سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے وکلاء سے اپنے ایک خطاب کے دوران کہا کہ سماجی شعبے کی طرف دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ عوام کے معاشی حالات دگرگوں ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے میزائل اور ٹینک کا جوحوالہ دیا تھا،اس کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہ تھا کہ ان کی اہمیت اپنی جگہ، مگر ہم عوام کے مسائل پر سنجیدگی سے توجہ دیکر اور انہیں حل کرکے ہی پاکستان کو مضبوط بناسکتے ہیں۔ اسی طرح چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیانی نے فوجی افسران سے خطاب کے دوران بڑی وضاحت سے کہا تھا کہ ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں لیکن ہمیں اب پاکستان کے استحکام اور عوام کی فلاح و بہبود کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ انہوں نے یہ کہاکہ کوئی فرد واحد پاکستان کے جملہ سماجی و اقتصادی مسائل کے حل کا ذمہ دار نہیں ہے اور نہ ہی ہونا چاہئے سب کو باہم ملکر اجتماعی شعور کے ساتھ ملک کے مسائل کے حل کی جانب سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے کیونکہ پاکستان ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔
ان دونوں اہم شخصیات کے ان بیانات کو اصل سیاق و سباق کے حوالے سے دیکھنے کی بجائے یہ راگ الاپنا کہ ملک کے یہ دو اہم ادارے ایک دوسرے کے ساتھ تصادم کی راہ پر چل نکلے ہیں یقینا عاقبت نا اندیشی ہے۔ میڈیا کے بعض تجزیہ کار محض اپنی ریٹنگ کے چکر میں ملک کے اہم اداروں کے حوالے سے غیر محتاط تجزیئے پیش کر رہے ہیں حالانکہ چیف جسٹس اور چیف آف آرمی اسٹاف کے بیانات میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس سے یہ تاثر لیا جائے کہ ملک کے یہ دو اہم ترین ادارے ایک دوسرے سے تصادم کی راہ پر چل رہے ہیں۔
اس معاملے پر وفاقی وزیر اطلاعات کائرہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایسے تجزیوں سے بالکل اتفاق نہیں کیا ہے جن میں تاثر دینے کی کوشش موجود ہے کہ سپریم کورٹ اوراعلیٰ عدلیہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں اہم اداروں کے سربراہوں نے اپنے ان خیالات کا اظہار مختلف جگہوں پر کیا ہے اور اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ماضی میں سب سے غلطیاں ہوئی ہیں لیکن ان غلطیوں کے حوالے سے ملک کے حالات اور شخصیات کو متنازع بنانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ تجزیہ کاروں کا ملزم کو مجرم بنانے میں عجلت دکھانا کوئی مناسب بات نہیں، جب تک کسی پر جرم ثابت نہ ہوجائے وہ مجرم نہیں ہوتا ہے۔ ملک کے معروضی حالات کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہم سب پاکستان میں اجتماعی کوششوں سے ایسے حالات پیدا کریں کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ جناب کائرہ کے بیان سے ملتا جلتا بیان میاں محمد نواز شریف نے بھی دیا ہے انہوں نے بھی ایسے تجزیوں سے اتفاق نہیں کیا ہے جن سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ملک کے دو اہم اداروں کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ فوج ایک قومی ادارہ ہے جس کی سب عزت کرتے ہیں، مسلح افواج نے ملک کی بقاء اور سا لمیت کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں جبکہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا انہی کی ذمہ داری ہے۔ دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ نے آئین اور قانون کی بالادستی اور پاسداری کیلئے بے مثال جدوجہد کی ہے اور اس وقت بھی وہ آئین اور قانون پر عملداری کے سلسلے میں اپناکام سرانجام دے رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ادارے آئین اور قانون کی روشنی میں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا کام انجام دیں۔ اسی طرح ہم پاکستان کو موجودہ مشکلات سے نکال سکتے ہیں اور جمہوریت کے سفر کی طرف لے جاسکتے ہیں۔
اب اس تاثر کو ختم ہوجانا چاہئے کہ پاکستان کے کلیدی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ متصادم ہیں۔ حالات کا تجزیہ ہر باشعور فرد کا حق ہے لیکن حالات میں موجود تناؤ کو اداروں کے مابین تصادم سے منسلک کرنا حب الوطنی نہیں۔ ایسی باتوں سے دشمن قوتیں ہی فائدہ اٹھا سکتی ہیں جو اس مملکت خداداد کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ دشمن کا ایک ایجنڈا یہ بھی ہے کہ کسی طرح ہماری فوج کو عوام کی نظروں ہوں میں متنازع بنا دیا جائے کیونکہ یہ وہ ادارہ ہے جو دشمن سے مقابلہ کرنے کی پوری اہلیت رکھتا ہے۔ ماضی کی طرح اس وقت فوج پاکستان کی سا لمیت کو برقرار رکھنے کیلئے پوری طرح سرگرم ہے اور اس مقصد کے لئے ہمارے فوجی جوان مسلسل اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر رہے ہیں اور عوام فوج کے ساتھ ہیں۔ تجزیہ کار اپنے تجزیوں میں حقائق کی نشاندہی ضرور کریں لیکن ملک و ملت کا مفاد سامنے رکھ کر۔ اگر ہم ماضی کی غلطیوں کو اچھال کر حال اور مستقبل کو باہمی اختلافات کی نذر کرتے رہے تو پاکستان موجودہ ناگفتہ بہ حالات سے نہیں نکل سکے گا اور پوری قوم کو اس سوچ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ہمارے تجزیہ کاروں کو اس حوالے سے خطے کے دیگر ممالک کے دانشوروں سے بھی سیکھنا چاہئے جو اپنے ملکوں کا مفاد ہرصورت میں مقدم رکھتے ہیں۔ غلطیوں کی بھی اس انداز سے نشاندہی کرتے ہیں کہ اس سے سماج میں مثبت تبدیلی رونما ہو اور عوام اپنے اداروں کی رہنمائی میں اپنے بنیادی حقوق حاصل کریں تاکہ جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط ہوسکیں۔