• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف کے جیل میں جانے کی مجھے خوشی ہے نہ چنداں غم۔ وہ ساری بہاریں لُوٹ چکے۔ مقبول لیڈر ہونے کی ، ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہونے کی۔ کلیدی عہدوں پر مرضی کے افسروں کی تقرری کی۔ کئی آرمی چیف اور چیف جسٹس مقرر کرنے کی ۔ وہ اگر کچھ عرصہ جیل کاٹ لیں گے تو اس سے ان کی شخصیت میں نکھار آئے گا۔ جیل میں ایک ایک لمحے میں آپ اپنی برسوں کی خامیوں اور خوبیوں کو یاد کرتے ہیں۔ قید تنہائی میں تو انسان اپنے بہت قریب آجاتا ہے۔ وزیر اعظم یا اپوزیشن لیڈر ہوتے ہوئے تو اپنے آپ سے ملنے ، ہم کلام ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ اربوں روپے کا حساب کتاب بھی وہ ذہن میں کررہے ہوں گے۔
مجھے مریم نواز کے جیل جانے کا دُکھ ہے۔ وہ کسی بڑے عہدے پر فائز نہیں رہیں۔ اسمبلی کی رُکن نہیں رہیں۔ جیل جیل ہوتی ہے۔ چاہے وہ اے کلاس ہو یا بی۔ ارد گرد اونچی اونچی فصیلیں ہوتی ہیں بعض اوقات کیمرے کی آنکھ بھی دیکھ رہی ہوتی ہے۔ ہر پل نوکروں، نوکرانیوں، خوشامدیوں، جی حضوریوں میں رہنے والے کو جب ایک محدود احاطے میں دن رات گزارنے پڑتے ہیں تو آنسو چھلک ہی جاتے ہیں اور جب باہر فضا بھی مخالف ہو۔ مقتدر قوتیں کسی اور رُخ سے سوچ رہی ہوں اور یہ سیاسی نظر بندی بھی نہ ہو،قید بامشقت ہو، جیل میں پہلا ہفتہ بہت ہی مشکل گزرتا ہے، عجیب عجیب خیالات آتے ہیں، گھر، دفاتر، شاپنگ مال، قیمتی کاریں بہت کچھ یاد آتا ہے۔ سوچ سوچ کر جب کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا تو بے بسی طاری ہونے لگتی ہے۔ مجھے نہیں علم کہ مریم بی بی کو مطالعے کا شوق ہے یا نہیں۔ ورنہ جیل میں سب سے اچھی ساتھی کتاب ہوتی ہے۔ خاص طور پر طویل رومانی یا جاسوسی ناول یا آپ بیتیاں۔
نامور قیدیوں نے جیل میں کتابیں صرف پڑھی ہی نہیں لکھی بھی ہیں۔
28اکتوبر1973کو لاہور میں آنکھ کھولنے والی مریم بی بی کی پرورش بڑے نازو نعم میں ہوئی ہے۔ تعلیم بھی کانونٹ آف جیسس اینڈ میری میں۔ میڈیکل کرنا چاہتی تھیں نہیں کرسکیں۔ سیاسی وجوہ بھی تھیں۔ ایم اے انگلش لٹریچر بتایا جارہا ہے۔ اس لئےیہ خیال کرسکتے ہیں کہ ادب کے مطالعے کا یقیناً شوق ہوگا۔
میاں صاحب کے نا اہل قرار دئیے جانے کے بعد مریم نواز نے جس ہمت اور جرأت سے اپنے والد کا ساتھ دیا ہے پنجاب کی مائوں بیٹیوں اور سہاگنوں میں وہ ایک مثالی کردار بن چکی ہیں۔ ہم جذباتی قوم ہیں۔ عشق پر یقین رکھتے ہیں۔ جہاں تحقیق ہوتی ہے نہ دلیل۔ بہت سے گھرانوں میں یہ سوال نہیں کیا جارہا کہ وہ ملکی خزانہ لوٹنے کے ملزم اور اب مجرم کا ساتھ کیوں دے رہی ہے۔ سیاسی وفادار الزامات اپنی جگہ اپنی آنکھوں دیکھے معاملات کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ آن اور شان سامنے رکھی جاتی ہے جس سے مخالفین اور شریکوں کو للکارا جاتا ہے۔ اس حوالے سے مریم نواز اپنے والد اور چچا دونوں سے زیادہ مقبول ہیں۔
میں بہت غور کررہا ہوں کہ ملک میں تین بار دختر اوّل رہنے والی قید کس طرح کاٹ رہی ہوں گی۔ ان کی جس ماحول میں پرورش ہوئی اور آس پاس جیسی فضا دیکھنے کو ملی وہاں اختیارات کا بے جا استعمال برا لگتا ہے نہ سرکاری پیسے اور اپنے پیسے میں امتیاز رکھنے کی روایت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اس سطح کے خاندانوں کا حقیقی معنوں میں پہلے احتساب بھی نہیں ہوا۔ الزامات کے جواب میں الزامات عائد کردیے جاتے تھے۔ اس لئے پاناما کے شروع میں دئیے گئے بھائیوں اور بہن کے بیانات میں اگر قانونی تضادات ہیں تو وہ اسی سیاسی کلچر کا نتیجہ تھے ۔
