• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شیکسپیئر کے کھیل میکبتھ کا ایک جذباتی منظر ہے۔ مقتول بادشاہ ڈنکن کے بیٹے میکڈف نے جلاوطن حکومت قائم کر رکھی ہے۔ پیچھے دیس میں غاصب حکمران میکبتھ جلاوطن حکومت کا ساتھ دینے والوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ میکڈف کے ایک ساتھی کو اطلاع ملتی ہے کہ میکبتھ نے اس کے بیوی بچے مار ڈالے۔ میکڈف دکھ میں ڈوبے ہوئے دوست کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے، ”اسے بہادری سے برداشت کرو“۔ سوگوار دھیرے سے کہتا ہے۔ ” برداشت بھی کر لوں گا، لیکن مجھے بہادری سے محسوس تو کرنے دو کہ مجھ پہ کیا گزری ہی۔“ تو بھائی صدمے کو برداشت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ زیاں کی کماحقہ جانچ پڑتال کی جائے، رفو گری سے پہلے گھاؤ کی گہرائی کو پورے طور پر دیکھ تو لیا جائے۔ فوج کے سربراہ نے درست فرمایا کہ ہم قومی تاریخ کے ایک نازک مرحلے سے دو چار ہیں اور بے جا توڑ پھوڑ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ معاشرہ تاریخ کا اسیر ہوجائے تو مستقبل کی تعمیر کھٹائی میں پڑ جاتی ہے۔تاہم ماضی کی پوری تفہیم کے بغیر مستقبل کے خدوخال تراشنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔
اصغر خان کیس کا تفصیلی فیصلہ سامنے آگیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے معاملے کی جملہ نزاکتوں کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے متعلقہ فریقین کے خلاف تحقیق کا حکم دیا ہے۔ یہاں عدالت کی ذمہ داری ختم ہوتی ہے اور تمدنی قوتوں کا کردار سامنے آتا ہے۔ ہماری سیاسی اور تمدنی قیادت کو یہ ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ معاملہ نہ تو 1988ء میں شروع ہوا تھا اور نہ یہ محض چند کروڑ روپوں کے لین دین کا قضیہ تھا۔ یہ پاکستان کی تین نسلوں کے زیاں کا مقدمہ ہے اور استغاثہ یہ ہے کہ عوام کے حق حکمرانی پر ڈاکہ ڈالا گیا ۔ عوام کی حاکمیت سے انکار نے ہماری منزلیں کھوٹی کی ہیں ، ہم غریب ہوئے ہیں، اپنی ذہنی اور پیداواری استعداد کو بروئے کار لانے سے محروم ہوئے ہیں۔ یہ روایت جنرل اسلم بیگ یا جنرل اسد درانی سے بہت پہلے شروع ہوئی تھی اور ہمارے سیاسی مکالمے میں اس کی بازگشت ابھی تک موجود ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو افواہوں کے باغباں آئندہ انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات کے بیج نہ بوتے۔ نگراں حکومت کی مدت کے بارے میں وسوسے جنم نہ لیتے۔ ہمیں یہ مژدہ سننے کو نہ ملتا کہ آئندہ نگراں حکومت میں نہایت دیانت دار اور اہل افراد کو شامل کیا جائے گا جو تین ماہ کی آئینی مدت میں انتخابات کرانے کی بجائے قدرے طویل عرصہ کے لیے قیام فرما ہوں گے اور اس دوران ایسے مضبوط اور درست اقدامات کیے جائیں گے جو منتخب سیاسی رہنماؤں کے بس کا روگ نہیں ہیں۔ یہ استدلال تو بہت مانوس معلوم ہوتا ہے۔1954ء میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کر کے ”باصلاحیت کابینہ“ متعارف کرائی گئی تھی۔ ایوب خان نے بھی ہمیں نااہل اور کمزور سیاست دانوں سے نجات کی نوید سنائی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے بارے میں بھی یہی قیاس کیا گیا کہ انتخابی پیچیدگیوں میں الجھے بغیر ڈپٹی کمشنر نیز پٹواری سے محب وطن عناصر کی فہرست بنوائی جائے گی اور یہ تو کل کی بات ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے ملک کے کونے کونے سے گہر ہائے آب دار چنے تھے۔ جن موتیوں نے اس قومی خدمت میں رضاکارانہ شرکت سے انکار کیا، انہیں بدعنوانی کی مبینہ فائلیں دکھا کر ڈھب پہ لایا گیا تھا۔
