خلیفۂ وقت کے سامنے کلمۂ حق:حق و صداقت کا بلاخوف و خطر اظہار سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ کی فطرتِ ثانیہ تھی، پھر والدین اور مدینے کے علماء کی تعلیم و تربیت نے انہیں مزید نڈر بنا دیا تھا، چناں چہ اپنی رائے اور مشوروں کا برملا اظہار کرتے اور پھر ان پر سختی سے قائم بھی رہتے۔علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ ’’سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ اپنے وقت کے بہت بڑے امام، فقیہ، مجتہد، محدث اور حافظ تھے۔
ولید ان کی علمیت، قابلیت اور خداداد صلاحیتوں اور عوام میں ان کی مقبولیت سے بہ خوبی واقف تھا، لہٰذا مدینے سے واپس دمشق آنے کے بعد اس نے مجبوراً انہیں اپنی مجلسِ شوریٰ کا رکن مقرر کردیا۔ مگر وہ جب بھی کوئی بات خلافِ شرع دیکھتے تو ولید کو تنبیہ کرتے اور بعض اوقات تو نوبت ڈانٹ ڈپٹ تک آجاتی۔ایک مرتبہ بڑے سخت الفاظ میں ولید سے فرمایا کہ آپ اور آپ کے گورنر، امراء ناحق لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ اس ناحق قتل پر اللہ کے یہاں آپ کی بڑی سخت پکڑ ہوگی۔ آپ اپنے گورنرز اور امراء کو حکم جاری کریں کہ وہ خود کسی کو قتل نہ کریں، بلکہ شرعی شہادتوں کے ساتھ آپ کو بھیجیں اور آپ مکمل تحقیق کے بعد فیصلہ کریں۔ یہ باتیں ولید کے مزاج کے برخلاف تھیں۔ اسے اس وقت تو بہت برا لگا، لیکن چوں کہ برحق تھیں، لہٰذا دوسرے دن اس نے کہا ’’اےابو حفص! اللہ آپ پر اپنی برکات نچھاور فرمائے۔‘‘
قیدوبند کی صعوبتیں:ولید سیّدنا عمر کی حق و صداقت کی باتوں سے نالاں تو رہتا ہی تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس نے سیّدنا عمر کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ ’’میں چاہتا ہوں کہ اپنے بھائی سلیمان کی جگہ اپنے بیٹے کو ولی عہد بنادوں، اس سلسلے میں تم میرے ساتھ تعاون کرو۔‘‘ حضرت عمر ؒ ، ولید کی بات سن کر حیران ہوئے اور فرمایا۔ ’’امیرالمومنین ؒ ! یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم نے آپ دونوں کی ایک وقت میں بیعت کی ہے۔ آپ کے والد کی وصیت اور سلیمان کی بیعت ہماری گردنوں پر ہے۔‘‘ ولید کے اس ارادے کی بہت سے معززینِ عرب نے تائید کردی تھی، لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے سختی سے انکار کر دیا اور ان کے اس انکار کی وجہ ہی سے ولید اپنے ارادے میں کام یاب نہ ہو سکا، چناں چہ ولید نے آپ کو قید کردیا اور آپ تین برس تک ولید کی قید میں رہے۔
سیّدنا عمر کے حق میں سلیمان کی وصیت:ولید کے انتقال کے بعد96ہجری میں سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنا۔ یہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ کا احسان مند بھی تھا اور انہیں پسند بھی کرتا تھا، چناں چہ اس نے آپ کو اپنا وزیراعظم بنالیا۔ 99ہجری میں سلیمان کا انتقال ہوگیا۔ محدث رجاء بن حیوٰۃ نے دمشق کی جامع مسجد میں لوگوں کو جمع کر کے سلیمان کی وصیت پڑھی، جس میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز کو خلیفہ نام زد کرکے سب لوگوں کو بیعت کا حکم دیا گیا تھا۔ حضرت عمر اپنا نام سن کر حیران رہ گئے اور فرمایا۔ ’’واللہ! میں نے تو کبھی بارگاہِ الٰہی میں اس منصب کی درخواست ہی نہیں کی تھی اور نہ مجھے اس کی چاہ ہے۔‘‘ خلیفہ منتخب ہونے کے بعد مسجد سے باہر تشریف لائے ،تو اصطبل کا داروغہ خوب صورت گھوڑوں پر مشتمل خلیفہ کی خاص سواری لیے منتظر تھا۔ آپ نے اس حسین اور بیش قیمت سواری پر ایک نظر ڈالی اور داروغہ سے کہا ’’اسے واپس لے جاؤ اور میرا ذاتی خچّرلے آئو۔‘‘