مجھے نہ جانے ایسا تاثر کیوں ہے کہ مریم نواز اپنے کسی جرم کی نہیں بلکہ والد سے وابستہ جرائم کی سزا کاٹ رہی ہیں۔کاروباری حضرات اپنی قانونی ضروریات پوری کرنے کے لئے اپنے گھروں کی عورتوں کو ڈائریکٹر ،پارٹنر بنالیتے ہیں۔ بعض اوقات ان بہو بیٹیوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا۔اتنے بڑے خاندان کی بیٹی جب جیل جاتی ہے تو پنجاب کی رومان پرور فضائوں میں وہ روایتی قصّے کہانیوں کی ہیروئنوں کی طرح دلوں پر راج کرنے لگتی ہے۔ بزرگ مائیں دوشیزائیں اسے اپنا آئیڈیل ماننے لگتی ہیں۔ وہ دلیرانہ واقعات۔ اور جملے بھی ایسے قیدیوں سے منسوب کردئیے جاتے ہیں جو انہوں نے ادا بھی نہیں کئے ہوتے۔ اس وقت بھی پنجاب کے طول و عرض میں ایسی دیو مالائی داستانیں سنائی جارہی ہیں۔
عام طور پر ایک سزا یافتہ کو مشقتی نہیں ملتے ۔ قید با مشقت والے بڑے لوگوں سے مشقت بھی نہیں لی جاتی سزا یافتہ کو قیدیوں کی وردی بھی پہننی ہوتی ہے۔ ایسی کہانیاں جب سینہ بسینہ چلتی ہیں تو ایسے قیدیوں کا قد اور بھی بڑھنے لگتا ہے۔ امیر کبیر لوگ جیل میں آئیں تو جیل کے عملے میں بھی خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اور عام قیدیوں میں بھی کیونکہ روزانہ نقد انعامات و اکرامات کی بارش ہوتی ہے۔ آصف زرداری جب جیل میں تھے تو قیدیوں کے لئے ہر روز روز عید اور ہر شب شبِ برأت ہوتی تھی۔ مجھے بھی جنرل ضیاء الحق کے دَور میں دو بار جیل میں کچھ ہفتے گزارنے کا موقع ملا۔ تو ہم نے خود بھی اہل ثروت کی سخاوتیں دیکھیں۔ کراچی سینٹرل جیل میں چوہدری ظہور الٰہی کی سخاوتوں کی کہانیاں سنیں۔ اڈیالہ جیل میں بھی یقیناً خوشی کا سماں ہوگا۔ قیدیوں کے ہی نہیں ۔ قیدیوں کے گھر والوں کے دن بھی پھر جاتے ہیں۔
لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ مریم نواز کے جیل میں رہنے کے دن ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ قانون کیا کہتا ہے یہ نہ تو انگریز کا دَور ہے نہ آمریتوں کا۔ صدر مملکت کو بھی اختیارات ہیں چیف جسٹس کوبھی۔مریم ایک ماں ہیں۔ ایک بیٹی ہیں۔ ان کی والدہ بھی علیل ہیں۔ جیلیں اور قید سزا نہیں ہوتیں ۔ اصلاح کے لئے ہوتی ہیں۔ جتنی پیشیاں وہ بھگت چکیں وہ بھی ایک طرح کی سزا ہی تھی۔ اب چند روز جیل میں وہ خاک نشینوں کو قریب سے دیکھ کر جان لیں گی کہ پاکستان کا عام شہری کتنی مشکلات میں زندہ رہتا ہے۔ جیلوں میں کتنی عورتیں ہیں جو اپنے بچوں کے ساتھ قید کاٹ رہی ہیں۔ بعض جرمانے کی رقم نہ ہونے کے باعث رہا نہیں ہوسکی ہیں۔ ان کے حقائق جان کر مریم بی بی یقیناً ان کے لئے کچھ کریں گی۔
جیل کی تنہا راتوں نے مریم بی بی کو اپنے خاندان کے دَور اقتدار کے برسوں میں کئے گئے درست اور غلط فیصلوں کی حقیقت بھی بتائی ہوگی۔ یہاں قیدی جو بھی سوچتا ہے وہ خالص اور شفاف سوچ ہوتی ہے۔ کوئی مصلحت اور سودے بازی نہیں ہوتی۔
ہمارے معاشرے کی ذمے داری ہے کہ وہ ایک بیٹی کے نفسیاتی محسوسات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کو جیل کے ماحول میں زیادہ وقت نہ گزارنے دے۔ یہ جیلیں اصلاح کی بجائے ذوقِ جرم کو اور تحریک دیتی ہیں۔
بڑھتا ہے ذوقِ جرم یہاں ہر سزا کے بعد
مریم بی بی کے ساتھ ساتھ اور بیٹیوں کو بھی جو زیادہ سنگین جرائم میں سزا نہیں کاٹ ر ہیں ان کو بھی آزاد کردینا چاہئے۔ 14اگست آرہی ہے۔ آزادی کا دن۔ یہ اس کیلئے بہت موزوں ہوگا ۔ مریم نواز کی صلاحیتیں۔ جرأتیں اس ملک کو خوشحال بنانے کیلئے استعمال کی جانی چاہئیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین