• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بینش صدیقہ

گزشتہ ہفتے کالج کی ایک تقریب میں ہماری ملاقات اپنے کچھ سابق طلباسے ہوئی، ان میں سے اب کوئی انجینئرنگ کا طالب علم ہے تو کوئی کامرس اور بزنس ایڈمنسٹریشن کا۔ہم نے طلبا سے کبھی سخت گیر قسم کی استانیوں والا رویہ رکھا نہیں ،اس لیے سارے ہی نوجوان خوش دلی سےآگے بڑھ بڑھ کر ملے ۔بات تعلیمی سرگرمیوں سے شروع ہوئی اور 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات پر آکر اٹک گئی۔ہم نے پوچھا کہ بھئی اس بار تو پہلا پہلا ووٹ ڈالو گے ،یقیناً خوب پرجوش ہوگے ،بتاؤ تو سہی کہ یہ قرعہ فال کس کے نام نکلے گا؟

سب نے یک زبان کہا، ،مس کیسی باتیں کرتی ہیں ۔ان چوروں کو کون ووٹ دے گا۔۔۔ اچھا؟ تو بھئی تم چوروں کو مت دو، چوکیداروں کو دے دینا۔کچھ دیر پہلے تک بحث میں ایک دوسرے کو مات دینے والے جیسے چپ ہوگئے۔مس سارے ایک دوسرے سے بڑھ کر چور اور کرپٹ ہیں۔ان کو ووٹ دینے سے بہتر ہے، ووٹ دیا ہی نہ جائے۔ ساری گفتگو سن کر حمزہ کے اندر کا پرجوش مقرر جاگ اٹھا۔اور انہوں نے فورا یہ شعر سناکر حاضرین سے داد سمیٹنی شروع کردی۔

لگی ہے پھر صدا ایک بار کہ سردار بدلے گا

فرعونی سلطنت کا بس ایک کردار بدلے گا

جس قوم کو خود پر جبر سہنے کی عادت ہو

وہاں کب کچھ بدلا ہے جو اس بار بدلے گا

قارئین !یہ صرف چند نوجوانوں کی رائے نہیں ہے بلکہ ملک کا ایک بڑا طبقہ اسی سوچ کو درست جانتا ہے،یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز کی ستر سالہ تاریخ میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ پچاس پچپن فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکا،یہ ہی بھی شاید بہت بتا دیا ۔بہرحال اس وقت نوجوانوںکی اکثریت ہے،وہ جس کو ووٹ دیں گے،وہی اقتدارکی کرسی پر بیٹھےگا۔لیکن نوجوان تو کہہ رہےہیںکہ چوروں،ڈاکوئوںکو ووٹ دینےسے بہتر ہے،ووٹ دیاہی نہ جائےلیکن یہ سوچ غلط ہے۔اب سوال یہ ہے کہ

ووٹ دینا کیوں ضروری ہے ؟

یہ اس لیے ضروری ہے کہ ووٹ قوم کی امانت ہے،اس ووٹ کے ذریعے آپ ایسے لوگوں کو منتخب کریںجنہیںآپ سمجھتےہیںکہ یہ ہمارےلیے،ملک کے لیےکچھ کرسکیںگے۔اور ان چوروں کا راستہ بند کردیں جو ہماری غفلت کی وجہ سے ایوان پر قبضہ گیر ہوتے رہے۔یہ بھی سوچیںکہ ان کرپٹ لوگوں کے منتخب ہونے میں ،قصور وار کون ہے؟ یقیناً میں اور آپ۔۔ جی ہاں ،کیوں کہ اگر ہم اپنی تقدیر کا اہم ترین دن ،گھر پر سو تے ہوئے یا ، دوستوں کے ساتھ تفریح کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں تو معذرت کے ساتھ آپ کو اس بات کا کوئی حق نہیں کہ آپ منتخب افراد کوبرا بھلا کہہ سکیں ۔

اب آپ کی طرح ہمارے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ میرا ووٹ تو ’’ ٹھپے‘‘ کی نذر ہوجائے گا ۔بےشک یہ صرف کسی ایک شہر یا صوبے کا مسئلہ نہیں بلکہ جہاں جس کا زور چلتا ہے وہاں ۔۔ ٹھپہ ‘‘ بھی خوب چلتا ہے ۔لیکن یاد رکھئے اگر آپ نے ذمےداری کے ساتھ اپنا ووٹ کاسٹ کیاہے تو اب یہ ناممکن نہ سہی،، مشکل ضرور ہے کہ آپ کا ووٹ کوئی اور لے اڑے،کیوں کہ ٹھپہ بھی وہیں چلتا ہے جہاں ووٹ نہیں ڈلتا۔