خلافت کا بارِگراں:بیعتِ خلافت اور سلیمان بن عبدالملک کی تجہیز و تکفین کے بعد جب گھر پہنچے، تو خلافت کے بارِ گراں سے سخت کبیدہ خاطر اور غم گین تھے۔ داڑھی آنسوئوں سے تر تھی۔ پریشان حال چہرے سے یوں لگتا تھا کہ جیسے برسوں کے بیمار ہوں۔ اہلیہ نے شوہر کی ایسی حالت کبھی دیکھی نہ تھی۔ گھبرا کر دریافت کیا۔ ’’کیا بات ہے، سب خیریت ہے ناں؟‘‘ اہلیہ کے اپنائیت بھرے جملے نے ضبط کے سارے بندھن توڑدیئے۔ بہتے اشکوں کے ساتھ مخاطب ہوئے۔ ’’اللہ کی بندی! خیریت کہاں ہے؟ میرے ناتواں کاندھوں پر امّتِ مسلمہ کا کوہِ گراں ڈال دیا گیا ہے۔ مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب تک پھیلی امّتِ محمدیہ ؐ کے جملہ مسلمان بہ شمول بھوکے، بیمار، غلام، مساکین، مسافر، قیدی، چھوٹے بڑے، بچّے بوڑھے سب کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ مجھے تشویش ہے کہ اگر ان میں سے کسی کا ایک کا دانے برابر بھی حق رہ گیا، تو روزِ قیامت اللہ اور اس کے محبوب کو کیا منہ دکھائوں گا۔‘‘
خلافت سے دست بردار ہونے کا فیصلہ:
سیّدنا عمر کو احساس تھا کہ خلافت کی ذمّے داریاں کوئی پھولوں کی سیج نہیں، بلکہ خاردار، پیچیدہ راستوں سے خود کو بچا کر نکال لے جانے کی وہ کوشش ہے کہ جس میں خاندانِ بنوامیّہ قطعی طور پر ناکام رہا۔ کئی دنوں کے غوروخوض کے بعد خلافت سے دست برداری کا فیصلہ کیا۔
پھر لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا۔’’لوگو! میری خواہش اور عوام النّاس کی رائے لیے بغیر خلافت کی ذمّے داری کا جو طوق میری گردن پر ڈال دیا گیا ہے، میں اسے اپنے ہاتھوں سے اتار دیتا ہوں، لہٰذا اب تم جسے چاہو، اپنا خلیفہ منتخب کرلو۔‘‘ ابھی آپ کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ اہلِ دمشق نے آپ کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اس وقت تک وہاں سے نہ جانے کا عزم کیا، جب تک آپ اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتے۔ بالآخر ہزاروں افراد کے پرزور اصرار پر آپ اس بارِگراں کو اٹھانے پر مجبور ہوگئے۔ تاہم، اس موقعے پر آپ نے جو پراثر اور ایمان افروز خطاب کیا، وہ بنومروان کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی تھا اور اہل ایمان کے لیے خوشیوں کا پیغام بھی۔
اہلِ خانہ کا جملہ سامان بیت المال میں:سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ خطاب کے بعد اپنے خچر پر سوار ہو کر گھر واپس آئے اور اہلیہ سے فرمایا۔’’ اے فاطمہ! میں نے اللہ کی رضا کے لیے امّت ِمحمدیہ کی غلامی کی ذمّے داری قبول کرلی ہے۔ اب تمہارے سامنے دو راستے ہیں، اگر میرے بغیر، تمہیں دنیا عزیز ہے، تو یہ مال و متاع، دولت و عشرت، ہیرے جواہرات تمہارے ہیں، اور اگر اللہ کی رضا کے لیے میرا ساتھ دینا منظور ہے، تو تمہیں ان تمام دنیاوی اشیاء سے دست بردار ہونا ہوگا۔ تم سوچ کر فیصلہ کرو اور مجھے آگاہ کردو۔‘‘ بنوامیّہ کے پرآسائش محلوں میں پروان چڑھنے والی فاطمہ نے بڑے عزم اور اعتماد سے جواب دیا۔ ’’امیرالمومنین! اس میں سوچنا کیا ہے؟ شوہر کی اطاعت ہر مومن عورت پر لازم ہے اور مجھے اللہ اور اپنے شوہر کی رضا درکار ہے۔ میں ان تمام مال و اسباب سے دست بردار ہوتی ہوں۔‘‘ اہلیہ کے اس مجاہدانہ فیصلے نے آپ کے حوصلوں کو مزید تقویت بخشی۔
