• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر مشرف کو پاکستان آنے پر گرفتار نہ کرنے کی ضمانت، راؤ انوار ضمانت پر باہر، نواز شریف آتے ہی گرفتار۔ چشم تصور میں نواز شریف 25 جولائی سے پہلے ضمانت پر باہر، اڈیالہ جیل سے جاتی امرا کا سفر، پاکستان کی تاریخ رقم کر جائے گا۔ سیاسی انجینئرنگ، پولیٹکل سائنس، تدبیریں ہوا میں معلق نظر آئیں گی۔ زرداری صاحب کا اصل گناہ جنوری میں سندھ اسمبلی نہ توڑنا اور اب الیکشن ملتوی کرانے میں حصہ ڈالنے سے انکاری پچھلے وگرنہ دو سالوں سے انہی جرائم سے صرف نظر، ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن، ایان علی درجنوں دوسرے اربوں روپے کے اسکینڈل کے باوجود پلک جھپکتے دندناتے پھر رہے تھے۔ یااللہ! جائیں تو کدھر جائیں کہ عیاری، مکاری چار سو، وطن عزیز قومی مفادات کا نیلام گھر۔ جنرل ضیاء الحق کی کامیاب ترین مہم جوئی اور جہادِ افغانستان کی پرشکوہ کامیابیوں کے باوجود نتیجہ ایک ہی کہ اداروں نے جب بھی سیاست کو اپنے پنجہ استبداد اور کنٹرول میں لیا، دفاعی قوت اور اداراتی استعداد متاثر ہوئی۔ زمینی حقائق اور عینی شہادتیں خلائی مخلوق کے کمالات کے قائل، پری پول رگنگ ممکن، جنرل غفور کی بات سے متفق الیکشن ڈے پر جب پانچ کروڑ سے زیادہ ووٹرز نکلیں گے رگنگ ناممکن، اپنا حق حاصل کرنا جانتے ہیں۔ جیو پالیٹکس کے تناظر میں سیاسی حکومت اور سیکورٹی ادارے طاقت کے دو مستند مرکز، جب بھی ایک ذات میں مرتکز، ریاست، دشمنان وطن کے سامنے مطیع، ممنون، مفلوج۔ اِدھرسانحہ نائن الیون اُدھر کمانڈو صدر امریکی وزیر خارجہ کی ایک کال، شرائط من و عن تسلیم کرنا پڑیں۔ بقول جنرل شاہد عزیز، ’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘، اپنے ساتھی جرنیلوں کو بھی دھوکے میں رکھا، بہت کچھ چھپایا، بہت کچھ بغیر مانگے پیش کر دیا۔2009ء جیسی تیسی جمہوری حکومت، اُسی کی طاقت۔ کہ جنرل کیانی نے صدر اوباما کودستاویزات کا پلندہ (DOSSIER) پیش کردیا۔ پہلی دفعہ ہم نے چارج شیٹ دی۔ مشوروں میں کرنے کے کام اور افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے راستے بتائے،مضبوط مگر مطالبات دیئے۔ امریکی پالیسی ساز اداروں میں آج بھی موجود معقول افراد، جنرل کیانی دستاویزکو خطے کی ابتری، فساد، افراتفری کو ٹھیک کرنے کا واحد راستہ، رہنما اصول جانتے ہیں۔1959ء میں پشاور بڈھ بیر اڈے امریکہ کے حوالے کرنے سے لے کر حالیہ کسمپرسی تک ہی بات مستحکم جب بھی آمروں نے جمہوریت کو نڈھال کیا گلا گھونٹا، دشمنان وطن کا قہر ہمارے اوپر ٹوٹ پڑا۔ اچھنبے کی بات نہیں کہ پاکستان مارشل لائی دورانیے میں دولخت ہوا۔ جنرل یحییٰ خان ’’صاف شفاف‘‘ الیکشن کروا چکے، بذریعہ پروپیگنڈہ، تقاریر، میڈیا چار سو دھاک بٹھائی مگر پاکستان توڑ دیا۔ ایک اور حقیقت کا منسلک رہنا ضروری کہ لیاقت علی خان، مادرِ ملت ہمشیرہ جناح جیسی پہاڑ نما درجنوں بڑی شخصیات سمیت سیاستدانوں کو منظم طریقے سے بدنام کرنے میں 70سال خرچ کر ڈالے۔ کردار کشی کرنے میں نا انصافی نہ کنجوسی، فراخدلی ضرب المثل بنی۔ پریشانی اتنی کہ ایک وقت میں کرپٹ اور مافیا ٹھہرے، ادھر وفاداریاں تبدیل ادھر رفعتیں مقدر بنیں۔2000ء میں چوہدری شجاعت، پرویز الٰہی، فیصل صالح حیات کرپشن کی علامت تھے جبکہ اگلے سال یہی قیادت کے حقدار ٹھہرے، پلک جھپکتے کریکٹر سرٹیفکیٹ کہ اصلی فرشتے یہی۔
