• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانی صحت کے دشمن مہلک وائرس

ہرچند کہ میڈیکل سائنس نے حالیہ برسوں کے دوران انسانوں میں پیدا ہونے والی مختلف بیماریوں کے خلاف زبردست کامیابی حاصل کی ہے، مگرہر کچھ عرصے بعد، اسے چیلنج کرنے کے لیے ایک نئی بیماری سامنے آجاتی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں کچھ ایسے مہلک وائرس سامنے آئے ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے میڈیکل سائنس میں کام کرنے والے سائنسدان اور محققین حیران و پریشان ہیں اور ابھی تک ان کا علاج دریافت نہیں کرپائے ہیں۔

نیپاہ وائرس

وسطی امریکا میں ایبولا کی وبا پھیلنے کے بعد نیپاہ نامی ایک وبائی جرثومہ جنوبی بھارت میں لوگوں کو ہلاک کر رہا ہے۔ اس وائرس کو انسانی صحت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے اور خدشہ ہے کہ کہیں اس سے پھیلنے والی بیماری عالمگیر وبا نہ بن جائے۔ سائنس دانوں کے پاس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے نا تو ادویات ہیں اور نا ہی کوئی مدافعتی ٹیکہ۔ نیپاہ وائرس سےمتاثرہ افراد میں بخار، متلی اور سردرد کے علاوہ دماغ کی سوزش جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیںجبکہ یہ وائرس مویشیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ انسانوں یا جانوروں کو اس وائرس سے بچانے کے لیے تاحال کوئی مدافعتی ٹیکہ دستیاب نہیںاور 70 فیصد کیسوں میں موت کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہ وائرس 1998ء میں سب سے پہلے ملائیشیا کے ایک قصبے نیپاہ میں سؤروں میں پایا گیا تھا اور وہیں سے اس کا نام نیپاہ پڑ گیا۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق، جانوروں سے پھیلنے والایہ وائرس تقریباً 300 افراد کو اپنا شکار بنا چکا ہے اور اس وبا میں سو سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ نیپاہ وائرس چمگادڑوں سے پھیلنے والی بیماری ہے۔

ہینڈرا وائرس

سب سے پہلےآسٹریلیا میں پایا جانے والا ہینڈرا وائرس بھی نیپاہ وائرس کے زمرے میں آتا ہے۔یہ وائرس بھی چمگادڑوں کے ذریعے پھیلتا ہےجو انسانوں کے ساتھ گھوڑوں کے لیے بھی خطرناک ہے۔ یہ وائرس 1994ءمیں برسبین کے مضافاتی علاقے ہینڈرا میں گھوڑوں کے اصطبل میں پھیلا تھا۔ اس کے بعد 70 سے زائد گھوڑے اور ان سے رابطے میں رہنے والے سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس سے پیدا ہونے والا بخار ’کرائمین کونگو ہیمو رجک فیور‘ یعنی ’سی سی ایچ ایف‘ بری طرح سے انسانوں میں پھیل سکتا ہے اور اس میں شرح اموات کا خدشہ 40 فیصد ہے۔ بعد میں یہ وائرس کانگو میں بھی پایا گیا۔ اس کے علاوہ اسے پورے افریقا، بلقان، مشرقِ وسطیٰ اور ایشیاء کے کچھ دیگر علاقوں میں پائے جانے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کی علامات میں اچانک سر درد، تیز بخار، کمر اور جوڑوں میں درد، پیٹ میں درد اور متلی شامل ہیں۔ یہ وائرس جانوروں کے ذریعےانسانوں میں پھیلتا ہے اور متاثرہ مریض کے خون سے دوسرے انسانوں میں پھیل سکتا ہے۔ اس وائرس کے خلاف بھی انسانوں یا جانوروں کے علاج کے لیے کوئی دوا یا ٹیکہ موجود نہیں ہے۔

