خضر حیات گوندل
احتساب عدالت اسلام آباد کے 6جولائی 2018ءکے فیصلے نے جہاں پر پورے ملک کی سیاست اور سیاسی ماحول پر گہر ا اثر مرتب کیا ہے وہاں پر لاہور جو مسلم لیگ (ن) کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہے میں لیگی رہنمائوں اور عام کارکنوں پر سکتہ طاری ہے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بھی رسمی ردعمل کے علاوہ کوئی قابل ذکر سیاسی ردعمل نہیں دیا۔ یہ عدالتی فیصلہ ایک ایسے وقت پر آیا جب مسلم لیگ (ن) میں عام انتخابات کے لئے ٹکٹیں نہ ملنے اور ٹکٹیں ملنے کے بعد ٹکٹوں کی واپسی کا شور شرابا عروج پر تھا اور مسلم لیگ (ن) بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ٹکٹوں کی تقسیم کے مشکل مرحلے کے بعد ناراض ساتھیوں کومنانے کا عمل شروع ہورہا تھا کہ احتساب عدالت کے فیصلے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ عدالتی فیصلے سے ایک روز قبل 5جولائی کو مسلم لیگ (ن) کے صدر و سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے الیکشن کے لئے اپنی جماعت کا منشور پیش کیا۔ اگرچہ منشور کو بھی سیاسی تقریر اور جلسہ کی تقریر کے انداز میں پیش کیا گیا اس موقع پر بھی میاں شہباز شریف اپنے مخالفین پر تنقید کرنا نہیں بھولے۔ جسے میڈیا میں خاص طورپر نوٹ کیا گیا۔ الیکشن کوتقریبا پندرہ دن کا وقت رہ گیا ہے لیکن لاہور میں روایتی انتخابی مہم کا ماحول اور سرگرمی نظر ہی نہیں آرہی۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے امیدواروں نے کسی حد تک اپنی انتخابی مہم کو تیزی سے آگے بڑھانا شروع کردیا ہے مگر ن لیگ کے امیدوار گوں مگوں کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ قائد مسلم لیگ (ن) میاں نوازشریف اوران کی صاحبزادی مریم نواز نے احتساب عدالت سے سزا کے بعد کل بروز جمعہ لاہور میں واپسی کا اعلان کر رکھا ہے جہاں پر لاہور ائیرپورٹ پر پہنچتے ہی اگرچہ انہیں قومی احتساب بیورو نیب گرفتار کرلے گی۔ مگر واپسی کے اس اعلان نے مسلم لیگ (ن) کے عام کارکنوں اور رہنمائوں کو ازسرنو ایک حوصلہ اور ہمت دی ہے اور پارٹی میں جیسے ایک نئی روح پھونک دی ہو۔ اس اعلان سے نہ صرف میاں نوازشریف نے اپنی جماعت کو مکمل طور پر انتشار کا شکار ہونے سے بچا لیا ہے بلکہ انہوں نے اپنے اس اعلان سے اپنے بچوں کے لئے بھی سیاست کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ اگر میاں نوازشریف اس موقع پر لندن سے واپسی کا اعلان نہ کرتے تو سیاسی پنڈتوں کے مطابق یہ شریف فیملی کی سیاسی خودکشی کے مترادف ہوتا۔ میاں نوازشریف اور ان کی جماعت نے باپ بیٹی کی پاکستان واپسی کا فیصلہ کر کے ایک بڑی سیاسی چال چلی ہے اور جس طرح مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک سوچ پائی جارہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) ازسرنو مربوط ہو جائے گی اگرچہ اس کی قیمت قائد جماعت اور ان کی صاحبزادی کے لئے اس شدید گرمی میں جیل ہے۔ سیاسی پنڈت یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلا م آباد ہائی کورٹ میں اپیل کے لئے پہلے گرفتاری دینے کی شرط نہ ہوتی تو میاں نوازشریف اورمریم نواز واپسی کا یہ فیصلہ شاید نہ کرتے بلکہ ملک سے باہر بیٹھ کر اپنے وکلا کے ذریعے اپیل کرتے اور پھر اس اپیل کے فیصلے کا انتظار کرتے۔ لاہور کی الیکشن مہم میں یہ اگر نظر دوڑائی جائے تو سب سے بہتر سرگرمیاں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 131میں خواجہ سعد رفیق کی ہے اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ان کے نیچے دونوں صوبائی امیدوار یاسین سرہل اورمیاں نصیر پرانے ساتھی ہیں اور خواجہ سعد رفیق اور ان کے دونوں ونگرز اپنے حلقوں میں پورے پانچ سال رابطے میں رہے اور بہت سے ترقیاتی کام بھی کئے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے علیم خان کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی جو اپنے حلقے کے علاوہ عمران خان کے حلقے میںانتخابی مہم کی نگرانی ہی نہیں پوری محنت سے اسے چلا بھی رہے ہیں۔ لاہور میں سب سے سخت مقابلہ بھی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 131میں خواجہ سعد رفیق اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عران خان کے درمیان ہوگا۔ خواجہ سعد رفیق کو بہتر حکمت عملی اور عمران خان کو زیادہ باشعور کارکنوں کی مدد حاصل ہے۔ لاہور کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 125جہاں پر پی ٹی آئی کی ڈاکٹر یاسمین راشد میدان میں ہیں ان کے مقابلے میں ن لیگ کے امیدواروں کی متعدد بار تبدیلی سے لاہور میں ن لیگ کی مہم پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور مریم نواز کی نااہلی کے بعد قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 127میں مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر ملک پرویز کے صاحبزادے علی پرویز ملک کو ن لیگ کا امیدوار نامزد کیا گیا مگر وہ شیر کے نشان کے بغیر الیکشن میں حصہ لیں گے۔ ملک پرویز ملک کو اب اپنے حلقہ این اے 133کے ساتھ ساتھ اپنے صاحبزادے کے حلقہ انتخاب کی انتخابی مہم کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ حلقہ این اے 133اب مسلم لیگ (ن) کے لئے اور ملک پرویز کے پہلے جیسا نہیں رہا اس حلقہ میں مسلم لیگ (ن) کو اپنے ’’باغی‘‘ زعیم حسین قادری کی مخالفت کا بھی سامنا ہے جو اس حلقہ میں یقیناً اپنا ایک اثر و رسوخ رکھتے ہیں مگر زعیم حسین قادری کے لئے اس حلقہ سے آزاد حیثیت میں کامیابی بہت مشکل ہے مگر وہ ن لیگ کی شکست کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ حلقہ ملک پرویز کے لئے یقیناً نیا اور مشکل ہدف ہے لیکن ملک پرویز کے لئے یہ بات یقیناً قابل اطمینان ہوگی کہ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے اعجاز احمد چوہدری بھی کٹے ہوئے پروں کے ساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اعجاز احمد چوہدری نے گزشتہ تین چار سال سے اس حلقے میں محمد فیاض بھٹی کے ساتھ مل کر کام کیاہے اور اعجاز احمد چوہدری اپنے ساتھ فیاض بھٹی کو بھی حلقہ پی پی 167سے بطور صوبائی امیدوار لینا چاہتے ہیں مگر پی ٹی آئی کی قیادت نے اعجاز چوہدری کوصوبائی اسمبلی کے لئے ایک ایسا شخص نذیر چوہان بطور صوبائی امیدوار دیا ہے جن کے ساتھ اعجاز چوہدری کا کوئی اچھا اورقابل اطمینان رابطہ نہیںہے۔ جس سے عام ووٹر اور سپورٹر ضرور متاثر ہورہا ہے اس کا فائدہ یقیناً ملک پرویز کو ہی ہوگا۔ لاہور میں کھوکھر برادری کے امیدواروں کی تعداد سب کی توجہ لے رہی ہیں۔ ن لیگ کے ملک سیف الملوک کھوکھر اور افضل کھوکھر دونوں بھائیوں کے مضبوط گروپ کا سامنا اپنی ہی برادری کے پی ٹی آئی کے ملک کرامت کھوکھر اور ظہیر کھوکھر کے گروپ کے ساتھ ہے جو یقیناً انتہائی دلچسپ ہوگا اور علاقے کی سیاست ان کی ہار جیت کے دور میں اثرات مرتب ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما علیم خان اور اسپیکر قومی اسمبلی و لیگی رہنما سردار ایاز صادق میں بھی سخت مقابلہ ہوگا اس نشست پر سردار ایاز صادق پہلے بھی سرخرو ہو چکے ہیں۔ لاہور کے خالصتاً وہی علاقے میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف حلقہ این اے 132اور اس کی دونوں صوبائی سیٹوں پر خود ہی امیدوار ہیں وہاں پر ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے منشا سندھو سے ہے منشا سندھو کو 2013ء کے انتخابات میں اور ضمنی انتخابات میں بھی رانا مبشر اقبال کی اہلیہ کے مقابلے میں کامیابی نہیں ملی تھی۔