شیطان انسان کو جن راہوں سے گمراہی کی طرف لے جاتاہے،ان میں جادو وہ ذریعہ اور عمل ہے،جسے خالصتاً شیطانی عمل قرار دیا گیا ۔جادو کے لیے عربی زبان میں ’’سحر‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے،قرآن وسنّت میں سحر(جادو) ایسے امر کو کہا جاتا ہے جس میں شیاطین کو خوش کرکے ان کی مدد حاصل کی گئی ہو، پھر شیاطین کو راضی کرنے کی مختلف صورتیں ہیں۔ کبھی ایسے منتر اختیار کئے جاتے ہیں جن میں کفر وشرک کے کلمات ہوں اور شیاطین کی مدح سرائی کی گئی ہو، جس سے شیطان خوش ہوتا ہے۔کبھی ایسے اعمال اختیار کئے جاتے ہیں جو شیطان کو پسند ہیں، مثلاً کسی کو ناحق قتل کرکے اس کا خون استعمال کرنا،یا ناپاکی ونجاست کی حالت میں رہنا، طہارت سے اجتناب کرنا، وغیرہ۔جس طرح اللہ تعالیٰ کے پاک فرشتوں کی مدد، ان کے اقوال وافعال سے حاصل کی جاتی ہے، جنہیں فرشتے پسند کرتے ہیں۔ مثلاً تقویٰ ، طہارت اور پاکیزگی، بدبو اور نجاست سے اجتناب،ذکر اللہ اور اعمال خیر۔
ارشادِ ربانی ہے:تمام بنی آدم نے کہا، بے شک، آپ ہی تنہا و اکیلے ہمارے پالن ہار ہیں ،ہم سب گواہ ہیں۔ ( سورۂ اعراف)سچے ہونے کا اپنے عمل سے ثبوت دینے کے لئے ہمیں دنیا میں عمل کرنے کے لئے پیدا کیا گیا اور دنیا کو ایسا دار الاسباب بنایاگیا، جہاں طبعی قوانین کے مطابق اسباب و ذرائع اختیار و استعمال کئے بغیر معمولی سے معمولی ضرورت و حاجت کا بھی پورا ہونا قطعی نا ممکن ہے۔
شیطان نے اللہ تعالیٰ کو چیلنج کیا(ترجمہ)’’میں تیرے بندوںمیں سے ایک حصہ ضرور لوں گا۔‘‘ (سورۃالنساء:۱۱۸) اور بندوں میں سے ایک حصہ کس طرح لے گا اسےبھی بیان کر دیا۔ ’’انہیں گمراہ کروں گا، جھوٹی آرزوئیں دلاؤںگا اور جانوروں کے کان چیرنے اور اللہ کی تخلیق کو بدلنے کا انہیں حکم دوں گا‘‘۔ (سورۃالنساء:۱۱۹)
شیطان کا قول بیان کیا گیا :(ترجمہ) چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی تیری سیدھی راہ پر انسانوں کی گھات میں بیٹھوں گا ،پھر میں ان کے آگے سے ، ان کے پیچھے سے ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے انہیں گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ (سورۃ الاعراف)
(ترجمہ) کہا شیطان نے، اے میرے رب کہ آپ نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں قسم کھاتا ہوں کہ ان کی نظر میں دنیا کو مزین بنادوں گااور ان سب کو گمراہ کروں گا۔(سورۃ الحجر)
امام فخر الدین رازی ؒلکھتے ہیں:’’شریعت میں سحر، جادو ہر اس کام کے ساتھ مخصوص ہے جس کا سبب مخفی ہو، اسے اس کی اصل حقیقت سے ہٹ کر پیش کیا جائے اور دھوکا دہی اس میں نمایاں ہو ‘‘۔غرض سحر جادو گر اور شیطان کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کا نام ہے، جس کی بناء پر جادو گر کچھ حرام اور شرکیہ امور کا ارتکاب کرتا ہے اور شیطان اس کے بدلے جادوگر کی مدد کرتا اور اس کے مطالبات پورے کرتا ہے -
رسول اللہ ﷺ پر یہودیوں کا سحر کرنا اور اس کی وجہ سے آپﷺ پر بعض آثار کا ظاہر ہونا اور بذریعہ وحی اس جادو کا پتا لگنا اور اس کا ازالہ کرنا احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے۔صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے جودوسری حدیث کی کتابوں میں بھی درج ہے کہ ایک موقع پر نبی اکرم ﷺ بھی جادوکے اثرمیں رہے۔حضرت زیدبن ارقم ؓسے روایت ہے کہ ایک یہودی نے نبی اکرم ﷺ پرجادوکیا،جب آپ ﷺ نے اس کے اثرات کواپنے اوپرمحسوس کیاتوجبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور سورۃ الفلق اور سورۃ الناس جن کو’’معوّذتین‘‘کہتےہیں، وحی کی گئیں ۔پھرجبرائیل علیہ السلام نے آپ ﷺ سے کہا:’’یقیناً ایک یہودی نے آپ ﷺ پرجادوکیاہے اوراس کاطلسم فلاں کنویں میں رکھاہواہے ۔‘‘نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی ؓ کوبھیجاکہ وہاں سے طلسم لے آئیں ۔جب وہ اسے لے کرواپس آئے توآپ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایاکہ اس کی گرہوں کوایک ایک کرکے کھولیں اورہرگرہ کے ساتھ ان سورتوں میں سے ایک ایک آیت پڑھیں ۔جب انہوں نے ایساکیاتوآپ ﷺ یوں اٹھ کھڑے ہوئے، گویاوہ پہلے بندھے ہوئے تھے۔(صحیح بخاری )
سرکاردوعالمﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا ہے :’’یقیناً کچھ بیان جادو ہوتے ہیں ۔‘‘ایک جادوبیان مقررلوگوں کوغلط کوصحیح اورصحیح کوغلط سمجھنے پرقائل کرسکتاہے ۔اس لیے نبی اکرم ﷺ نے اس کے کچھ پہلوؤں کوجادوسے تعبیرکیا۔روزہ رکھنے کے لیے طلوع آفتاب سے پہلے جوکھاناکھایا جاتاہے، اسے’’سحور‘‘(جس کامادہ سحرہے)کہتے ہیں ،وہ اس لیے کہ اس کھانے کاوقت رات کے آخری حصے یعنی اندھیرے میں ہوتاہے ۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص نجومی کے پاس جا کر اس سے کوئی بات پوچھے، تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہو گی‘‘۔(صحیح مسلم)صحیح مسلم ہی کی ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ شیطان اپنے ایجنٹوں کے بڑے بڑے کارناموں پر خوش نہیں ہوتا ،لیکن اس بات پر بہت خوش ہوتا ہے کہ اس کا کوئی پیروکار میاں بیوی کے درمیان تفریق کروا دے۔حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :جو کسی کاہن کے پاس آیا اور اس کی بات کی تصدیق کی تو اس نے اس چیز کا انکار کیا جو محمدﷺ پر نازل ہوئی‘‘۔( سنن ابو داؤد)
اسلام میں جادو سیکھنا اور جادو کرنا دونوں کوکفرقراردیاگیاہے،اس لیے جوکوئی بھی جادوکرتاہو، اس کے لیے شریعت میں بہت سخت سزارکھی گئی ہے ۔اگر کوئی جادوپرعمل کرتاہواپکڑاجائے اوروہ توبہ نہ کرے اورجادوکرنانہ چھوڑے تواس کی سزا موت ہے ۔اس قانون کی بنیاداللہ کے رسول ﷺکی یہ حدیث ہے جس کے راوی حضرت جندب ابن کعب ؓہیں ۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’جادوگرکے لیے مقررکردہ سزایہ ہے کہ اسے تلوارسے قتل کردیاجائے۔‘‘اس قانون پرخلفائے راشدین ؓنے سختی سےعمل کیا۔
جادو کا اثر تب واقع ہوتا ہے ،جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہو۔ کیونکہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کی محتاج ہے۔ جادو حضور اکرم ﷺپر بھی کیا گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس کے شر سے محفوظ رکھا اور امت کے لیے یہ آسانی ہوئی کہ آپ ﷺ کے طفیل امت کو جادو کا علاج بتا دیا گیا۔
حضرت قتادہ ؓنے بیان کیا کہ میں نے سعید بن مسیب ؓ سے کہا،ایک شخص پر اگر جادو ہو یا اس کی بیوی تک پہنچنے سے اسے باندھ دیا گیا ہو ،اس کا دفعیہ کرنا اور جادو کے باطل کرنے کے لیے عمل کرنا درست ہے یا نہیں؟انہوں نے کہا، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ جادو کا توڑ کرنے والوں کی نیت تو اچھی ہوتی ہے اور اللہ پاک نے اس بات سے منع نہیں فرمایا جس سے فائدہ ہو۔(صحیح بخاری)
انسان جادو کی وجہ سے بڑے بڑے خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے، اس لیے کسی بھی دن معوذات اور مسنون دعاؤں سے سستی اور کاہلی نہ برتی جائے، حتیٰ کہ بعض اوقات انسان کو جادو کے ذریعے قتل تک کردیا جاتا ہے ۔کالے جادو کرنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جو جیتے جاگتے انسان کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں ۔یہ بات یقینی ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور وہ اسی وقت ِمقررہ پر ہی آئے گی، لیکن جس طرح ظاہری طور پر انسان کا قتل ہو جانا سبب کا درجہ رکھتا ہے، اسی طرح جادوکے ذریعے بھی سبب کے درجے میں قتل کیا جاسکتا ہے ۔ازروئے شریعت کسی پر جادو کرنا یا کرانا کفر ہے اور اس کا کرنے والا اور کرانے والا دونوں دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ۔اگر کسی مسلمان نے یہ عمل کیا یا کرایا تو اسے چاہیے کہ فوراً اپنے ایمان کی تجدید کرے اور اگر وہ شادی شدہ ہے تو اپنے نکاح کی بھی تجدید کرے ۔مختصریہ کہ جادو خالصتاً ایک شیطانی عمل ہے،جس سے بچنا ،دور رہنا اور مکمل اجتناب کرنا ایمان اور شریعت دونوں کا بنیادی تقاضا ہے۔