں روانہ کیا، جس نے زمین کے گرد ایک چکر مکمل کیا اور کام یابی سے واپس آگیا۔ خلا کی اجنبی دنیا سے انسان کا صحیح سلامت واپس آنا، ایک بڑی کام یابی تھی، جس نے چاند اور دوسرے سیّاروں کی جانب انسان کی پرواز کو ناممکن سے ممکن کی حدود میں داخل کردیا۔ خلا میں انسان کا یہ سفر بہت محدود تھا۔
زمین سے صرف 200-100 میل یا 3سے 4 سو کلومیٹر تک کا سفر۔ چندا ماموں تو بہت دُور تھے، کوئی ڈھائی لاکھ میل کی دُوری پر۔ اب انسان نے چاند کی جانب اپنے خالی خلائی جہاز روانہ کرنے شروع کردیے اور کام یابیاں سمیٹتا رہا۔ جنوری 1959ء میں روس نے LUNA-1نامی خلائی جہاز چاند کی جانب روانہ کیا، جس نے ڈھائی لاکھ میل کا سفر تو کیا، مگر چاند پر اترنے کی بجائے چاند کی سطح سے 600 کلو میٹر یا 3700 میل کے فاصلے سے ہوتا ہوا آگے نکل گیا۔ ستمبر 1959ء کو روس نے ایک اور خلائی جہاز چاند کی جانب روانہ کیا، جو کام یابی کے ساتھ چاند پر پہنچ تو گیا، لیکن اُس کی سطح سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا۔
دوسری جانب، امریکا بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا تھا۔ اُس نے خلا میں سب سے پہلے ایک بندر یا بَن مانس بھیجا اور پھر انسان کی باری آئی۔ امریکا نے چاند پر انسان کو اتارنے کی خاطر APPOLO پروگرام کا آغاز کیا۔ اپالو ہفتم وہ جہاز تھا، جسے 25 دسمبر 1968 ء کو چاند کی جانب روانہ کیا گیا۔ اُس میں James Lovell، Frank Borman اور William Anders سوار تھے۔ اُس جہاز نے چاند کی سطح سے صرف 60 میل یا 90 کلومیٹر کے فاصلے پر رہ کر دس چکر لگائے، تصاویر اتاریں اور زمین پر واپس آگیا۔ تاریخِ انسانی میں یہ پہلا موقع تھا، جب کسی انسان نے لاکھوں میل دُور سے زمین کو دیکھا۔ اور پھر وہ تاریخی دن بھی آگیا، جب انسان نے چاند پر اترنے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔
اپالو گیارہ وہ تاریخی خلائی جہاز ہے، جس کے ذریعے نیل آرم اسٹرانگ، ایڈون آلڈرن اور مائیکل کولنز نے چاند کی جانب سفر شروع کیا۔ ان مسافروں کو ایک ایسا راکٹ چاند کی جانب لے کر جارہا تھا، جس کی طاقت کا اندازہ دنیا کی کوئی مشین نہیں لگا سکتی تھی۔ اپالو گیارہ کو چاند کی طرف لے کر جانے والا یہ راکٹ سیٹرن پنجم( Saturn-V) تھا، جو 303 فِٹ بلند تھا اور اُس کا وزن 3 ہزار ٹن تھا، یعنی 500 ہاتھیوں کے برابر۔ اُس وقت پاکستان میں ایسی کوئی عمارت نہ تھی، جو اس راکٹ کے برابر ہو۔ سیٹرن پنجم اور اپالو گیارہ کے پُرزوں کی مجموعی تعداد تین لاکھ تھی اور ان پُرزوں کی کارکردگی سو فی صد رہی۔
