عیسیٰ خیلوی کے گائے ہوئے پی ٹی آئی کے ترانوں کےخالق نذیر یاد اور میرے درمیان میانوالی سے اسلام آباد تک موضوع ِگفتگو میانوالی ہی رہاکہ دوہزار تیرہ میں میانوالی این اے 96 پر پیپلز پارٹی کے امیدوار خالد اعوان تھے،اب بھی وہی ہیں ۔اُس وقت ان کو چند سو ووٹ بھی نہیں ملے تھے ۔نون لیگ کے امیدوار حمیر حیات روکھڑی تھے ، اب بھی وہی ہیں ، انہیں 62ہزارووٹ ملے تھے ۔ پی ٹی آئی کے امیدوار امجد علی خان تھے ، اب بھی وہی ہیں ۔وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے ۔اب حمیر حیات اور خالد اعوان کے ووٹ پہلے سے بھی کچھ کم ہونگے۔اُس کی کئی وجوہات ہیں ۔ بڑی وجہ عمران خان (جو پاکستان کے واضح ترین امکانی وزیر اعظم ہیں ) کا میانوالی کاہونا ہے۔میانوالوی تعصب کا یہ عالم ہے کہ میانوالی کاایک فوک ماہیا ہے ۔دنیا چانجی ہے ۔اساں تیڈے دشمن سہی میانوالی تاں سانجھی ہے۔(ہم آپس دشمن سہی مگر میانوالی کا ہونے کی سانجھ تو ہے نا۔)میانوالی این اے 95 پر نون لیگ کا امیدوار عبیداللہ شادی خیل ہے۔ پچھلے الیکشن میں بھی وہی تھے۔عمران خان کے مقابلے میں ہار گئے اب بھی ہار جائیں گے۔چند دن پہلے اُنہوں نے کسی کے سامنے امجد خان کا گلہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’امجد خان نے زیادتی کی تھی ۔ہم دوست تھے ۔وہ خود پی ٹی آئی میں چلا گیا تھا ۔مجھے ساتھ لے کر نہیں گیا تھا‘‘۔میری اطلاعات کے مطابق اب بھی اگر عمران خان انہیں کہہ دے کہ ’’آپ الیکشن سے دستبردار ہوجائیں اور پی ٹی آئی میں شامل ہوجائیں ‘‘ تو وہ ایک لمحہ بھی دیر نہیں کریں گے۔کیا کریں ۔اُس حلقے میں توجگہ جگہ ایسے بینر لگے ہوئے ہیں کہ ووٹ مانگ کر شرمندہ نہ کیجئے ہم عمران خان کے ساتھ ہیں ۔
اسلام آباد میں میزبان مظہر برلاس تھے۔ان کے ساتھ راولپنڈی اور اسلام آباد کے تمام انتخابی حلقوں کا دورہ کیا۔ایک تجزیے پر ہم دونوں تقریباً متفق ہیں ۔آغاز ٹیکسلا سے کیا ۔جہاں چوہدری نثار علی خان آزادامیدوار ہیں ۔وہاں جا کرلگاکہ نون لیگ کے امیدوار ممتاز خان کو کھڑا ہی صرف اسی لئے کیا گیا ہے کہ چوہدری نثار علی خان کامیاب نہ ہوسکیں ۔پی ٹی آئی کے امیدوار غلام سرور خان کی کامیابی واضح نظر آئی ۔مجھےدھچکا لگا کیونکہ زیادہ ترتجزیے چوہدری نثار کے حق میں تھے۔میں نے مظہر برلاس سےکہا ’’باقی حلقے بعد میں دیکھتے ہیں پہلے چوہدری نثار علی خان کے دوسرے حلقے میں چلیں ۔ہم کلر سیداں آگئے ۔کافی دیر سارے حلقے میں گھومتے رہے ۔یہاں بھی وہی بات کہ نون لیگ نے راجہ قمر الاسلام کو کھڑا ہی چوہدری نثار علی خان کےلئے کیا ہے۔وہ اگرچہ آج کل جیل میں ہیں اوران کا بارہ سالہ بیٹا اور ان کی بیٹی بڑی کامیابی سے انتخابی مہم چلا رہی ہیں ۔وہاں سے پی ٹی آئی کے امیدوار کرنل ریٹائرڈ اجمل صابر ہیں جنہوں نے دوہزار تیرہ میں چوہدری نثارکے مقابلے میں باسٹھ ہزار ووٹ لئے تھے ۔ اب اس سیٹ پر نون لیگ کے ووٹ دو حصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ۔یہاں بھی کرنل اجمل صابر کی کامیابی یقینی دکھائی دی ۔سوچتا ہوں جیپ کا ڈرائیو راگر دونوں سیٹوں سے ہار گیا تو کیا ہوگا۔
مظہر برلاس نے ٹی وی پروگرام کرنا تھا سو ہم اپنا سروے چھوڑ کر واپس اسلام آباد آگئے ۔ میں نے تنویر حسین ملک کو ساتھ لیا اور جہلم کےلئے نکل کھڑا ہوا ۔ شام سات بجے ہم جہلم پہنچ گئے رات دوبجے تک وہیں رہے۔ نون لیگ کے سابق ایم این اے چوہدری مطلوب مہدی کے حلقے میں گئے ۔ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار فواد چوہدری ان کے مقابلے میںساڑھے چھ ہزار ووٹ سے ہار گئے تھے مگر اس وقت حلقے کی صورتحال بالکل بدلی ہوئی تھی جدھر جاتے تھے چوہدری فواد ہی نظر آتا تھا ۔کئی جگہوں پر اس ترانے کے بول سننے کو ملے ۔’’آیا فواد آیا۔ یارو سواد آیا ‘‘۔