• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان عوامی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے وجود میں آیا تھا لیکن نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود نہ تو یہاں صحیح معنوں میں جمہوریت پنپ سکی ہے اور نہ عوامی جمہور کا زمانہ آسکا ہے۔ وجوہات جو بھی رہی ہوں، ریاستی ادارے اور سیاستدان اس میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ 2007ءمیں فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے سامنے افتخارمحمد چوہدری کے حرف انکار کے بعد عوامی قوت کے ذریعے آمریت کے خاتمے، جمہوریت کی آمد اور عدلیہ کی بحالی سے بجا طور پر یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ اس نئی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اب تمام ادارے اپنے لئے مقرر کردہ آئینی حدود میں رہ کر وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں گے۔ مگر صدر، چیف جسٹس اور آرمی چیف کے حالیہ بیانات سے بالعموم یہی تاثر لیا گیا کہ ادارے اپنا آئینی کردار قبول کرنے کے بجائے ابھی تک اختیارات اور ایک دوسرے پر بالادستی حاصل کرنے کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے والی ہے اور آنے والے انتخابات میں چند ماہ رہ گئے ہیں، شخصیات اور اداروں کے درمیان اس طرح کی کیفیت ملک و قوم کے لئے سودمند نہیں ہے۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اس وقت ملک نازک دوراہے پر کھڑا ہے اور اسے اندرونی و بیرونی طور پر شدید خطرات لاحق ہیں لیکن ان سے نکلنے کا واحد راستہ باہمی کشمکش کے بجائے آئین کی بالادستی کو تسلیم اور عوام سے رجوع کرنا ہے۔ اس کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ آئین کی مقررکردہ حدود میں رہ کر تمام ادارے اپنے فرائض انجام دیں وہیں یہ بھی نہایت اہم ہے کہ شفاف الیکشن کے ذریعے انتقال اقتدار کو یقینی بنایا جائے۔ انتخابات کے شفاف اور غیرجانبدارانہ ہونے کے حوالے سے ابھی تک ایک شرط پوری ہوئی ہے کہ آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن وجود میں آ گیا ہے لیکن قابل اعتماد عبوری حکومت اور شفاف انتخابی فہرستوں جیسی شرائط پوری ہونا ابھی باقی ہیں۔ ملک کے اندر ایسے علاقے موجود ہیں جہاں فوجی آپریشن اور ٹارگٹ کلنگ کے سائے میں انتخابات منعقد ہوتے نظر آرہے ہیں جس کی وجہ سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ ان حالات میں بلوچستان میں انتخابات کا انعقاد ہو سکے گا؟ اور کیا کراچی میں آزادانہ انتخابی عمل ممکن ہوگا جہاںفضاآلودہ ہی اس لئے کی جا رہی ہے کہ ووٹر یہ سمجھنے لگے کہ وہ پولنگ اسٹیشن نہیں جاسکتا۔ ووٹرز کے اندر خوف اور دہشت کی اس فضا ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ فوری طور پر پورے ملک میں فوجی آپریشن ختم کرنے اور عام معافی کا اعلان کیا جائے اور کراچی میں انتخابی عمل کو مفاہمت کی سیاست کی نظر نہ ہونے دیا جائے۔ پاکستان میں اگرچہ الیکشن اور دھاندلی لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوتی ہے جسے الیکشن کا نام دے دیا جاتا ہے لیکن انتخاب کے علاوہ تبدیلی کا کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے۔ معاشرے میں ہونے والی بحث کے نتیجے میں لوگ پُرامید ہو گئے ہیں کہ الیکشن کے ذریعے ان کے دکھوں کا مداوا ہو سکتا ہے اور ووٹ کی پرچی کے ذریعے تبدیلی آ سکتی ہے۔ اگر اب بھی ان کی امیدیں دم توڑ گئیں اور ان کی آنکھوں نے دیکھ اور کانوں نے سن لیا کہ الیکشن شفاف نہیں ہو سکتے اور ان کے نتیجے میں ہمیشہ زرداری و گیلانی حکومت میں آتے ہیں اور الیکشن انہی حوالوں سے جانے پہچانے جاتے ہیں تو پھر لوگ انتخاب کے بجائے انقلاب کی طرف نکلیں گے۔ اس لئے حکمرانوں اور ریاست کے تمام اداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ آنے والے انتخابات کو قابل قبول اورنتیجہ خیز بنانے کے لئے تمام شرائط کو پورا کریں۔آمدہ انتخابات کے پیش نظر جماعت اسلامی عوام تک مسلسل یہ پیغام پہنچا رہی ہے کہ جن پارٹیوں اور لوگوں کو انہوں نے چھ چھ اور سات سات دفعہ الیکشن میں ووٹ دیئے ہیں اور ان کے ووٹوں کی وجہ سے وہ مرکز اور صوبوں میں برسراقتدار آئے ہیں،انہوں نے مہنگائی و بے روزگاری، ٹارگٹ کلنگ، بدامنی اور لاقانونیت کا تحفہ دیا اورکرپشن اور کمیشن کے کلچر کو فروغ دیا ہے لہٰذا اپنے ووٹ دینے کے رویّے کو تبدیل کریں اور ان لیڈروں اور پارٹیوں کی حمایت کریں جو شفاف کردار کے حامل ہیں اور جنہیں اس سے پہلے آزمایا نہیں گیا۔ اگر ہم کرپشن فری سوسائٹی قائم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا پہلا مرحلہ کرپشن فری گورنمنٹ ہے۔ چوروں کے ذریعے چوروں کے ہاتھ نہیں کاٹے جاسکتے، ڈاکوو¿ں اور لٹیروں کے ذریعے ڈاکوو¿ں اور لٹیروں سے نجات حاصل نہیں کی جا سکتی اور امریکی گماشتوں اور امریکی ایجنڈے اور ترجیحات پر عمل کرنے والوں کے ذریعے امریکہ کو اس خطے سے نہیں نکالا جا سکتا ۔
چند دن پہلے سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا تفصیلی فیصلہ سنایا ہے۔ اس کیس میں جماعت اسلامی کا نام بھی آتا رہا ہے۔ ہمارا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ یہ الزام من گھڑت ہے۔ جماعت اسلامی اپنے وکیل کے ذریعے پہلے دن سے سپریم کورٹ میں رضاکارانہ طور پر پیش ہوتی رہی ہے اور اس کی طرف سے حلف نامہ بھی جمع کرایا گیا ۔ اورہم ہر طرح کی تحقیقات کے لئے تیار ہیں بلکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل درآمد کرتے ہوئے تقسیم شدہ رقم واپس لی جائے اورسیاست میں ایجنسیوں کی مداخلت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کیا جائے۔
تازہ ترین