ایوب خان کی ایجادات کی داد، پہلی دفعہ دنیائے سیاست کو ایک ایسے ضابطے سے متعارف کروایا، (EBDO)، منتخب نمائندوں کو نااہل بنانے کی ترکیب۔ ایوب خان نے EBDO کے تحت سینکڑوں سیاستدانوں پر دس سال تک کی پابندی لگا دی۔ حسین سہروردی جیسے سیاستدان ملک چھوڑ کر جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور رہے۔ سیاستدان بقلم خود ذمہ دار کہ ڈکٹیٹرز اور سازشیوں نے ہمیشہ سیاستدانوں کو لالچ، دباؤ، دھونس کے ذریعے باہمی اُکسایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس موقع تھا، سیاستدان مل بیٹھتے ایک دوسرے کو نیچا دکھائے بغیر، جمہوریت کو مضبوط بنیاد فراہم کرنا تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو آئین 73میں آرٹیکل6 درج کرا کے مطمئن، بھرپور ڈکٹیٹر بننے میں عافیت ڈھونڈ چکے تھے۔ کبریائی میں صوبہ سرحد اور بلوچستان میں مخالف حکومتیں توڑیں، مخالف سیاستدانوں نیزے کی انی پر زندگی اجیرن بنائے رکھی، خود نشان عبرت بننا پڑا، جمہوریت پٹڑی سے اتر گئی۔ بھٹو نے اسٹیبلشمنٹ کا راستہ روکنے کی بجائے مداخلت کا نادر موقع فراہم کیا۔ مخالف سیاستدان موقع کی تلاش میں، اسٹیبلشمنٹ کی بطرز عمران خان اور زرداری ممد و معاون بن گئے۔ بدقسمتی بھٹو کی موت کا مطالبہ کرنے والوں میں سیکولر اصغر خان، ترقی پسند ولی خان جیسے رہنما پیش پیش تھے۔ تب سے ہی اسٹیبلشمنٹ ایک تاک میں، مقبولِ عام ناقابل تسخیر سیاسی لیڈر حاوی نہ ہونے پائے۔
بھٹو کی سیاست سے اسٹیبلشمنٹ نے ایک ہی سبق ازبرکیا کہ آئندہ کسی بھی سیاستدان کو کھل کھیلنے، مستحکم ہونے کا موقع نہیں دینا۔ جب بھی کوئی سیاستدان یکطرفہ حاوی ہونے کے قریب پایا جائے، گلے میں پھندا ڈالو، نیچے سے تختہ کھینچ دو کہ یہی ہے رخت سفر مضبوط سیاستدان کے لئے۔ گھناؤنا کھیل ریاست کے لئے جان لیوا بن چکا۔ چابکدستی سے عمران خان عرصے سے مہرہ کا کام، مہارت سے پچھلے دو سال سے زرداری زیر استعمال ہیں، گو زرداری آج ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ سیاسی جاں جاں آفرین کے سپرد ہونے کو۔ اتنی مہلت موجود نہیں کہ جاں کی اماں پانے کی ترکیب و ترتیب بھی سوچ پائیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے 2014ء میں قوتوں کو جب صریح دھوکہ دیا۔ وعدہ دھرنے میں بیٹھنے کا،جا بیٹھے اسمبلی۔ سیاستدانوں کے اتحاد نے نظام کو بچا لیا،اشتعال بڑھا دیا۔
