• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوازشریف اور مریم نواز شریف نے واپس آکر نام نہاد پیشہ ور اور تھڑے باز وں کی پیش گوئیوںکو پاش پاش کردیا ہے ۔ مخالفین کی یہ دکان تو بالکل ہی چوپٹ ہوگئی ہے اور اسی لئے وہ نئی اختراعات کیلئے تگ و دو میں مصروف ہیں۔انتخابات چند روز کی دوری پر ہیں اورحسب سابق کپتان کی جانب سے ایک بڑی بے وقوفی ابھی ادھار ہےکیونکہ ہر بڑے ایونٹ سے قبل یہ ریکارڈ اسی کےنام رہے گا، دھرنوں میں اس نے کیا کیا، سب جانتے ہیں۔ریحام سے شادی ہو یاطلاق اور آخری شادی سب کو یاد ہے ۔ دیکھیں وہ اس بارکس قسم کا تحفہ پیش کرکے قومِ یوتھ کو شرمندہ ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ کپتان کی ضمنی ناپختگیوں کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری ہے ۔پہلے کپتان نے نعرہ لگایا تھا کہ نواز شریف واپس نہیں آئیں گے پھر دور کی کوڑی لایا کہ لاہوری باہر نہیں نکلیں گے کہ مسلم لیگ ن کی سیاست ختم ہوگئی ہے۔ کپتان کی تازہ ترین ناپختگیوں میں ایک یہ تھی کہ اس نے ایماندار لوگوں کو منافق قرار دیا جس پر شدید ردعمل آیا، بات صرف یہیں تک نہیں رکی کہ اس نے ایک اور ناپختگی جڑ دی کہ جو سیاسی کارکن میاں نواز شریف کا استقبال کرنے جائیں گے وہ گدھے ہوں گے، اس بیان کا انتہائی شدید رد عمل آنے کے باوجود کپتان نہ صرف اپنے بیان پر قائم رہا بلکہ اس نے اس پر مسلسل اصرار کیااور بعد ازاں اس کی تکراربھی جاری رکھی یہاں تک کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز پاکستان واپس آگئے۔کئی صحافیوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا اور تحریر کیا کہ 13 جولائی کو میاں نواز شریف عوامی مقدمہ میں ہار گئے ۔میرا خیال ہے کہ ان صحافیوں نےجانبدارانہ تبصرہ کیا۔میرا ان صحافیوں سے سوال ہے کہ وہ بتائیں کہ میڈیا کو کس نے ریلی کو کور کرنے سے روکا ؟کس نے کہا تھا کہ لاہور کو بند کردو؟13 جولائی کی ریلی کی کوریج کے بعد وائس آف امریکہ نے لکھا اپنے لیڈر کے استقبال کیلئے مسلم لیگی لاکھوں کی تعداد میں گھروں سے سڑکوں پر امڈ آئےپولیس سے انکی جھڑپیں بھی ہوئیںان پر آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے۔بین ا لاقوامی میڈیا اور اخبارات کے ایڈیٹوریلز میں بھی سوالات اٹھائے گئے کہ جب نواز اور مریم سات سمندر کا سفر کرکےمحض گرفتاری دینے کیلئے پاکستان آرہے تھے تو اس کیلئےاتنے بڑے پیمانے پرانتظامات کرنےکی ضرورت کیا تھی؟ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کو گرفتار کرنے کیلئے اہلکاروں کو جہازکے اندر داخل ہونے کی کیا ضرورت تھی ؟ کیا انھوں نے باہر نہیں آنا تھا ؟اگر مسلم لیگ کی سیاست ختم ہوگئی تھی تو لاہور کو کنٹینروں سےسیل کیوں کیا گیا تھا؟اگر لوگ نواز شریف سے اتنے ہی متنفر ہوچکے ہیں توپولیس نے اٹھارہ ہزارکے قریب مسلم لیگی ورکرز کو گرفتار کیوں کیا ؟وائس آف امریکہ نے لکھا تمام تر مشکلات کے باوجود مسلم لیگ کےچاہنے والوںنے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر اپنی موجودگی اور غیر مشروط حمایت کو ثابت کردیا ہے کہ لاہور شیروں کا ہے ریلی کے روز ہر طرف سے ’’شیر ایک واری فیر ‘‘کی گھن گرج سنائی دے رہی تھی ۔انٹرنیشنل میڈیا نے لکھا کہ ریلی اتنی بڑی تھی کہ میاں شہباز شریف ایئرپورٹ پر نہ پہنچ سکے جس پر کچھ مخالفین نے حسب عادت وہی پرانا اسکرپٹ بولنا شروع کردیا کہ شہباز شریف کسی ڈیل کی تلاش میں ہیں وہ جان بوجھ کر ائیرپورٹ نہیں پہنچے ۔انھوں نے اپنے بھائی کو دھوکا دیا۔ کپتان تم نہیں جانتے کہ شہباز شریف کیلئے نواز شریف کیا ہیں ؟1999 میں مشرف نے کتنی شدت سےکوشش کی تھی کہ ان دونوں بھائیوں کو الگ الگ کردیا جائے۔تب بھی میاں شہباز شریف کو پیشکش کی گئی تھی کہ آپ اپنے بھائی سے قطع تعلق کرلیں پارٹی قیادت آپ کے سپرد کر دی جائیگی۔کپتان نہیں جانتا کہ شریف برادران کو کسی بھی سازش کے ذریعے الگ کرنا ناممکن ہے۔
کپتان جس اسکول آف تھاٹ کا حامی ہے جس میں غلط بیانی اس قدر تسلسل سے کی جاتی ہے کہ آخر کار اسے سچ مان لیا جائے لیکن اسے ادراک نہیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہوتا سننے والوں کو کب تک بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ الزامات پر مبنی نیازی سیاست کوکبھی پذیرائی نہیں مل پائے گی۔ابھی عمران خان نیازی کے بیانات نہیں تھمے تھے کہ پرویز خٹک کی غیر اخلاقی جملے بازی نے نیا پنڈورا باکس کھول دیاہے۔جس کے بعد یہ مطالبہ شدت پکڑتا جارہا ہے کہ پرویز خٹک اور عمران خان دونوں کا بلڈ ٹیسٹ کیا جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ دونوں کیا کھاتے ہیں۔ 25جولائی کے انتخابات میں مسلم لیگ ن بھرپور مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے ۔ عوام ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘کے نعرہ کو تیزی سے اپناتے چلے جا رہے ہیں ۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد مسلم لیگ ن میں ایک نئی روح پھونکی جاچکی ہے۔ 25جولائی مخالفین کیلئے خوفناک خواب ثابت ہوگا جب عوامی ووٹ کی طاقت اور خدا کے فضل سے شیر کی دھاڑ ملک بھر میں سنائی دے گی اور ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔اِن شاء اللہ۔

تازہ ترین