اتفاقاً زیادہ تر ایسے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں جنہوں نے پچھلی بار راجہ مطلوب کو ووٹ دئیے تھے اور اس مرتبہ چوہدری فواد کو ووٹ دے رہے تھے ۔اس تبدیلی کا سبب پوچھا تو یہی جواب ملا کہ اب ہمارے لئے ممکن نہیں رہا کہ ہم ’’لیگ ‘‘ کے امیدوار کوووٹ دیں ‘‘ایک ووٹر نے کہا کہ چوہدری مطلوب ان چند ایم این ایز میں سے ہے جنہوں نے اسمبلی کے فلور پر ایک جملہ بھی نہیں بولا ۔بولنے والے گونگوں سے نمائندگی نہیں کرایا کرتے۔رات گیارہ بجے ہم جہاں تھے پتہ چلا کہ فوادچوہدری بھی یہیں آنے والے ہیں ۔ انہیں پی ٹی آئی کے زیرک اور سمجھدار ترجمان ہونے کی وجہ سے ایک دنیا جانتی ہے ۔ہم نے سوچا چلو کچھ ان کے انتخابی مہم کے کمالات بھی دیکھیں ۔ہم بھی بیٹھ گئے۔فواد چوہدری سےملاقات ہوئی ۔جس صاحب کے پاس وہ آئے تھے اُس نے بتایا کہ پچھلی مرتبہ اس علاقہ سے چوہدری فواد کوبالکل ووٹ نہیں پڑے تھے اوراس مرتبہ اس علاقے سے شاید ہی کوئی ووٹ ایسا ہو جوچوہدری فواد کی بجائے کسی اور ملے ۔
محسوس ہوا کہ فواد چوہدری وہاں سے ایک بڑے مارجن کے ساتھ جیت رہے ہیں ۔دیہی علاقے کے کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی ۔ان کے حلقے میں پی ٹی آئی کے امیدوار سابق گورنر چوہدری الطاف کے فرزند فرخ الطاف ہیں وہ ایک زمانے میں ضلع جہلم کے ناظم بھی رہ چکے ہیں ۔دیہی سیاست کے سارے رموز کے ماہر ہیں ۔ان کے مقابلے میں نون لیگ کے امیدوار ندیم خادم ہیں جو سابق ایم این اے چوہدری خادم حسین کے بیٹے ہیں ۔لوگوں کا خیال تھا کہ اگر ندیم خادم ایم پی اے کا الیکشن لڑتے تو عین ممکن ہے جیت جاتے ۔ایم این اے کا الیکشن جیتنا ان کےلئے ممکن نہیں ۔رات چار بجے اسلام آباد پہنچے ۔صبح بیدارہوا تو پتہ چلا کہ جہاں قیام ہے یہ حلقہ این اے 53 ہے۔یہاں سے ماضی کےوزیراعظم اور مستقبل کےوزیر اعظم یعنی عمران خان اورشاہد خاقان عباسی آمنے سامنے ہیں ۔میں نے ساڑھے گیارہ بجے دن کے برنچ کےلئے ایک چھپر ہوٹل کا رخ کیا جو خاصا آباد تھا ۔مری سے تعلق رکھنے والے بیرے سے بڑی دلچسپ گفتگو ہوئی ۔شاہد خاقان عباسی کے متعلق کہنے لگا ۔’’وہ مری سے بھی ہار جائے گا اسلام آباد میں اسے کس نے ووٹ دینے ہیں ‘‘۔اسلام آباد میں اس لئے بھی تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہےکہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کا شہر ہے ۔خودعمران خان یہاں رہتا ہے ۔بنی گالہ اسلام آباد کا حصہ ہے۔مظہر برلاس آگئے اور ہم نے پھر حلقہ نوردی شروع کردی ۔این اے54میں داخل ہوئے یہاں پی ٹی آئی کےاسد عمر اور نون لیگ کے انجم وکیل میں مقابلہ ہے ۔دونوں ایک ایک مرتبہ ایم این اے رہ چکے ہیں بس اسد عمر کو یہ ایج حاصل ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں اور اسلام آباد پی ٹی آئی کا شہر ہے ۔ایک امکان یہ بھی ہے کہ الیکشن سے پہلے نیب انجم وکیل کوزمینوں کے فراڈ میں گرفتار کرلے گی ۔اسلام آباد سے نون لیگ کے تین سابق ارکان ِ اسمبلی نے بھی پی ٹی آئی شمولیت اختیار کی ہے ۔بزرگ سیاست دان سید ظفر علی شاہ ،فرحانہ قمر اور تسنیم صدیقی نے۔نیلو فر بختیار تو کافی پہلے پی ٹی آئی میں آ چکی ہیں۔چلتے چلتے ہم این اے 52میں پہنچ گئے ۔یہاں پیپلز پارٹی کا امیدوار سابق ڈپٹی اسپیکر حاجی نواز کا بھائی افضل کھوکھرہے مگرمقابلہ نون لیگ کے ڈاکٹر فضل چوہدری اور پی ٹی آئی کے نوجوان امیدوار راجہ خرم نواز کے درمیان ہے ۔راولپنڈی میں شیخ رشید کی دونوں نشستوں سے کامیابی کے بہت زیادہ امکانات ہیں ۔ان کا مقابلہ نون لیگ کے امیدوار چوہدری دانیال اور حنیف عباسی سے ہے اور دونوں بہت کمزور ہیں ۔راولپنڈی میں نون لیگ کی تباہی کا پہلا سبب تو کیپٹن صفدر کی ریلی بنی۔ دوسری وجہ ایفیڈرین کیس بنا ہوا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)