آپ نے فوری طور پر گھر کا جملہ سامان بیت المال میں جمع کروادیا۔ ان میں وہ بیش قیمت ہیرا بھی تھا، جو فاطمہ کے والد، خلیفہ عبدالملک نے اپنی لاڈلی بیٹی کو شادی کے وقت تحفے میں دیا تھا۔(سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ کی وفات کے بعد یزید بن عبدالملک خلیفہ مقرر ہوا، تو اس نے اپنی بہن فاطمہ سے کہا کہ ’’اگر آپ چاہیں، تو اپنے تمام زیورات اور مال و متاع واپس لے سکتی ہیں۔‘‘ مگر فاطمہ نے جو عمر بن عبدالعزیز ؒ کی صحبت میں رہ کر ان ہی کے رنگ میں رنگ چکی تھیں، کہا، ’’امیرالمومنین! جو اشیاء میں اپنی خوشی سے بیت المال میں جمع کرواچکی ہوں، اب اپنے شوہر کی وفات کے بعد میں انہیں کیسے واپس لے سکتی ہوں‘‘)۔
بنو مروان کے سامان کی ضبطی:اپنا مال بیت المال میں جمع کروانے کے بعد آپ نے اپنے بھائیوں اور دیگر رشتے داروں کو جمع کیا اور فرمایا۔’’اے بنومروان! امّتِ محمدیہ ؐ کا دو تہائی مال و دولت تمہارے قبضے میں ہے۔ بہتر ہے کہ اسے واپس بیت المال میں جمع کروادو، ورنہ اسے تم سے چھین کر بیت المال میں جمع کروایا جائے گا۔‘‘ بنو مروان کے امراء اس طرح کے فیصلے سننے کے عادی نہ تھے، چناں چہ وہ عجیب فیصلہ سن کر حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ ان سب کا مال و اسباب بیت المال میں جمع کروادیا گیا، لیکن اس فیصلے نے سیّدنا عمر اور بنو مروان کے درمیان دشمنی کا وہ بیج بو دیا، جو بعدازاں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒ کی شہادت کی وجہ بنا۔
سیّدنا فاروق اعظمؓ کے پوتے کو خط:خلافت کے فوراً بعد آپ نے حضرت عمر بن خطابؓ کے پوتے، حضرت سالمؓ کو خط لکھا کہ ’’اگر اللہ مجھے استطاعت دے، تو میری خواہش ہے کہ میں رعایا کے معاملات اور خلافت کے امور میں سیّدنا فاروق اعظمؓ کا اندازِ خلافت اختیار کروں، اس لیے آپ میرے پاس ان کی تمام تحریریں، خطوط اور فیصلے بھیج دیجیے، جو انہوں نے مسلمانوں اور زمّیوں کے بارے میں کیے۔ اللہ کو منظور ہوا، تو میں ان کے نقشِ قدم پر چلوں گا۔‘‘
شہنشاہی میں فقیری:سیّدنا عمر بن عبدالعزیز ؒکی خلافت سے قبل کی زندگی بے حد آسودگی و خوش حالی میں گزری، لیکن جب امّت کی خلافت کا بارِگراں کاندھوں پر آیا، تو پیوند زدہ معمولی لباس اور موٹی غذا ان کا معمول بنا۔ سعید بن سوید کہتے ہیں کہ ’’سیّدنا عمر جب جمعے کی نماز پڑھانے آئے، تو میں نے دیکھا کہ ان کے کرتے میں آگے اور پیچھے کی جانب پیوند لگے ہوئے ہیں۔ ایک شخص نے کہا کہ امیرالمومنین! اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب کچھ عطا کیا ہے، پھر آپ نئے کپڑے کیوں نہیں بنواتے؟ ‘‘ آپ تھوڑی دیر سر جھکائے سوچتے رہے، پھر فرمایا کہ تونگری میں میانہ روی اور قدرت میں عفو بڑی چیز ہے۔‘‘ مسلمہ بن عبدالملک نے فرمایا کہ ’’میں عمر بن عبدالعزیز ؒ کی عیادت کے لیے گیا، تو دیکھا کہ ایک بوسیدہ کرتا پہنے ہوئے ہیں۔
