• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگراں حکومت کی جانب سے معیشت پر اثر انداز ہونے والے منفی عوامل کی نشاندہی کے ساتھ بہتری کے کئی حوصلہ افزا حوالے بھی دیئے گئے تھے جن سے پتہ چلتا تھا کہ تمام رکاوٹوں کے باوجود ملک ترقی کر رہا ہے۔ اقتصادی شرح نمو8.5 فیصد کی حد کو چھو رہی ہے، صنعت، زراعت اور سروسز سمیت تمام شعبوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو رہا ہے، مہنگائی کنٹرول میں ہے۔ سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے، توانائی کا بحران قریب الاختتام ہے، برآمدات میں اضافے سے تجارتی خسارے پر قابو پایا جا رہا ہے بیرونی قرضوں کا بوجھ ضرور ہے لیکن انہیں اتارنے کے لئے مزید قرضے لینے یا آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کی کوئی ضرورت نہیں لیکن گزشتہ دو روز میں جس تیزی سے ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قیمت کم ہوئی ہے وہ قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کا یہ سلسلہ سات ماہ پہلے شروع ہوا تھا جس کے بعد اب تک چار مرتبہ اس کی قیمت کم ہوئی ہے اور اس میں کاروباری عوامل کے ساتھ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی منشا بھی شامل ہے۔ انٹربینک ریٹ کے مطابق ایک امریکی ڈالر128روپے 75پیسے کا ہو گیا ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں اس کا نرخ130روپے سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان پر واجب الادا غیر ملکی قرضوں میں800ارب روپے کا یک لخت اضافہ ہو گیا ہے۔ مئی کے اختتام پر بیرونی قرضے 7ہزار 324ارب روپے تھے جو اچانک بڑھ کر 8ہزار120ارب روپے ہو گئے ہیں۔ ابھی ڈالر کی قیمت مزید بڑھنے کا خدشہ ہے جو پہلے ہی روپے کے مقابلے میں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔1960کی دہائی میں جب برطانوی پونڈ نے پاکستانی روپے کو دبوچ کر رکھا تھا اس امید پر روپے کو پونڈ سے ڈی لنک کر کے ڈالر سے منسلک کیا گیا تھا کہ اس سے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ روپے اور ڈالر کی قیمتوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا مگر اب ان میں 130گنافرق آگیا ہے۔ روپے کی اس ناقدری کی بنیادی وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور ادائیگیوں میں عدم توازن بتایا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے ڈالر اور روپے کے درمیان ایکسچینج ریٹ میں اس تبدیلی کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے ڈالر کی طلب پرقابو پانے، بالخصوص بیرونی کھاتوں میں عدم توازن دور کرنے میں مدد ملے گی لیکن معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔ ناگزیر پیداواری درآمدات یعنی مشینری، ٹرانسپورٹ اور پیٹرولیم وغیرہ کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں، ان درآمدات سے زراعت، صنعت اور دوسرے شعبوں کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہو گا اور قیمتیں بڑھیں گی۔ اس کے نتیجے میں برآمدات میں ہونے والے برائے نام اضافے کے اثرات بھی زائل ہو جائیں گے۔ روپے کی قیمت گرنے سے جو معاشی مشکلات پیدا ہوں گی وہی کیا کم تھیں کہ اسٹیٹ بینک نے شرح سود بھی 6.5 فیصد سے بڑھ کر ساڑھے سات فیصد کر دی ہے۔ تاجروں اور صنعت کاروں نے اس فیصلے پر شدید احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے بینکوں کے قرضے مزید مہنگے ہوں گے زرعی اور صنعتی اشیا کی پیداواری لاگت بڑھ جائے گی جس سے مہنگائی کا طوفان آجائے گا جو عام آدمی برداشت نہیں کر سکے گا۔ ملک اس وقت بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی سے دو چار ہے غیر ملکی سرمایہ کار پہلے ہی اپنا سرمایہ واپس لے جا رہے ہیں سٹاک مارکیٹ شدید مندی کا شکار ہے حصص کی قیمتیں مسلسل گر رہی ہیں یہ صورت حال جاری رہی تو ملک مزید معاشی مشکلات سے دو چار ہو جائے گا۔ ماہرین نے درست تجویز کیا ہے کہ حکومت روپے کی قدر میں استحکام لانے کے لئے فوری اقدامات کرے۔ برآمدی سیکٹر کو مضبوط بنائے سیاسی قائدین کو بھی اقتدار کی رسہ کشی میں الجھے رہنے کی بجائے ملکی معیشت کی فکر کرنی چاہئے توقع کی جانی چاہئے کہ عام انتخابات کے بعد جو بھی حکومت آئی وہ ان مسائل کے حل کے لئے دور اندیشانہ فیصلے کرے گی اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالے گی۔

تازہ ترین