یوں کسی ایک قومی ادارے کی بھد اڑانا آسان ہے مگر غلام محمد، عزیز احمد اور ابوطالب نقوی سے لے کر روئیداد خان اور اجلال حیدر زیدی تک ہمارے تربیت یافتہ اور نہایت اہل سرکاری ملازم فوجی وردی تو زیب تن نہیں کرتے تھے۔اصل جھگڑا وردی کا نہیں، اس آہن پوش ذہنیت کا ہے جو ہمیں ملک سے بھاگنے کا ارادہ رکھنے والوں کی مبینہ فہرستوں کی خوش خبری سناتی ہے ۔ باخبری کا یہ عالم کہ ٹھیک ٹھیک بتایا جاتا ہے کہ ان مبینہ فہرستوں میں کتنے نام شامل ہیں ۔ دوسری طرف ایسا تجاہل عارفانہ کہ ہم کم نصیبوں کو آگاہ نہیں کیا جاتا کہ یہ نیک کام کس عالم ملکوت میں ہو رہا ہے اور اس پرکون فرشتے مامور ہیں۔ نیز یہ کہ اس نوع کے کسی اقدام کی آئین میں کہاں گنجائش ہے۔ اگر آئین میں ایسے کسی بندوبست کی جگہ نہیں تو کیا ہم ماورائے آئین امکانات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ صاحب، آئین سے تجاوز کی علت ہی نے ہماری تاریخ کو تمام زخم بخشے ہیں۔ استاذی عزیز صدیقی مرحوم فرماتے تھے کہ لاقانونیت کے بطن سے آئین پسندی جنم نہیں لیتی۔
سوال یہ ہے کہ اگر ملک عزیز میں ایسے عبقری دماغ موجود ہیں جو ملک و قوم کی بہتر خدمت کر سکتے ہیں تو یہ خوش خصال ہستیاں عوام سے تائید حاصل کرنے کا جمہوری اور آئینی راستہ کیوں اختیار نہیں کرتیں۔اگر قوم کی خدمت کے لیے ہر جمہوری وقفے کے بعد ایک غیر آئینی تعطل کی ضرورت پڑتی ہے تو جمہوریت اور آئین کے تکلف میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر ہمیں غیر سیاسی حلقوں سے ایسے باصلاحیت افراد میسر آسکتے ہیں جو قوم کی نیا پار لگا سکیں تو وقفے وقفے سے سیاسی عمل کی طرف رجوع کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ دیکھئے، پاکستان جمہوری عمل کے ذریعے حاصل کیا گیا۔ یہاں کے شہریوں میں زبان، ثقافت، عقیدے اور تاریخی تجربے کے اعتبار سے ایسی رنگارنگی پائی جاتی ہے کہ اس ملک کو شاہی فرمان کے ذریعے چلانا ممکن نہیں۔ پاکستان کے باشندوں کی بہتری اور ترقی ایسی حکومت کے قیام اور تسلسل میں ہے جس کی بنیادی قوت عوام کی تائید ہو۔ یہ عوام کا بنیادی حق ہے کہ انہیں اپنے فیصلہ ساز حکمران چننے کا موقع ملے اور وہ جس سیاسی جماعت یا رہنما کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہوں، اسے وو ٹ کے ذریعے اقتدار سے باہر کر یں۔ اگر سیاسی رہنماؤں کو یہ احساس ہو گا کہ ان کا اقتدار عوام کی جوابدہی اور تائیدکے تابع ہے تو وہ قومی مفاد اور عوامی فلاح کی طرف توجہ دیں گے۔ اس اجتماعی ادراک سے تمام قومی ادارے مضبوط ہوں گے۔ ہماری خرابیوں کی بنیاد یہ نہیں کہ ہمارے حکمران اہلیت یا دیانت سے محروم ہیں ، ہماری پسماندگی کا سبب یہ ہے کہ ہم نے عوام کے حق حکمرانی سے کھلواڑ کی ہے اور ہم شرح صدر سے یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ ہمارے مسائل حل کرنے کے لیے فضاؤں سے فرشتے نہیں اتریں گے بلکہ ہمیں جمہوری عمل کے ذریعے اپنی اجتماعی فراست کو بروئے کار لانا ہو گا۔
تازہ ترین