کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں نگراں وزیرداخلہ پنجاب شوکت جاوید نے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ لاہور میں کسی ریلی پر دفعہ 144 نہیں لگائی گئی ہے، الیکشن والے دن کسی اجتماع کو روکنے اور اسلحہ لے کر چلنے سمیت کچھ دیگر معاملات پر دفعہ 144 لگائی گئی ہے، ریلی نکالنے کیلئے کچھ عرصہ قبل مجاز اتھارٹی سے اجازت لینا ضروری ہوتی ہے، ریلی نکالنے یا نہ نکالنے کی اجازت ڈپٹی کمشنر دیتا ہے وزارت داخلہ کے پاس اتنی چھوٹی چیزیں نہیں آتی ہیں، میری اطلاع کے مطابق ن لیگ نے ریلی نکالنے کیلئے اجازت نہیں مانگی۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگ کے کارکنوں کی گرفتاری کیلئے کہیں چھاپے نہیں مارے گئے ہیں، جہاں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہورہی ہے صرف وہیں کارروائی ہورہی ہے، میرے علم کے مطابق ن لیگ کے خلاف کوئی کریک ڈاؤن نہیں کیا گیا، ن لیگی رہنما بتائیں کسی پارٹی کارکن کو پکڑا گیا ہے، کوئی بات ہوئی ہوگی تب ہی کسی کو پکڑا گیا ہوگا، دہشتگردوں اور سماج دشمن عناصر کی گرفتاریاں پراسس کا حصہ ہے جو پچھلے ایک مہینے سے جاری ہے، ان گرفتاریوں کو کسی خاص سیاسی جماعت کے خلاف ایکشن کا تاثر دیا جارہا ہے، جس طرح روزانہ چند سو گرفتاریاں ہورہی ہیں اسی طرح کل بھی ہوئی ہیں، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر 50سے 100افراد کی گرفتاری ہوئی ہے۔ شوکت جاوید کا کہنا تھا کہ صاف و شفاف انتخابات یقینی بنانے کیلئے کام کررہے ہیں، نگراں حکومت غیرجانبدار اور منصفانہ الیکشن کروانے کیلئے الیکشن کمیشن سے مکمل تعاون کرے گی۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ نگراں وزیرداخلہ پنجاب کا ریٹائرمنٹ کے بعد پی ٹی آئی کا منشور بنانےمیں کردار تھا، ن لیگ کے کارکنان اٹھا کر ایم پی او کے تحت انہیں 30 دن کیلئے جیل بھیج دیا گیا ہے تاکہ تیرہ جولائی اور پھر پچیس جولائی کو انتخابات میں ووٹ نہ کرسکیں، نگراں وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیرداخلہ پنجاب بوکھلائے اور گھبرائے ہوئے ہیں، دونوں پی ٹی آئی کے نمائندے بن کر ان عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں، اگر انہیں گرفتار کرنا تو ن لیگ کے لیڈروں کو کریں کارکنوں کو کیوں کررہے ہیں۔ ایاز صادق کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے کونسلر گل خان کے اکیس سال کے بچے کوا ٹھا کر لے گئے، فاروق خان کے گھر کے دروازے توڑ کر پولیس اندر گھس گئی، نگراں وزیرداخلہ دہشتگردی کے الزام میں لوگوں کو اٹھانے کی بات کر کے کس کو بیوقوف بنارہے ہیں، یہ پلیسئے ہمیشہ پلسیئے ہی رہتے ہیں، وزیرداخلہ کا انداز بہت آمرانہ ہے، نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت ڈمی سے زیادہ نہیں ہے، انہوں نے اپنے ایک ماموں کو بھی وزیر بنادیا ہے، لاہور میں دفعہ 144 صرف ن لیگ کیلئے لگی ہے، لاڈلا خان جلسہ کررہے ہیں ان کیلئے دفعہ 144 نہیں ہے۔ ایاز صادق نے کہا کہ ہم ریلی نہیں نکال رہے ایئرپورٹ جارہے ہیں، عمران خان کو کونسی ریلی کی ا جازت دی گئی تھی لیکن وہ شہر میں پھر رہے ہیں، لاڈلہ خان کو ریلی کی اجازت کی ضرورت نہیں ن لیگ کو ہے، نگراں حکومت سے ریلی کی اجازت نہیں لیں گے، ہمیں ان کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، میں ریلی کروں گا مجھے پکڑلیں،میں قانون پر عملدرآمد کا پابند ان لوگوں کے ساتھ ہوں جو خود قانون کی پابندی کرتے ہیں، میں، میرے بچے، میرے نواسے پوتے اور ن لیگ کے کارکن نکلیں گے۔ایاز صادق کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ اور وزیرداخلہ ہوش کے ناخن لیں انہیں یہیں رہنا ہے،میں ان کے سوشل بائیکاٹ کی دھمکی دے رہا ہوں، یہ کہیں ملیں گے تو انہیں لعن طعن کریں گے کہ انہوں نے الیکشن کو متنازع بنایا، الیکشن کمیشن فوری اقدامات کرنے کے بجائے سورہا ہے۔ ایاز صادق کا کہنا تھا کہ یہ لوگ جوکرز ہیں مجھے ان پر ہنسی آتی ہے، انہوں نے اپنی کارروائیوں سے ہمارے کارکنوں کو مزید چارج کردیا ہے، یہ جو کررہے ہیں اس کے بعد اگلی حکومت چھ مہینے نہیں چلے گی، ایک آرا و کیخلاف تو میں لکھ لکھ کر بھیج رہا ہوں لیکن الیکشن کمیشن گم صم ہے، نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے ہیں۔