سارس

یہ سانس کی بیماری ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ بیماری خاص قسم کی بلیوں سے نکلی ہے، جو جنوبی چین میں کھائی جاتی ہیں۔ اس وائرس کا تعلق بھی چمگادڑوں سے ہے۔ سارس کی ایک بڑی وبا 2002ء اور 2004ءمیں پھیلی تھی۔ کھانسی اور چھینک سےیہ وائرس ہوا کے ذریعے پھیلتا ہے۔

ایبولاوائرس

خیال ہے کہ یہ وائرس پھلوں کا رس چوسنے والی چمگادڑوں سے پھیلتا ہے، جو کانگو کے ایبولا دریا کے نزدیک پہلی بار پایا گیا اور یہیں سے اس کا نام ایبولا پڑ گیا۔ یہ وائرس بھی جانوروں سے انسانوں اور انسانوں سے دوسرے انسانوں میں پھیل سکتا ہے۔ یہ وائرس زخم کے ذریعےیا منہ، ناک، خون اور متلی سے بھی پھیل سکتا ہے۔ اس میں شرح اموات 50 فیصد ہے۔ 2014ء اور 2016ء میں مغربی افریقا میں ایبولا کی وبا پھیلنے سے 11 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس وائرس کے سبب بخار، تھکاوٹ، بدہضمی، گردوں اور جگر میں خرابی اور کچھ معاملات میں ناک، منہ یا کان سے خون جاری ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

رِفٹ ویلی فیور

انسانوں میں بخار کا باعث بننے والا یہ وائرس مچھروں اور خون پینے والی مکھیوں کے ذریعے جانوروں میں پھیلتا ہے۔ اس میں زکام کی کیفیت ہوتی ہے اور خطرناک صورتِ حال میں جسم کے اہم اعضاء ناکارہ ہو سکتے ہیں۔

زیکا وائرس

یہ وائرس پہلے تو ایک متاثرہ مچھر سے انسانوں میں داخل ہوتا ہے اور اس کے بعد یہ جنسی تعلق کے سبب ایک انسان سے دوسرےانسان میں پھیل سکتا ہے۔ اس وائرس کے سبب متاثرہ نوزائیدہ بچوں کے سر معمول سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ زیکا وائرس سے بالغوں میں دماغی بیماری ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، جس سے لوگ مفلوج ہو سکتے ہیں۔ ابھی تک اس وائرس کے خلاف کوئی ٹیکہ موجود نہیں ہے۔ یہ وائرس یوگینڈا میں زیکا کے جنگل میں پایا گیا تھا۔

لاسا بخار وائرس

یہ وائرس متاثرہ چوہوں کے پیشاب اور پاخانے سے پھیلتا ہے اور متاثرہ انسان کے پیشاب، پاخانے یا دیگر جسمانی مادے سے انسانوں میں پھیلتا ہے۔ اس کی علامتیں بخار، سر درد اور کمزوری محسوس ہونا ہے۔ یہ وائرس 1969ء میں نائجیریا کے علاقے لاسا میں پہلی بار سامنے آیا تھا۔

باربرگ وائرس

باربرگ وائرس، ایبولا کی ہی طرح کا ایک انتہائی خطرناک وائرس ہے۔ یہ متاثرہ شخص کے جسم سے نکلنے والے مادے سے پھیل سکتا ہے۔ اس وائرس کے سبب آٹھ سے نو دن میں موت واقع ہو سکتی ہے۔ یہ وائرس 1967 ءمیں جرمنی کے قصبے باربرگ سے نکلا تھا۔

ایم ای آر ایس وائرس

یہ بیماری بھی سارس کی قسم کے وائرس سے پھیلتی ہے ، جو پہلی بار 2012ءمیں سعودی عرب میں سامنے آئی تھی۔ اس وائرس سے متاثرہ 35 فیصد افراد کی موت واقع ہوگئی تھی۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ بیماری اونٹوں سے پھیلی تھی لیکن انسانوں میں یہ کیسے پہنچی؟ اس حوالے سے ابھی مزید تحقیقات جاری ہیں۔

تازہ ترین