• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

امام کی اقتدا ءمیں مقتدی کے لیے قرأ ت کا کیا حکم ہے؟

تفہیم المسائل

سوال: باجماعت نماز میں تیسری اور چوتھی رکعت میں کہ جب امام بہ آواز بلند تلاوت نہ کر رہے ہوں،خود مقتدی کے لیے تلاوت کا کیا حکم ہے، نیز اگر یہ غلط ہے تو پچھلی ادا کردہ نمازوں کی صحت کا کیا حکم ہے؟،(محمددانیال احمد ،ملتان)

جواب: باجماعت نمازوں میں مقتدی امام کے پیچھے خاموش کھڑا رہے گا ،خواہ نماز سرّی (یعنی ظہر وعصرکی)ہو یا جہری(فجر ،مغرب اورعشاء کی) ۔ ہر نماز کی ہر رکعت میں مقتدی کو قراء ت اصلاً جائز نہیں ہے ،وہ خاموش کھڑا رہے ،تکبیرِ تحریمہ کے بعدصرف ثناء(سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ)پڑھے ،جبکہ امام نے جہراً قراء ت شروع نہ کی ہو،تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے :ترجمہ:’’ مقتدی مُطلقاً(کسی بھی رکعت میں)قراء ت نہ کرے ،(نہ جہری نماز میں نہ سِرّی نماز میں) اور نہ ہی سرّی نماز میں فاتحہ پڑھے ، اِس پر احناف کے ائمۂ ثلاثہ کا اتفاق ہے‘‘ ۔آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’بلکہ جب امام جہراً قراء ت کرے، تو مقتدی سُنے اور جب امام سرّاً پڑھے تو مقتدی چپ رہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم امام کے پیچھے قراء ت کیاکرتے تھے ،پھریہ آیت نازل ہوئی:’’اورجب قرآن پڑھاجائے تو اسے غور سے سنو اورخاموش رہو‘‘،(سورۃ الاعراف:204)، (رَدُّالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد3، ص:475، دمشق)‘‘۔

حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ،قَالَ:کَانُوا یَتَکَلَّمُونَ فِی الصَّلَاۃِ،فَنَزَلَتْ:وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَہُ وَأَنْصِتُوا، (الأعراف:204)، قَالُوا:ہَذَا فِی الصَّلَاۃِ۔ترجمہ:’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : صحابہؓ نماز میں گفتگو کرلیاکرتے تھے ،پھریہ آیت نازل ہوئی:’’اورجب قرآن پڑھاجائے تو اسے غور سے سنو اورخاموش رہو‘‘،(الاعراف:204)،انہوں نے فرمایا:یہ حکم نماز کے بارے میںہے ، (مُصَنَّف ابن ابی شیبہ :8380)‘‘۔

تازہ ترین
تازہ ترین