میں نے اپنی بہن، یعنی ان کی اہلیہ سے کہا کہ تم ان کا کرتا دھو کیوں نہیں دیتیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کے پاس کوئی دوسرا کرتا نہیں ہے۔‘‘سیّدنا عمر نہایت خوش شکل اور خوب صورت جسم و جسامت کے مالک تھے، لیکن خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد صرف دو ہی سال میں سر کے بالوں سے محروم ہوگئے ، گال پچک گئے اور جسم اس قدر لاغر ہوگیا کہ ایک ایک ہڈی الگ الگ گِنی جا سکتی تھی۔ آپ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ’’سیّدنا عمر نے خلیفہ بننے کے بعد کبھی رات بھر آرام کیا، نہ کبھی پیٹ بھر کر روٹی کھائی اور نہ کبھی مرغن کھانا کھایا۔ گھر میں عموماً دال پکتی اور اگر وہ بھی میسّر نہ ہوتی، تو زیتون کے تیل میں روٹی بھگو کر کھاتے اور آب دیدہ ہوتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے کہ اس نے اس نعمت سے نوازا۔ ہر بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا، ان کا معمول بلکہ تکیہ کلام تھا۔‘‘
جس کا اللہ ہو نگہباں:بنوامّیہ کے خلفاء کو اپنی شان و شوکت، نمود و نمائش اور جان و مال کی بڑی فکر ہوا کرتی تھی، چناں چہ سپاہ کی ایک کثیر تعداد ہر وقت ان کے ساتھ رہتی۔ خلیفہ سلیمان کی حفاظت اور اردلی کے لیے بھی100سپاہی اور کوتوال مقرر تھے۔ سیّدنا عمر خلیفہ مقرر ہوئے تو فرمایا۔ ’’میری حفاظت کے لیے قضا و قدر اور اجل کافی ہے، مجھے ان میں سے کسی کی ضرورت نہیں، سب اپنے اہل و عیال کے پاس واپس لوٹ جائیں۔ تاہم، اگر کوئی اپنی خوشی سے رہنا چاہے، تو اسے صرف10درہم تن خواہ ملے گی۔‘‘
شب کے معمولات:محمد بن قیس سے مروی ہے کہ سیّدنا عمر عشاء کی نماز پڑھ کر بیت المال سے شمع منگواتے اور مسلمانوں کے معاملات و مقدمات پر فرمان جاری کرتے، تاکہ بروقت تمام علاقوں کو روانہ کیے جاسکیں۔ صبح ہوتی، تو ادائے حقوق کے لیے اجلاس کرتے اور مستحقین میں صدقات تقسیم کرتے۔ جس شخص کو بھی صدقہ دیا جاتا، دوسرے سال اس کے پاس اتنے اونٹ ہوتے کہ ان پر زکوٰۃ عاید ہوتی۔
شیر اور بکری ایک گھاٹ پر:حضرت مالک بن دینار سے مروی ہے کہ ’’جب حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ خلیفہ مقرر ہوئے، تو چرواہے نہایت تعجب سے کہنے لگے کہ لوگوں پر کون خلیفہ مقرر ہوا ہے کہ ہماری بکریوں کو بھیڑیئے کچھ نہیں کہتے۔ ‘‘ (ابن سعد)۔ موسیٰ بن اعین کہتے ہیں کہ ’’میں عمر بن عبدالعزیز ؒ کی خلافت میں کرمان میں بکریاں چَرایا کرتا تھا۔ بکریاں، بھیڑیئے اور وحشی جانور ایک ہی مقام پر چَرتے تھے۔ ایک رات ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک بھیڑیا ایک بکری کو دبوچ کر بھاگ نکلا۔ میں حیران رہ گیا۔ میں نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آج وہ مردِ صالح دنیا سے کوچ کرگیا۔ اور پھر تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ واقعی اس روز حضرت عمر بن عبدالعزیز کا انتقال ہوا تھا۔‘‘ (تاریخ الخلفاء)۔
خاندانِ علی مرتضیٰؓ سے والہانہ محبت:فاطمہ بن علیؓ ، بن ابی طالب جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ذکر کرتیں، تو بہت دعائیں دیتیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ان کے پاس اس زمانے میں گئی، جب وہ مدینے کے گورنر تھے۔ انہوں نے ہر ملازم اور غلام کو گھر سے نکال دیا۔ جب مجھ سے ملاقات کی، تو کوئی اور نہ تھا، پھر انہوں نے کہا کہ ’’اے علیؓ کی بیٹی! اللہ کی قسم مجھے روئے زمین پر کوئی خاندان آپ لوگوں سے زیادہ محبوب نہیں اور آپ لوگ تو مجھے میرے اپنے متعلقین سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ (طبقات ابن سعد)۔
(جاری ہے)