ماضی قریب میں صدر نے عزیز محترم حامد می سے ٹی وی انٹرویو کے کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا ”حامد، پاکستانی سوسائٹی EVOLVE ہو رہی ہے“ صدر کا مفہوم واقعات کی نئی تشکیل کے مراحل سے تھا جن کے قدرتی نشوونما اور استنباط میں مشکل محسوس ہو رہی ہے۔ صدر کی آبزرویشن درست تاہم اندھیروں کی عارضی آنکھیں عرصہ تک چندھیائی چندھیائی سی رہتی ہیں۔
اکتوبر 2012ء کی ابتدائی تاریخوں میں سپریم کورٹ آف پاکستان اصغر خان کیس کا فیصلہ جاری کرتی ہے۔ فیصلے کی رو سے ریاست پاکستان کے بعض اعلیٰ عہدیداروں نے اپنی آئینی حدود کو پامال کیا، اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کا قیام ملکی آئین کی صریح خلاف ورزی تھی جس کے باعث 90ء کے عام قومی انتخابات دھاندلی زدہ تھے“ لیکن آئی جے آئی کے روح رواں جنرل (ر) حمید گل کا مقامی معاصر کے معتبر وقائع نگار کے ساتھ گفتگو میں یہ کہنا شاید اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں کہ ”جو کیا ملکی مفاد میں کیا، ضمیر مطمئن ہے، دوبارہ موقع ملا تو پھر یہ کام کروں گا۔ اس وقت جو معاملات تھے آج بھی وہی ہیں۔ کائرہ جرأت کریں اور مجھے عدالت میں بلائیں۔ رقوم کی تقسیم کا راز بھی اب کھلنا چاہئے۔ تاریخ کا قرض اب اترنا چاہئے۔ کیا سپریم کورٹ کے ہاتھ اتنے مضبوط ہو گئے ہیں کہ ملک دشمنوں کی گردن تک پہنچ سکیں۔“ جنرل (ر) ”ملکی مفاد“ اور ”ملک دشمنی“ کے ذاتی تصور سے باہر نکلنے کو تیار نہیں، تاریخ کے سفر کی اجتماعی روشنی میں ان کی آنکھیں چندھیا رہی ہیں، پاکستان کے قومی ریکارڈ میں افواج پاکستان اور دیگر فورسز کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی قومی پارلیمنٹ سمیت دیگر آئینی فورموں میں حاضریاں اور پیشیاں انہیں ایڈجسٹ نہیں ہورہیں۔ ان کا ردعمل اپنے ماضی کی جارحیت آمیز نمائندگی میں اطمینان کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ملک کے اولین آئینی شب خون کے سلسلے میں پاکستانی عدلیہ کے اولین آئینی فرار کی نشاندہی کا فیصلہ کن ہی نہیں معروضی تعین کیا ہے، عرض کیا جا سکتا ہے کہ 1958ء میں پاکستانی عدلیہ کے اس اولین آئینی فرار کی بنیاد بھی ملک کے پہلے چیف جسٹس منیر کے ہاتھوں رکھی گئی جنہوں نے گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں اسمبلی کی جبری معزولی کو ”نظریہ ضرورت“ کے تحت جائز قرار دیا، آئینی بالادستی کے لئے عدل کا دروازہ کھٹکھٹانے والے مولوی تمیز الدین مرحوم کو مایوس واپس لوٹا دیا گیا۔
پاکستان کو چار فوجی جرنیلوں، ایوب، یحییٰ، ضیاء اور پرویز مشرف کے ادوار حکمرانی برداشت کرنے پڑے۔ تعداد اورحقدار میں بے پناہ المناک ابن الوقت رویوں اور کرداروں کے باوجود ان چاروں کی غیر آئینی حکومتوں کی مزاحمت میں مجموعی لحاظ سے پاکستانی عوام، سیاستدانوں، اہل قلم، اہل فکر و نظر، وکلاء، دینی و مذہبی جماعتوں نے ناقابل فراموش عظمت کردار کا ثبوت دیا۔ ایوب خان کے مارشل لا کی پہلی تاریک صبح کے طلوع کی مذمت اور تشویش میں پہلا شائع ہونے والا بیان سید مودودی کا تھا۔ جس کے بعد ایوب مارشل لا کی طغیانی کا جمہوریت کے سمندر کی جانب رخ موڑنے والے بند حسین شہید سہروردی اور نوابزادہ نصراللہ خان سمیت سارے پاکستانیوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر تعمیر کئے، بالآخر ایوب خان نے سر جھکائے اسلا م آباد کی ایک پہاڑی پر واقع بنگلے میں اپنے سانس پورے کئے۔ حسین شہید سہروردی تو آج بھی ہمارے دلوں میں جمہوری رومانس کا ہیرو ہے۔ بیروت کے ایک ہوٹل میں جن کی پراسرار موت کا زخم ہمیشہ رستا ہی رہے گا۔
