حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک روز قاضی کی عدالت میں کسی علمی مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی ،اس دوران ایک مفلوک الحال درویش عدالت میں داخل ہوا اور مناسب جگہ پر بیٹھ گیا۔ حاضرین محفل نے اس کی ظاہری حالت سے اس کی معمولی حیثیت کا اندازہ لگایا اور اسے اس جگہ سے اٹھا کر جوتوں کے پاس جگہ دے دی۔ وہ درویش اس رویے سے دلبر داشتہ ہوا ،مگر خاموش رہا۔ اس وقت جس علمی مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی ،کوئی بھی اس مسئلے کا مناسب حل بتانے سے عاجزرہا۔
پھر ایک وقت آیا کہ وہ غصے میں بھر گئے اور ایک دوسرے کو لاجواب کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ان کی گردنوں کی رگیں پھول گئیں اور منہ سے جھاک نکلنا شروع ہوگیا۔وہ درویش اس دوران خاموش بیٹھا ان کی گفتگو سنتا رہا ،پھر بلند آواز سے بولا کہ اگر تم لوگ اجازت دو تو میں اس موضوع پر کچھ عرض کروں۔ قاضی نے اس درویش کو اجازت دے دی۔اس درویش نے دلائل کے ساتھ اس مشکل علمی مسئلے کوبیان کیا ، اس کاجواب سن کر سب حیران رہ گئے۔ حاضرین محفل کو درویش کی علمی قابلیت کااندازہ ہوا اور وہ سمجھ گئے کہ یہ مفلوک الحال درویش کوئی بہت بڑا عالم ہے۔ اس موقع پر قاضی اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے اپنی دستار اتار کراس درویش کودی اور کہنے لگاکہ صدافسوس ! ہم آپ کے علمی مقام اور مرتبے سے آگاہ نہ ہوسکے۔ آپ اس دستار کے زیادہ حق دار ہیں۔درویش نے قاضی کی دستار لینے سے انکار کردیا اور یہ کہہ کروہاں سے چل دیا کہ میں غروروتکبر کی اس نشانی کو ہرگزاپنے سر پر نہ رکھوں گا۔ یادرکھو کہ انسان کارتبہ بہترلباس نہیں، بہتر علم سے ہوتا ہے اور کوئی شخص صرف دستار اور سر بڑا ہونے کی وجہ سے عالم نہیں بن جاتا ۔
حضرت شیخ سعدی ؒ اس حکایت میں علم کی فضیلت بیان کررہے ہیں اور یہ واقعہ انہی کا ہے ،وہ مفلوک الحال درویش آپ خود تھے۔ آپ نے علم کی فضیلت کے متعلق اس حکایت کو اپنی تصانیف” بوستان اور گلستان“ دونوں میں شامل کیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک وشبہے کی گنجائش نہیں کہ عالم کے گھر پیدا ہونے والا بچہ عالم ہی ہو اور ہر اچھا لباس پہننے والا سردار نہیں ہوتا۔ یہ شرف اسے حاصل ہوتا ہے جو بہترین اوصاف کاحامل ہو۔ سردار کا بیٹا سردار ہو، یہ ایک کھوکھلا نعرہ ہے۔