جاوید ہاشمی کو چند ہفتے بعد الیکشن میں ہرا کر سبق ملا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی پر 2015ء کڑا گزرا۔ طاقتوروں کو مجبوراً پینترے بدلنے پڑے کہ ن لیگ نے 2015ء میں کام کر کے اپنے آپ کو مضبوط بنا لیا۔ نواز شریف کی مقبولیت اور مضبوطی ساتویں آسمان پر پہنچ گئی۔1997-99ء سے نواز شریف نے بھی سبق نہ سیکھا۔ مطلق العنانیت، دیگر سیاسی جماعتوں، اپنے ساتھیوں سے بے اعتنائی، اسمبلی اور کابینہ سے لاتعلقی، MQMاور PPP کے خلاف سازشوں کا حصہ بننے تک میں عار نہ سمجھی۔ اُدھر سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات اِدھر منتظر قوتوں نے لمحہ ضائع کیے بغیر زرداری جیسا بھاری پتھر چوم کر اُٹھا لیا۔ زرداری صاحب، نواز شریف کی دھوکہ دہی پر نالاں تو تھے ہی، مال اسباب کو پاکیزہ بنانے کا موقع کیوں گنواتے؟ بدقسمتی، بہت جلد فراغت بھی، بھرپور قوتوں نے الیکشن سے پہلے زرداری کو ٹھکانے لگانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ طاقتوروں کے لئے عمران خان کا معاملہ سہل رہنا ہے۔ عمران خان کے مشکوک لوگوں سے گہرے روابط ہمیشہ سے محدب عدسہ کے نیچے، زلفی بخاری اور ریحام خان کے بارے میں حتمی رائے، دونوں کا تعلق مبینہ طور پر ایک خفیہ ایجنسی سے، طاقتور قوتیں بخوبی آگاہ ہیں۔ عمران کے کئی دوسرے مسائل و کمزوریاں، ملکی باگ ڈور حوالے کرنا، تقریباً ناممکن۔ عمران خان کی استعداد، اہلیت،انتہائی کرپٹ اور بدنام لوگوں کے پیسوں پر گزر اوقات بھی وجہ نزاع ہے۔ تازہ بہ تازہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے پانچ مقدمے، اپنی اصل منزل مقصود سپریم کورٹ پہنچ چکے ہیں۔ ناموافق حالات میں موافق ماحول کے لئے ساز گار۔ بفرض محال، حالت کے جبر نے وزیر اعظم بنا دیا تو افتخار چوہدری کے جبر نے دائرہ اختیار و کار محدود ومسدود رکھنا ہے۔ فیصلہ اقتدار نہ دینے کا ہوا تو پانچ مقدمات تریاق رہیں گے۔
21مئی کو امریکی وزیر خارجہ (سابق سربراہ CIA) نے ایران کو ’’کرنے کے 12کام بتادیئے‘‘۔ عملاً ایران کو گھیرنے، حملہ آور ہونے کا اعلامیہ ہی، اہم اور دلچسپ کام افغانستان میں طالبان کی پشت پناہی اور ان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنا ہے، ختم کرنا ہوں گی۔ جملہ معترضہ پاکستان پر 17سال سے فرضی بہانوں بنا قیامت برپا رہی۔ ڈرون حملے، دہشت گردی عام رہی۔ آج امریکی پالیسی میں، ایران کا بندوبست پہلی ترجیح، پاکستان نے خودبخود لپیٹ میں آنا ہے۔ امریکہ کا شمالی کوریا سے معاملہ درستی، روس سے شام پر معاملہ فہمی کی بھرپور کوشش، ایران پر توجہ دینا ہے۔ ایک عرصے سے بھارت امریکہ کو جیب کی گھڑی سمجھ کر چین، روس، ایران سے پینگیں بڑھا رہا تھا۔ ہوشیار امریکہ، پچھلے چند ماہ سے کشمیر کی مزید ابتری کی طرف جاتی صورتحال نے بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی کی قلعی کھول دی، مجبوراً امریکہ آگے دو زانو جھکنا پڑا۔ ایران سے تجارت منقطع، چابہار سے بوریا بستر سمیٹ بدھو واپس گھر کو لوٹے۔ پاکستان کے لئے ہولناک، خوفناک خبروں کا آغاز بھی یہیں سے ہے۔ امریکہ کے کشمیر بیک ڈراپ میں جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ زور پکڑے گا۔ پاکستان کو طالبان بارے ایکشن لینے کو اور سب سے بڑھ کر ایران کے خلاف بلوچستان کی سرزمین استعمال کرنے کا مطالبہ آنے کو ہے۔ ہفتوں مہینوں کے اندر اندر بہت کچھ سامنے۔ امریکہ عرصہ سے پاکستان کے اندر عدم استحکام اور افراتفری کامنتظر ہے۔ عرصہ دراز سے اپنے کالموں میں اعادہ کرتا رہا ہوں۔ کیا سیاسی عدم استحکام، ریاست کی جان کے درپے ہونے کو؟ سیاستدانوں کو کٹ ٹو سائز یا جیب کی گھڑی بنانے کے لئے بین الاقوامی حالات، موافق رہنا ضروری تھے۔ ہمارے مرشدوں کو کسی نے نہیں بتایا کہ بین الاقوامی حالات 1977,1958اور1999 سے یکسر مختلف ہیں۔ جان کے لالے پڑ سکتے ہیں۔عزیز دوست کا کہنا درست کہ پنجاب اپنی افواج پاکستان سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ کسی صورت میں پنجاب کو افواج پاکستان کے خلاف ورغلانا یا تقسیم کرنا، زہر قاتل۔ دشمن افراتفری پھیلا کر، سیاسی عدم استحکام کا فائدہ اُٹھا کر سیکورٹی اداروں کو سیاست کی بھینٹ چڑھا سکتا ہے۔ 13ج ولائی، نواز شریف کی لاہور آمد آمد، رن کانپ رہا ہے، سیاسی انجینئرنگ متزلزل ہے۔ کئی ترکیبیں اُلٹ پلٹ ہونی ہیں۔ کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر نیب کی حواس باختگی، ایک مزاحیہ پروگرام، بیانات، انتظامات مضحکہ، تفریح طبع کا سامان مہیا کر چکے ہیں۔الیکشن سر پر، خبر اتنی کہ آصف زرداری الیکشن ملتوی کرنے پر آمادہ نہیں،اس سے پہلے جنوری میں سندھ اسمبلی نہیں توڑی۔ اے اہل وطن زرداری کی کرپشن، ایم کیو ایم کے جرائم کبھی بھی وجہ نزاع نہ تھے۔ انہی اصناف و اوصاف کے ساتھ جاری کارخیر میں دونوں جماعتوں کو کئی بار بھرتی رکھا۔ میرے مرشدو !ترکیب ضرور بناؤ مگراللہ کی ترکیب سے ہوشیار رہو کہ حاوی رہے گی۔ نواز شریف الیکشن جیتیں یا ہاریں، عمران خان کے اوسان خطا، نواز شریف کو نیلسن منڈیلا بنا دیا۔ پچھلے سال کم و بیش انہی دنوں میں تحریک انصاف کے چند درجن جیالوں نے لندن میں نواز شریف کی رہائش گاہ باہر مظاہرے کیے۔ تنگ آمد بجنگ آمد، ن لیگ نے گالی اور الزام کے زور پر زندہ رہنے والوں کے خلاف انہی کا گُر آزمایا۔ پچھلے سال جب عمران خان چند دنوں کے لئے لندن تشریف لے گئے، اپنی مخصوص رہائش گاہ لیڈی اینا بیل کے گھر پر، ابھی خواب استراحت سے فارغ نہ ہوپائے تھے کہ مسلم لیگ کے سینکڑوں جیالے، لیڈی اینا بیل کے گھر رچمنڈجا پہنچے،عمران خان بلکہ اہلخانہ کے لئے پریشانی، ندامت، شرمندگی کا ماحول پیدا کیا۔ بین الاقوامی خبر بنی۔ عمران خان چند گھنٹوں بعد جب برمنگھم پہنچے تو فنڈ ریزنگ فنکشن پر تقریر نہ کر سکے، ہکلاتے رہے۔ پچھلے سال، اشاروں پر ناچنے والے عمران خان نے نواز شریف کے گھر جاتی امرا پر دھاوا بولنے کا اذن دیا تو خاکسار نے پیغام پہنچایا، اس باب کو بند رکھو۔ آپ کا گھر زد میں آجائے گا، بلوہ کے لئے چند درجن کافی ہوتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کل لندن کے بلوے میں عمران خا ن کا ہاتھ نہ ہوگا۔ مگر یہ بات خارج ازمکان نہیں کہ عمران خان لندن میں اب جہاں بھی ٹھہریں گے وہاں مسلم لیگی بلوائی ادلے کا بدلہ چکائیں گے۔PMLN اور PTI کی لڑائی جس نہج پر آگئی ہے،اگر نتیجے میں خونی تصادم ہوا تو ذمہ دار کون؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین