گوھر علی خان
عام انتخابات کے دن قریب آنے کیساتھ ہی ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں‘ لیکن پشاور میں خودکش حملے کے واقعہ نے انتخابی ماحول کو سوگوار کردیا اس خودکش حملے میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار اور بشیر بلور کے صاحبزادے بیرسٹر ہارون بلور سمیت 20افراد شہید ہوگئے جبکہ 50کے قریب زخمی ہوگئے ۔
دوسری طرف تما م چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے جیت کی اُمید پر اپنے اپنے امیدوار میدان میں اُتارے ہیں جن میں پرانے اور روایتی چہروں کے ساتھ ساتھ نئے چہر ے بھی شامل ہیں تاہم انتخابا ت میںتقریباً تین کچھ عرصہ باقی رہنے کے باوجود انتخابی سرگرمیوں میں وہ جوش وخروش دیکھنے میں نہیں آیا جو ماضی کے انتخابات میں ہوتا تھا جس کی ایک وجہ شاید کئی جماعتوں کیلئے امیدواروں کے انتخاب اور پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم ہوسکتی ہے جبکہ دوسرا ملک کو درپیش موجودہ بے یقینی کی صورتحال کے پیش نظر عوام کے ایک طبقے کو انتخابات کیلئے تمام تر انتظامات مکمل ہونے کے باوجود ابھی تک انتخابات کا انعقاد مشکوک نظر آتا ہے تاہم اس کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر بار ہا اس قسم کی افواہوں اور خدشات کو رد کرچکے ہیں ۔ایسے وقت میں جب انتخابا ت کیلئے تمام تر تیاریاں مکمل ہیں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ آنے کے بعد جہاں ملکی سیاست میں بھونچال سا آگیا ہے وہاں سیاسی ماحول میںبھی ہلچل مچ گئی ہے۔سیاسی حلقے اس بات کے اندازے لگارہے ہیں کہ اس فیصلے سے (ن) لیگ کی انتخابی مہم اور اس کے سیاسی مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہونگے کیونکہ پورے ملک کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی (ن) لیگ نے کئی ایک امیدوار میدان میں اتارے ہیں یہاں تک کے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف بھی این اے 3 سوات سے قومی اسمبلی کے امیدوارہیں اور اس حوالے سے خیبرپختونخوا کے وزارت اعلیٰ کے امیدوار امیر مقام خاصے متحرک بھی ہیں۔سیاسی حلقوں کے مطابق اس فیصلے سے جہاں (ن) لیگ کے اُمیدواروں کی حوصلہ شکنی کا امکان ہے وہاں ووٹرز بھی مایوسی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ پارٹی کے سینئر رہنمائوں سابق وزراء اعلیٰ سردار مہتاب احمد خان اور پیر صابر شاہ کو ایک منظم منصوبے کے تحت صوبے سے نکال کر مرکز بھیجنے کے بعد (ن) لیگ خیبر پختونخوا میں کچھ عرصے سے قیادت کے فقدان کا شکار ہے۔امیر مقام کی جانب سے پارٹی کی صوبائی صدارت سنبھالنے کے باوجود وہ پارٹی کو اس طرح متحد نہ کرسکے کیونکہ ان کی نظر یں پارٹی سے زیادہ وزارت اعلیٰ کی کرسی پرہیں جس کی وجہ سے پارٹی کے نظر یاتی کارکن اور سابق عہدیدار ایک طرف ہوچکے ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق پارٹی کے ان کارکنوں کی مایوسی کی ایک اور وجہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی پالیسیوں کا بھی نتیجہ رہا کیونکہ صوبائی اسمبلی میں دوسری بڑی پارلیمانی پارٹی ہونے کے باوجود پانچ سال خیبرپختونخوا کے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو بھی نظرانداز کیا گیا اور ان کے حلقہ انتخاب میں کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا گیا ۔دوسری جانب تمام سیاسی جماعتیں اگلی حکومت بنانے کے دعوے کرتی نظر آتی ہیں لیکن ماضی کے مقابلے اس بار اُمیدواروں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی جبکہ بعض سیاسی خاندانوں نے سرے سے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا جبکہ اس بار کئی ایک بڑی سیاسی جماعتوں نے عام پارٹی ورکرز کی بجائے زیادہ تر امیر لوگوں کو ٹکٹ سے نوازا جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انتخابا ت کا کھیل اب عام پاکستانی کے ہاتھ سے نکل چکاہے۔یہ کروڑ پتی امیدوار اپنی کامیابی کیلئے ہر دائو پیچ استعمال کررہے ہیں جہاں لاکھوںروپے پانی کی طرح بہائے جارہے ہیں وہا ں بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ ضابطہ اخلاق کی بھی دھجیان ا ڑانے کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ جس طرح صوبائی نگران حکومت پر اعتراضات سامنے آئے ہیں اسی طرح بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے صوبائی الیکشن کمیشن کی سرد مہری پر بھی خدشات کا اظہار کیا جارہاہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے بجلی کے نام پر سیاست ہورہی ہے اور ہر حکمران نے نئے ڈیمز بنانے کی بجائے موجود بجلی عوام کو مہنگے داموں فروخت کرکے نہ صرف ان کا خون نچوڑا بلکہ ان کی جیبوں پر ڈاکہ بھی ڈالا۔خیبر پختونخوا میں سستی ترین بجلی کے منصوبے بننے کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے مہمند ڈیم،کٹ ذرہ ڈیم ، بھاشا ڈیم اور کئی آبی ڈیمز کی بجائے بدنیتی کی بنیاد پر نیلم جہلم کا مہنگا منصوبہ شروع کیا جو پانچ سال میں مکمل نہ ہوسکا بعض قوتوں نے پاکستان میں بجلی کے بحران کو جاری رکھنے اور نئے ڈیمز بنانے کا عمل روکنے کیلئے ایک مرتبہ پھر کالا باغ ڈیم کا مردہ گھوڑا زندہ کرنے کا شوشا چھوڑ دیا حالانکہ ان قوتوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کالاباغ ڈیم متنازعہ ہوچکا ہے لیکن دیگر ڈیمز کا راستہ روکنے اور ملک میں بجلی بحران برقرار رکھنے کیلئے اس ایشو کو چھیڑا جاتا ہے تاکہ ان کا کاروبار چلتا رہے آج بھی پی ٹی آئی خیبر پختونخوا میں ساڑھے تین سو سے زائد چھوٹے ڈیمز بنانے کا دعویٰ کررہی ہے لیکن ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ ڈیمز کہا ں بنائے گئے ہیں اور ان کیلئے مختص رقوم کہاں گئیں ۔ ادھر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے مختلف سیاسی جماعتوں اور دیگر حلقوںکی شکایات کے بعد احتساب بیورو نے بالآخر پشاو رمیٹرو بس ،بلین سونامی منصوبوں سمیت پی ٹی آئی حکومت میں شروع ہونے والے کئی اہم منصوبوں میں بدعنوانیوں کی اطلاعات اور شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے ان کی تحقیقات کا آغاز کیا ہے ۔ان تحقیقات کے حوالے سے پشاو رمیڑوبس کا منصوبہ خاصی اہمیت کا حامل ہے جسے تحریک انصاف حکومت نے ایک ایسے وقت میں شروع کیا جب ان کی مدت پوری ہونے والی تھی اور پنجاب میںبلیک لسٹ ہونیوالی کمپنیوں کو ٹھیکے دیکر پورے پشاور کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