اگرآپ کے خیال میں ایک عدالتی فیصلہ قانونی استدلال کے ساتھ وضاحت کرتا ہے کہ ایک جج نے قانون کی کتاب سے رہنمائی لیتے ہوئے یہ نتیجہ کیسے نکالاتو آپ یقیناََاحتساب عدالت کا فیصلہ نہیں پڑھنا چاہیں گے۔ وہ لوگ جو پہلے ہی قائل ہیں کہ نواز شریف نے منی لانڈرنگ کی اور اُن کی دولت ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی ، اُنہیں کسی استدلال کی ضرورت نہیں۔ دوسرے وہ جو فیصلے میں قانونی جواز اور طریق ِ کار دیکھنے کے لیے اسے پڑھنا چاہیں، اُنہیں مذکورہ فیصلے میں ایسا کچھ نہیں ملے گا۔ اس میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا گیا جونواز شریف کے میڈیا ٹرائل میں کہا جاتا رہا ہے ۔
قانونی ماہرین نے اس موضوع پر گہرا غور کیا ہے کہ فیصلہ کرتے وقت جج حضرات کیا کہتے ہیں، لیکن اُن کا فیصلہ دراصل کیا ہوتا ہے، اور کیا ان دونوں میں کوئی فرق موجود ہوتا ہے؟ یہ تھیوری اخلاق کی داخلی تشریح اور قانون کی معروضی تشریح کا فرق واضح کرتی ہے۔ یہ مشق قانونی نتائج کے یقینی پن کو سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔ قانون کی حکمرانی کے تصور اورانسانوں کی حکمرانی کے تصورمیں فرق ہوتا ہے۔ چاہے کسی جج کی ذاتی اخلاقیات کا معیار کچھ بھی ہو، فیصلہ قانون کی کتاب،طے شدہ قانونی اصولوں اور کیس کے حقائق کے مطابق ہوگا۔ اس میں جج کی ذات بطور شخص سائیڈلائن ہوجاتی ہے۔
قانونی معروضیت کے بہت بڑے داعی اولیورونڈل ہومز جونیئرنے دلیل دی تھی۔۔۔ ’’قانون سے میر ی مراد یہ ہے کہ عدالتیں دراصل کیا کرتی ہیں، نہ کہ بظاہر کیا دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘مسٹر ہومز نے ’’قانون کی نظر میں برا آدمی‘‘ کی تھیوری وضع کی تھی۔ اس تھیوری کے مطابق برا آدمی قرار دینے کا دارومدار اخلاقی اقدار کے مروجہ پیمانے یا جج کے اپنے قیاس پر نہیں بلکہ تعزیری نتائج (Penal Consequences) سے ہے ۔ ہربرٹ ہارٹ کا ’’قانون کا تصور ‘‘ کہتا ہے کہ اگر عدالتیں قانون سے رہنمائی نہ لیں تو قانون کی حکمرانی اور انسانوں کی حکمرانی کا فرق مٹ جائے گا۔
پاکستان میں ہم ابھی تک قانونی طریق ِ کار کی ضرورت پر بحث کررہے ہیں۔ جسٹس سکیلا(Justice Scalia) قانونی تحریر کی غیر جذباتی تشریح پر تنقید کا جواب دیتے ہیں کہ قانونی طریق ِکار انتہائی طے شدہ راستہ ہے ، اس سے کسی صورت نہیں ہٹنا چاہیے ۔ اس کے لیے ایک غیر جذباتی رسم موجود ہے ۔ اُن کے نزدیک قانون کی حکمرانی کا مطلب یہ ہے ۔۔۔۔’’ایک قاتل اس طرح پکڑا گیا ہے کہ اُس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں، گرفتاری کے وقت وہ مقتول کی لاش پر جھکا ہوا تھا، ایک ہمسائے نے قتل کی فلم بنائی، اور قاتل نے اعترافِ جرم بھی کرلیا۔اس کے باوجود ہمارا اصرار ہے کہ اُسے سزا دینے کے لیے ریاست پورے طریق کارکے مطابق قانونی کارروائی کرے اور عدالت میں مقدمہ چلاکر جرم ثابت کیا جائے ۔۔۔کیایہ قانونی رسم نہیں؟‘‘
سپریم کورٹ اور احتساب عدالت میں چلنے والا پاناما کیس، جس میں نواز شریف اور اُن کی بیٹی کو سزا سنائی گئی، کو قانونی طریق ِکار سے روگردانی کی مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ کیا اس سے پاکستان میں قانونی نتائج کی پیش بینی مزید مشکل ہوجائے گی؟ نہیں ، ایسا نہیں ہوگا۔ اس کے لیے جارج اوریل کی ’’ہاتھی کو شوٹ کرنے کی تھیوری‘‘ ہماری رہنمائی کرے گی(جب اُس نے مرضی کے خلاف ، محض عوامی دبائو پر ہاتھی کو گولی ماردی تھی اور ہاتھی کو بے بسی سے مرتے دیکھ کر اُسے شدید دکھ ہوا تھا)۔ مثال کے طور پر ہم جانتے تھے کہ نوازشریف اور مریم نواز کو سزا سنائی جائے گی کیونکہ بھرپور میڈیا ٹرائل کے بعد ’’لوگوں ‘‘ کو یہی توقع تھی ۔ کیس کی اپیل بھی اسی نتیجےپر پہنچتی دکھائی دیتی ہے ۔
