پروفیسر عفت بانو
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اپنے مضمون بعنوان ’’الیکشن‘‘میں ایک جگہ لکھا تھاکہ ’’الیکشن کی فصل تھی اور امید وار موٹر ، ڈنڈے اور لڈو لئے ہوئے میری تلاش میں تھے ‘‘پروفیسر صاحب کے اس جملے سے برِ صغیر میں ہونے والے الیکشن کی پوری تصویر کھنچ جاتی ہے کہ یہاں ووٹ ڈنڈے کے زور پر بھی لیا جاتا ہے ،لڈو کھلا کر بھی لیا جاتا ہے اور پولنگ اسٹیشن تک جانے کے لیےموٹر بھی عنایت کی جاتی ہے۔خیر یہ تو برسبیلِ تذکرہ پروفیسر صاحب کا مضمون ہمیں یاد آگیا، کیوں کہ آج کل ہمارے ملک میں بھی الیکشن کا موسم چل رہا ہے،سیاسی جماعتیں اپنے کارناموں کا تذکرہ کرکے ووٹ حاصل کرنے کے جتن کررہی ہیں ،اس موقعے پر تمام سیاسی جماعتیں پورے زور شور سے الیکشن کی تیاری میں مصروف ہیں، لیکن کیا ہمارے ووٹرز نے بھی الیکشن کے حوالے سے کوئی تیاری کی ہے، ہوسکتا ہے آپ کہیں کہ ووٹرز کو تو بس اپنی شناخت کرواکر ووٹ ہی دینا ہوتا ہے ،اسے کسی تیاری کی کیا ضرورت ہے یہی وہ غلطی ہے جو ہم سب کرتے ہیں، یعنی بغیر سوچے سمجھے کسی بھی امیدوار یاسیاسی جماعت کو جانچے پرکھے بغیر آنکھیں بند کرکے ووٹ دے دیا جاتا ہے ،بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم تو ووٹ نہیں دیں گے، کیا فائدہ جب کوئی تبدیلی آتی ہی نہیں تو ووٹ دینے سے کیا حاصل، یہ بھی غلط رویّہ ہے ،کیوں کہ تبدیلی رفتہ رفتہ ہی آتی ہے، یہ بدلے ہوئے رویے اور شعور ہی کی تو علامت ہے کہ آج کا ووٹر اپنے نمائندے سے یہ سوال توکررہا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میں اس نے کیا،کیا ؟ جو آئندہ پانچ سال کے لیے بھی اسے ہی منتخب کیا جائے۔اس شعور کو اُجاگر کرنے میں سوشل میڈیا نے نمایاں کردار ادا کیا ہے، چوں کہ نوجوانوں کی اکثریت سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ کرتی ہے اس لیے ، اس لیے اس پر چلنے والی تحریکوں یا پیغامات کا ان پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ نوجوان بہت بڑی قوت ہیں،جو اپنے ووٹ سے انقلاب لاسکتی ہے، اس حوالے سے نوجوانوں پر بہت بڑی ذمےداری عائد ہوتی ہے، کہ وہ امیدواروں سے پوچھیں کہ منشور میں نوجوانواں کے لیے کیا ہے ۔ 2013میں ہونے والے عام انتخابات میں ، جس بچے کی عمر تیرہ سال تھی ، اب وہ ووٹ دینے کا اہل ہے،اس مرتبہ نوجوان ووٹرز کی تعداد گزشتہ انتخابات سے کہیں زیادہ ہے،اس حوالے سے بھی اگر ان انتخابات کو نوجوانوں کا الیکشن کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔اس لیے وہ ان لوگوں کو منتخب کرنے کی کوشش کریں، جن کی کارکردگی سو فی صد نہ سہی کم از کم پچھتر فی صد تو ہو ۔مسئلہ یہ ہے کہ نسل نو ہوش کے بہ ئے جوش سے کام لیتی ہے، یہیں وہ مات کھاجاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں نوجوانوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتی ہیں،کبھی ،فرقے ، گروہ ،لسانیت، صوبائیت کے حوالے سے نوجوانوں کو استعمال کیا جاتا ہے توکبھی بریانی کی ایک پلیٹ ہی یہ فیصلہ کردیتی ہے کہ ووٹ کسے دینا ہے۔نوجوانوں کو استعمال کیا جاتا،ان کااستحصال کیا جاتا ہے ،ان سے صرف وعدے کیے جاتے ہیں ،ایسے خواب دکھائے جاتے ہیں، جن کی تعبیر کبھی نہیں ملتی، لیکن اب وقت آچکا ہے کہ آپ سیاسی جماعتوں سےپوچھیں کہ منتخب ہونے کے بعد ہماری فلاح وبہبود کے لیے، وہ کیا کریںگی؟کیا لائحۂ عمل مرتب کیا ہے؟یہ بھی پوچھیں کہ آج نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ہاتھ میں ڈگری لیے ملازمت کی تلاش میں سرگرداںکیوں ہے؟ کیوں وہ دیار غیر میں کیریئر بنانے،اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔امید وار ووٹ مانگنے آئیں، تو ان سے پوچھیں کہ انہیں ووٹ کیوں دیں، جن کے پاس اس ملک کے اثاثے یعنی نوجوانوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ووٹ دینے سے قبل اس بات کا بھی اچھی طرح جائزہ لیں کہ ان جماعتوں کا معاشی نظام کے حوالے سے کیامؤقف ہے ، کیا ان کے پاس ایسے ماہرین ہیں، جو ہمارے ملک کے معاشی نظام کو بہتر بنانے کی اہلیت رکھتے ہوں، ہمارا ملک افراطِ زر کا شکار ہے، روپے کی قدر کم سے کم ہورہی ہے ان حالات میں معاشی معاملات کے حوالے سے بہتری لانا کوئی آسان بات نہیں ،اس لیے ایسی جماعت کا انتخاب کریں، جو محروم طبقات کے آنسو پوچھنے کی اہل نظر آئے۔ نوجوانو! آپ طوفانوں کا رخ موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، کسی جذباتی نعرے ،فریب کا شکار نہ ہونا، کھلی آنکھوں اور کھلے ذہن سے ہر جماعت کے منشور کاجائزہ لے کر ہی ووٹ دینا،اگر آپ نے اس وقت با شعور ہونے کا ثبوت دیا ،تو بریانی کی پلیٹ کیا پوری دیگ آپ کی ہے، لیکن اگرآپ جذباتی نعروں کا شکار ہوگئے ،تو اس کا خمیازہ آپ ہی کو بھگتنا ہوگا یوں لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بن جائے گی۔