اس بات کو یوں سمجھیے کہ 300 کاریں ڈھائی لاکھ میل کا سفر کریں اور ایک پُرزہ بھی خراب نہ ہو اور یہ ساری کاریں اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔ بلاشبہ یہ راکٹ سائنس کی بے پناہ ترقّی اور انسانی عقل و دانش کی ایک اعلیٰ ترین مثال تھا۔ سیٹرن پنجم جب زمین کے مدار کو چھوڑتا ہوا اپالو گیارہ کو لے کر چاند کی جانب روانہ ہوا، تو اُس کی رفتار 17 ہزار میل فی گھنٹہ سے بڑھ کر 25 ہزار میل فی گھنٹہ یا 37 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہو چکی تھی۔
خلائی سائنس کی زبان میں 25 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار کو SCAPE VELOCITY یا ’’رفتارِ فرار‘‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ رفتار ہے، جسے حاصل کرنے کے بعد کوئی بھی شئے زمین کی قوّتِ کشش کو توڑتے ہوئے خلا میں جاسکتی ہے۔ جب یہ خلائی سواری زمین سے کوئی 2 لاکھ میل یا 3 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے کو عبور کرچکی، تو اُس کی رفتار کم ہوتے ہوتے 2000 میل فی گھنٹہ تک آگئی، کیوں کہ وہ زمین کی قوّتِ کشش کے زیر اثر تھی۔
جب یہ خلائی جہاز زمین سے تقریباً2 لاکھ میل دُور اور چاند سے تقریباً 40 ہزار میل کے فاصلے پر تھا، تو زمین کی قوّتِ کشش سے آزاد اور چاند کی قوّتِ کشش کے زیرِ اثر آچکا تھا۔ اُس کی رفتار بڑھتی جارہی تھی، اگر رفتار پر قابو نہ پایا جاتا، تو وہ چاند کی سطح سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتا۔ خلا میں سفر کے دَوران راکٹ کی رفتار کم کرنی ہو، تو الٹی سمت میں راکٹ فائر کیا جاتا ہے، جسے Retro Rocket کہتے ہیں۔ اس نظام کے ذریعے خلا بازوں نے راکٹ کی رفتار کم کی اور وہ چاند کے مدار میں داخل ہوگئے۔ چاند سے 200 میل یا 300 کلومیٹر کی دُوری تک جہاز کی رفتار 4 ہزار میل فی گھنٹہ تک تھی، جسے کم کر کے 2 ہزار میل فی گھنٹہ کردیا گیا اور چاند گاڑی( Lunar Module) نے چاند کی سطح سے 103 میل کی بلندی پر چکر لگانا شروع کردیا۔
چاند پر اترنے والے دونوں مسافر، آرم اسٹرانگ اور آلڈرن گاڑی میں آہستہ آہستہ چاند کی جانب بڑھنے لگے، یہ بڑا نازک مرحلہ تھا۔ یوں ایگل (Eagle) نامی گاڑی، راکٹ کے سہارے ایک ہیلی کاپٹر کی مانند چاند کی سطح پر اُتر گئی۔ جب انسان چاند پر اترا، تو پاکستان میں 21 جولائی 1969ء کی تاریخ شروع ہوچکی تھی اور صبح کے 7 بج کر 50 منٹ ہوئے تھے، جب کہ امریکا میں 20 جولائی کی رات تھی اور دس بج کر 56 منٹ ہو رہے تھے۔ آرم اسٹرانگ نے ان الفاظ کے ساتھ چاند پر قدم رکھا۔ "That is one small step for man one giant step for mankind" یعنی’’ انسان کا یہ چھوٹا سا قدم، نوعِ انسانی کے لیے ایک دیو قامت قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ زمین پر موجود 50 کروڑ انسانوں نے اپنی ٹی وی اسکرینز پر آرم اسٹرانگ کو چاند کی سرزمین پر چہل قدمی کرتے دیکھا۔ اُن کا دوسرا ساتھی ابھی چاند گاڑی ہی میں بیٹھا ہوا تھا۔ یہاں چاند کی چمک ختم ہوچکی تھی۔ بُھربھری مٹّی، اونچے نیچے ٹیلوں اور قدرے کم بلند پہاڑوں اور چھوٹے بڑے غاروں پر مشتمل ایک آسمانی وجود اور جزیرہ اُن کے سامنے تھا۔ آلڈرن نے 19 منٹ بعد چاند پر قدم رکھا۔
اُس وقت چاند پر سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ چاند پر سورج کی دھوپ یا تپش اس کے درجۂ حرارت کو200 سینٹی گریڈ تک بڑھا دیتی ہے۔ یہ وہ درجۂ حرارت ہے، جسے کوئی جان دار برداشت نہیں کرسکتا، لیکن خلاباز اپنے مخصوص خلائی سوٹ میں، جس کا اندرونی درجۂ حرارت 30 سینٹی گریڈ تک تھا، گھوم پِھر رہے تھے۔ چاند پر قوّتِ کشش بہت کم ہونے کی وجہ سے اس پر وزن چھٹا حصّہ (One Sixth) رہ جاتا ہے۔ اسی لیے آرم اسٹرانگ کا وزن صرف 27 کلو گرام یا 60 پاؤنڈز رہ گیا تھا۔
ان مسافروں کا مقصد اپنے ساتھ چاند سے کچھ سامان بھی زمین پر لے کر آنا تھا۔ لہٰذا انھوں نے اپنے کدال کی مدد سے 22 کلو گرام یا 49 پاؤنڈز وزنی مٹّی اور پتھر جمع کیے۔ یہ تاریخ انسانی کی سب سے مہنگی مٹّی اور پتھر تھے، کیوں کہ اُس وقت تک خلائی تحقیق پر20 بلین ڈالرز خرچ ہو چکے تھے۔ خلابازوں نے مجموعی طور پر وہاں 21 گھنٹے اور 36 منٹ گزارے، لیکن اس میں سے اچھا خاصا وقت وہ اپنی چاند گاڑی ہی میں رہے، چاند پر صرف ڈھائی گھنٹے چہل قدمی کی۔ انھوں نے وہاں بہت سے تجربات بھی کیے۔ اپنے مُلک امریکا کا قومی پرچم بھی لہرایا۔ چوں کہ چاند پر ہوا کا وجود نہیں، اس لیے پرچم کو ایک چار فٹ لمبی ایلومنیم کی چَھڑی میں ڈال کر لہرایا گیا۔ وہ تقریباً 200 ممالک کے چھوٹے چھوٹے پرچم بھی ساتھ لے گئے تھے، جنھیں چاند پر بکھیر دیا گیا۔
علاوہ ازیں، ایک زلزلہ پیما بھی نصب کیا گیا، جو اس قدر حسّاس تھا کہ خلابازوں کے پیروں کی دھمک کو بھی ریکارڈ کر لیا۔ نیز، اُنہوں نے دھات کی بنی ایک تختی بھی چاند پر نصب کی، جس پر دنیا کا نقشہ کندہ تھا تاکہ اگر کبھی چاند پر کوئی اور مخلوق اترے، تو وہ دنیا کے بارے میں جان سکے۔ اس دھاتی تختی پر یہ الفاظ کندہ تھے’’ اسی مقام پر سیّارہ زمین سے انسان آئے، اُنہوں نےجولائی 1969ء میں پہلی بار یہاں قدم رکھا۔ ہم تمام نوعِ انسانی کے امن کی خاطر یہاں آئے۔‘‘ اُس وقت کے امریکی صدر، نکسن اور تینوں خلابازوں کے دست خط بھی اس پر کندہ تھے۔ چاند کے جس حصّے پر پہلا انسانی قدم رکھا گیا، اُسے امن مرکز’’ Tranquility Base ‘‘کا نام دیا گیا۔ انسان اس واقعے کے بعد بھی پانچ بار چاند پر اتر چکا ہے اور اب اس کی اگلی منزل مریخ ہے۔