بہت سے افراد کاکہنا ہے کہ اُس وقت قانون کا مقصدفوت ہوجاتا ہے جب قانونی طریق ِ کار، قانون کی نرمی اور چالاک وکلا کی وجہ سے وہ افراد بھی بچ نکلتے ہیں جن کے بارے میں ’’ہر کوئی ‘‘ جانتا ہے کہ وہ بدعنوان اور مجرم ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ برے آدمی کو ہر قیمت پر سزا ملنی چاہیے ، خواہ اس کے لیے قانونی طریق ِ کار اور طے شدہ اصول وضوابط میں کچھ تبدیلی کیوں نہ کرنی پڑے۔ جب یہ سوچ غالب اور فعال ہوجائے تو پھر فیصلوں کے نتائج بہت حد تک واضح ہوں گے۔ یہ اور بات ہے کہ ان میں قانونی استدلال موجود نہیں ہوگا۔ نیب عدالت کا فیصلہ اسی کیٹیگری میں آتا ہے ۔ اس میں قانونی استدلال ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ یہ بڑی حد تک اُس قیاس اور تاثر کا نتیجہ ہے جو نواز شریف کے میڈیا ٹرائل نے پیدا کیا ہو اتھا ۔
اس حوالے سے کچھ اہم نکات پر غور کیجیے۔ استغاثہ کے اہم ترین گواہ واجد ضیاتھے جو سپریم کورٹ کی تشکیل دی ہوئی جے آئی ٹی کے سربراہ تھے ۔ مدعاعلیہ کے وکیل کی دلیل تھی کہ یہ ایک طے شدہ قانون ہے کہ احتساب عدالت کسی تفتیشی افسر کی رائے ، یا کسی جے آئی ٹی رپورٹ پر بھروسہ نہیں کرسکتی ۔ فیصلہ سنانے والے جج صاحب نےطے شدہ قانون سے انحراف کرنے کی تشریح اس طرح کی: ’’ان افسران پر بھروسہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر ہمارے سیٹ اپ میں ماہرین نہیں ہوتے ہیں، جبکہ جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے تشکیل دیا تھا۔ تیس سے چالیس ماہرین نے جے آئی ٹی کی معاونت کی تھی ۔ عدالت پہلے بھی یہ رائے دے چکی ہے کہ اگرچہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی پیروی کرنا عدالت کے لیے لازمی نہیں لیکن عدالت کو یقین ہے کہ اس میں قابل ِ بھروسہ مواد اور دستاویزات موجود ہیں۔‘‘گو یا ضابطے سے انحراف کی وجہ ’’سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی ‘‘ تھی، اور اسی وجہ سے جے آئی ٹی کی رائے قابل ِ بھروسہ ہے ۔ چنانچہ جے آئی ٹی کی رائے پر مکمل بھروسہ کرکے سنایا گیا فیصلہ محض قیاس کا نتیجہ ہے ۔
احتساب عدالت کو نہیں پتہ چلا کہ نوازشریف اُن اپارٹمنٹس کے ، یااُن کمپنیوں کے مالک ہیں جو یہ اپارٹمنٹس رکھتی ہیں، یا انہیں خریدنے کے لیے نواز شریف نے فنڈز منتقل کیے تھے۔ چنانچہ وہ ان کے مالک کیسے قرار پائے ، اور کیوں کہا گیا کہ وہ ایک عوامی عہدیدار ہیں لیکن اپنے اعلانیہ وسائل سے بڑھ کر زندگی گزار رہے ہیں؟ اس کے لیے پیش کیا گیا جواز’’حسن نواز اور حسین نواز کے انٹرویوز ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ 1993 ء سے لے کر 1996 ء تک ان اپارٹمنٹس میںرہ رہے تھے، اور یہ جائیداد اُسی دور میں سمندر پار کمپنیوں کے ذریعے خریدی گئی۔‘‘(حسن کے انٹرویو میں 1999 ء کا ذکر ہے)۔