متحمل مزاجی اور نیک سفاکیت پر مبنی ضیاء الحق کا مارشل لا واقعی ”دوپہر میں اندھیرا“ تھا۔ اکتوبر 1978ء میں یعقوب پرویز کھوکھر، عبدالرشید عاجز، وحید قریشی منور حسین، عزیز ملک اور ارشد ناگی جیسے پاکستانیوں نے مارشل لا کے قیدی ذوالفقار علی بھٹو کے حق میں خود سوزی کی، صرف ایک، غالباً ارشد ناگی کی جان بچائی جا سکی باقی پانچ نے جمہوری آدرش پر جانیں قربان کر دیں، اسی مارشل لاء کے خلاف بغاوت کے جرم میں ہزاروں افراد کو کوڑوں کے وحشیانہ تشدد سے گزرنا پڑا، سکھر جیل میں بی بی اور بیگم صاحبہ کے شب و روز کی دلخراش داستان اور آصف علی زرداری کی قید و بند کس سے بھولی ہوئی ہے۔ اور یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ”دوپہر کے اس اندھیرے“ کا وہ روشن چراغ ہے جس کی روشنی کو 33 برس گزرنے کے باوجود گل نہیں کیا جا سکا۔ ضیاء الحق کے اس مارشل لاء کے خلاف برسوں پر مشتمل قوم کی مزاحمتی تحریک کی تفصیلات سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ ہر باب پاکستانی عوام نے اپنے مظلوم خون اور دکھی آنسوؤں سے رقم کیا ہے۔
گزرے دس بارہ روز کے اس طوفانی مدوجزر میں چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بیانات نے پاکستانی سوسائٹی کے ان نئے تشکیلاتی لمحات کے اندر مہیب آندھیوں کے جھکڑ چلا دیئے جن کی شدت میں خوف اور افواہوں کی فصلوں کے کاشتکاروں نے اپنا حصہ ڈالنے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہ کی۔ اِدھر جنرل نے کہا ”کسی فرد یا ادارے کو ملکی مفاد کے حتمی تعین کا حق نہیں۔“ اُدھر اسی روز چیف جسٹس نے یاد دلایا ”ٹینکوں اور میزائلوں کی بنیاد پر ملکی استحکام کے دن گئے۔“ 24 گھنٹے مزید گزرنے پر ایبٹ آباد آپریشن پر میڈیا کی رپورٹنگ کے خلاف درخواست کی سماعت کے موقع پر ان کے مزید ریمارکس تھے ”کوئی غلط فہمی میں نہ رہے عدلیہ کمزور نہیں، کل دیکھا لیا فوج عدلیہ کا کتنا احترام کرتی ہے۔“، نتیجتاً آندھیوں کے جھکڑوں میں باقاعدہ گونج کی سنسناہٹ پیدا ہو گئی، اب خوف اور افواہوں کی فصلوں کے کاشتکاروں کی درانتیاں ان کی ”ڈبوں“ سے باہر آ چکی ہیں۔ اسلم بیگ اپنی علیحدہ شناخت کے رجز میں پاکستانی میڈیا کو ڈالروں کے قبرستان میں دفن کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
”فہرستوں“ کی یاد دہانیاں، ”جانے نہ پائیں“ جیسی جملہ بازیاں، حدوں سے کہیں تجاوز میڈیا کے ”تقدس“ کی پُر غرور اور خود ساختہ عظمتوں کے اعلانات، دونوں چیفس کی ملازمتوں میں ”توسیع“ کی کہانیاں، یوں لگتا ہے کہیں نہ کہیں ”شیطان کا انگوٹھا“ برسرکار ہو چکا ہے۔ گو درد مندوں کے درد مند کہتے چلے جا رہے ہیں ”بات تم بھی صحیح کہہ رہے ہو لیکن غلط وہ بھی نہیں کہہ رہا۔“ تاہم خوف اور افواہوں کی فصلوں کی لہلہاہٹ میں فرق نہیں پڑ رہا۔ جنرل کیانی کی ایک بات نے میری قلب کی ساتھی کھڑکیوں کے پٹ کھول دیئے ہیں ”کچھ کرنے کے عزم کی تیزی کے کچھ اچھے اور چند منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔“ آگے خلا ہے!