آپ کی طرح ہم بھی ہیں نوجوان۔ (الیکشن کمیشن کی تعریف کے مطابق اٹھارہ سے پینتیس برس کا شخص نوجوان کے زمرے میں شامل ہے)۔لیکن نوجوان ہونے کے ساتھ ساتھ ہم ہیں آپ کے استاد بھی ۔یقینا ًاب آپ کے ذہن میں یہ سوال گردش کررہا ہوگاکہ پورا ملک تو ووٹ دے رہا ہے ایک میں نہ دوں تو کیافرق پڑے گا۔ اس کے جواب میں ایک مشہور واقعہ سن لیجیے۔امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا،ان کی شہرت کی وجہ جہاں سپر پاور کے صدر کی حیثیت سے تھی وہیں صرف ایک ووٹ نے انہیں صدر بنادیا۔ کسی صحافی نے ان سے پوچھا کہ صرف ایک ووٹ سے حیران کن کامیابی کیسے ممکن ہوئی؟ ریگن نے جواب دیا۔میری کامیابی میں ایک بزرگ عورت کا ہاتھ ہے۔ریگن کے مطابق ان کی انتخابی مہم کے دوران ایک ٹریفک سگنل پر گاڑی رکی ۔سامنے ہی ایک عورت بڑھاپے اور کمزوری کے باعث سڑک پار کرنے میں دشواری محسوس کررہی تھی۔ریگن اپنی گاڑی سے اترے اور بزرگ خاتون کو سڑک پار کرادی۔خاتون نے ریگن کو پیار کرتے ہوئے پوچھا بیٹا تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا۔میں رونالڈ ریگن ہوں اور صدارتی انتخاب لڑ رہا ہوں ۔خاتون نے غور سے ریگن کو دیکھا اور کہا میرا ووٹ تمہارے لیے ہوگا۔انہوں نے خاتون کا شکریہ ادا کیا اور واپس آگئے۔ ریگن کے مطابق میری ایک ووٹ سے کامیابی اسی بوڑھی خاتون کی مرہون منت ہے ۔یہ اس ایک ووٹ کا کرشمہ تھا کہ میں ایک بار پھر امریکہ کا صدر بنا ۔اس مشہور واقعے کو بیان کرنے کے بعد صرف ایک ووٹ کی طاقت کے حوالے سے یقیناً کسی اور دلیل کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔الیکشن کمیشن کے مطابق اس بار تقریبا َ فی صد ووٹرز نوجوان ہیں ۔یعنی نوجوان انتخابات میں سب سے زیادہ اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی نوجوان ووٹرز کو اپنی اپنی جانب متوجہ کرنے میں مصروف ہیں ۔اپنی اہمیت کو پہچانیں اور ووٹ ضرور ڈالیں ۔

اب دوسراسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ، ووٹ دیں تو کس کو دیں؟

عموماً نوجوان اسی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں جو ان کے ارد گرد کے لوگوں کی پسند ہوتا ہے ۔لیکن ووٹ کا تقدس اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ووٹ اس امیدوار کو دیا جائے جو اس کا اہل ہو۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں کی راجدہانی ہے ۔اکثر سیاسی جماعتوںکے بارے میں مشہور ہے کہ وہ امیدوار کی جگہ کھمبا بھی کھڑا کردیں تو جیت کھمبے کی ہوگی۔یعنی مشہور سیاسی جماعتوں کی اندھی تقلید اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ہمارا شعور کہیں کھو چکا ہے ۔ کھمبے والی جماعتیں تو فخر سے اس بات کا تذکرہ کرتی ہیں لیکن یہ بات ہم ووٹرز کے لیے بھی قابل فخر ہوسکتی ہےکہ نہیں ؟ یقینا ًنہیں ۔

اٹھارہ سال کے نوجوان قانون کی نظر میں باشعور ہوچکے ہیں۔ اس لیے ووٹ ڈالنے کے قابل سمجھا گیا ہے ۔اپنے شعور کا بہتر استعمال کرتے ہوئے ،امیدواروںکا چنا ئوکرتےوقت اُن کی تعلیمی قابلیت کو ضرور مد نظر رکھیں ۔اُن کا سیاسی پس منظر دیکھیں۔ایک قابل امیدوار آپ کے لیے بہتر طور پر قانون سازی کرواسکتا ہے۔امیدوار کا تعلق جس جماعت سے ہو اس کا منشور پڑھنا آپ کا فرض ہے۔یہ دیکھیںکہ کیا اس منشور میں قومی مسائل کے حل کی یقین دہانی کروائی گئی ہے؟اس وقت ملک کے گمبھیرمسائل میں پانی کی قلت ،ڈیمز کی تعمیر۔بجلی اور گیس کی لوڈشیدنگ اور معیشت کی زبوں حالی اہم ترین مسائل ہیں ۔کراچی میں تو پانی کی قلت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ چھوٹے بڑے ہر علاقے میں جب سابقہ منتخب اراکین نے پانچ سال بعد اپنی رونمائی کرائی تو ووٹرز نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور نعرے لگائے۔

پانی نہیں ہے نلکے میں

شکل نہ دکھانا حلقے میں

یقیناً جب آپ ووٹ دیں گے تب ہی اپنے نمائندوں سے باز پرس کا حق بھی رکھیںگے۔ اس حوالے سے آپ کی پسندیدہ جماعت نے کیا منصوبہ تشکیل دیا ہے؟یہ جانیے،اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آیا انہوں نے نوجوانوں کے اہم ترین مسئلے بیروزگاری کے خاتمےکے لیے کچھ پروگرام مرتب کیےہیں ، کیا انہوں نے نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع کے حوالے سے کوئی منصوبہ تشکیل دیا ہے اورکیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان کا منشور قابل عمل ہے ؟ اگر ہاں تو اس منشور کی روشنی میں امیدوار کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔اب یہ آپ کی صوابدید پر منحصرہےکہ 25جولائی کو کیا فیصلہ کرتےہیں۔آپ کا یعنی نوجوانوںکا فیصلہ ملک کی تقدیر بدل سکتاہے،جو سنور بھی سکتی ہےاور مزید بگڑبھی سکتی ہے۔ 

تازہ ترین