’’1993 ء میں ان بچوں کی عمریں 18 اور 16 برس تھیں۔ وہ مالی طور پر زیر ِ کفالت تھے ، چنانچہ کسی کی مالی مدد(گویا والد) کے بغیر یہ اپارٹمنٹس نہیں خرید سکتے تھے ۔ عام طور پر بچے اپنے والدین کے زیر ِ کفالت ہوتے ہیں، چنانچہ ملزم نمبر1 (نواز شریف) نہیں کہہ سکتا کہ اُس نے ان اپارٹمنٹس کے خریدنے کے لیے اُنہیں رقم فراہم نہیں کی تھی ۔ ‘‘
عدالت اندازہ لگاتی ہے کہ بعض اوقات نواز شریف بھی ان اپارٹمنٹس میں ٹھہرتے تھے جو ان کے بیٹوں کے پاس تھے ، چنانچہ یہ ان کی ملکیت ہی ہے ۔ چونکہ بچے اپنے طور پر یہ اپارٹمنٹس نہیں خرید سکتے تھے ،اس لیے لازمی طور پر اُن کے والد (نواز شریف ) نے اُنہیں فنڈز فراہم کئے ہوں گے۔
چنانچہ وہ ان کے بے نامی مالک ہیں۔ عدالت نے ان مختلف اپارٹمنٹس( جو چار ہیں اور مختلف برسوں میں خریدے گئے ہیں)کو ملکیت میں لینے کی تاریخ کی تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں کی، اور نہ ہی اس بات کی وضاحت کی کہ وہ اس بات کو کیوں رد کرتی ہے کہ دادا (میاں محمد شریف مرحوم)، نہ کہ والد، نے اپنے پوتے کی مالی معاونت کی تھی ۔ بے نامی ملکیت کی تھیوری یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں رشتے داریوں کی وجہ سے ان کی ضرورت رہتی ہے ۔ عدالت تسلیم کرتی ہے ،’’ ٹیکس ہیونز میں قائم ہونے والی سمندر پار کمپنیوں کے اصل مالک کا پتہ چلانا بہت مشکل ہے ۔ میاں نواز شریف نے ایون فیلڈ جائیداد کے حوالے سے خود کو ہر کسی قسم کے لین دین سے الگ رکھا تھا لیکن وہ ایف زیڈ ای کے چیئرمین تھے، جوکہ اُن کے بیٹے کی کمپنی ہے ۔۔۔‘‘لیکن اس سے عدالت نے کیسے نتیجہ اخذ کرلیا کہ نواز شریف نے ان اپارٹمنٹس کی خریداری کے لیے منی لانڈرنگ کی ہے ،چنانچہ وہ بدعنوانی کے مرتکب ہوئے ہیں؟
عدالت کہتی ہے کہ’’ التوفیق مقدمے (جس میں نواز شریف فریق نہیں تھے ) کی ایک دستاویز ظاہر کرتی ہے کہ حسن نواز نے Quint Paddington کو ایف زیڈ ای سے 614,000پائونڈز کی فنڈنگ کی تھی، اور یہ وہی کمپنی ہے جس میں نواز شریف ملازم تھے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام خاندان، باپ، بیٹے اور بیٹی، ایک ہی کاروبار میں شریک تھے ، لہذا ملزم نواز شریف محض زبانی بیانات دے کر ان کی تردید نہیں کرسکتے ۔‘‘ چنانچہ جرم ثابت ہوگیا۔ نواز شریف کو دس سال قید کی سزا سنادی گئی ۔ مریم کو سات سال قید کا کیا جواز ہے ؟ مسٹر ریڈلے کی وضاحت کے مطابق کیلبری فونٹ آزمائشی طو رپر دستیاب تھا لیکن کمرشل مقاصدکے لیے نہیں۔عدالت نتیجہ نکالتی ہے۔۔۔’’ یہ بات واضح ہے کہ کیلبری فونٹ اکتیس جنوری 2007 ء سے پہلے دستیاب نہیں تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے ، اور اس کا مقصد عدالت کو گمراہ کرنا ہے۔ چونکہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے ، اس لیے مریم نواز اپنے والد کے جائیداد چھپانے کے جرم میں شریک ہے ۔‘‘ یہاں عدالت نے سپریم کورٹ کے طے شدہ اصول سے گریز کیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ چاہیں کہ نواز شریف اور مریم جیل میں اپنی عمرتمام کریں، یا باہر آجائیں۔ لیکن عدالت نےجو فیصلہ لکھ دیا ہے وہ جسٹس سسٹم سے وابستہ ہم سب افراد کے لیے باعث شرمندگی رہے گا۔ کیا قانون کا من پسند استعمال قانون کی حکمرانی قائم کرسکتا ہے ؟ اگرہاتھی کو شوٹ کرنا ضروری ہو تو کیا بہتر نہیں کہ گولی اس طرح ماری جائے کہ گولی چلانے والے کو بعد میں تاسف نہ ہو اورنہ ہی وہ ’’ہاتھی کا قاتل‘‘ گردانا جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)