شہباز احمد
رواں سال عام انتخابات سے قبل ہونے والی نئی حلقہ بندیوں کے بعد فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے حلقوں کی تعداد 11 سے کم ہو کر 10 اور صوبائی حلقوں کی تعداد 22 سے کم ہو کر 21 ہو گئی ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ پانچ سال کے دوران فیصل آباد میں ووٹروں کی تعداد آٹھ لاکھ 53 ہزار 879 کے اضافے سے 44 لاکھ 77 ہزار 238 ہو گئی ہے۔ اب25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے لئے فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے لئے مجموعی طور پر 112 اور صوبائی اسمبلی کے لئے 324 امیدواروں کے مابین مقابلہ ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ ن نے زیادہ تر حلقوں میں اپنے سابق امیدواروں کو برقرار رکھا ہے۔ تحریک انصاف نے نصف کے قریب ٹکٹیں دیگر جماعتوں سے آنے والے سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو دی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی نے اپنے اہم رہنماؤں کے پارٹی چھوڑ جانے کے بعد نئے چہروں کو آزمانے کے لئے میدان میں اتارا ہے۔
فیصل آباد شہر سے قومی اسمبلی کی چار اور صوبائی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے مابین ہے۔ این اے 110 کا حلقہ ملت روڈ، گلستان کالونی، بھولے دی جھگی اور دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہاں مسلم لیگ ن کے سابق وفاقی وزیر رانا محمد افضل اور تحریک انصاف کے راجہ ریاض مد مقابل ہیں۔ دونوں امیدوار پرانے پارلمنٹرین ہیں اور ان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہونے کی توقع ہے۔ اس حلقے کے نیچے صوبائی حلقوں میں بھی دونوں جماعتوں کے امیدواروں میں کڑا مقابلہ متوقع ہے۔ پی پی 116 میں مسلم لیگ ن کے فقیر حسین ڈوگر اور محبوب عالم سندھو کے درمیان مقابلہ ہے۔ پی پی 117 میں ن لیگ نے مہر حامد رشید جبکہ پی ٹی آئی نے ڈاکٹر حسن مسعود کو ٹکٹ دیا ہے یہ دونوں اپنا پہلا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ این اے 109 کا حلقہ پیپلز کالونی نمبر ایک، دو اور مدینہ ٹاون سمیت ملحق علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہاں مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں عبدالمنان اور تحریک انصاف کے امیدوار فیض اللہ کموکا پارٹی ووٹ بنک کے علاوہ اپنی اپنی برادریوں کے بل بوتے پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
عام رائے یہ ہے کہ یہاں جو بھی امیدوار جیتا اس کی فتح کا مارجن انتہائی کم رہنے کا امکان ہے۔ اس کے ذیلی صوبائی حلقوں میں بھی دونوں جماعتوں میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔ یہاں پی پی 114 سے ن لیگ کے شیخ اعجاز اور پی ٹی آئی کے لطیف نذر جبکہ پی پی 115 سے تحریک انصاف کے ڈاکٹر اسد معظم اور مسلم لیگ ن کے رانا علی عباس مد مقابل ہیں۔ اسد معظم اس حلقے سے دو بار پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی رہے ہیں ۔ گزشتہ انتخابات میں وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر امیدوار تھے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کے مدمقابل رانا علی عباس اگرچہ پہلی مرتبہ انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں وہ سابق صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن رہ چکے ہیں علاقہ میں ان کا اپنا خاندانی اثرورسوخ موجود ہے۔ این اے 108 کا علاقہ گھنٹہ گھر، ماڈل ٹاون، سمن آباد، ناظم آباد اور وارث پورہ و دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق وفاقی وزیر عابد شیر علی اور تحریک انصاف کے فرخ حبیب میں سخت مقابلہ ہے۔ اس کے ذیلی صوبائی حلقے پی پی 113 سے سابق صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ امیدوار ہیں ان کا تحریک انصاف کے امیدوار وارث عزیز کے مابین بھی کڑے مقابلے کی توقع ہے۔ پی پی 112 میں مسلم لیگ ن کے میاں طاہر جمیل کی پوزیشن بظاہر بہتر اور مستحکم ہے تاہم تحریک انصاف کے امیدوار عدنان انور رحمانی کو اپنی برادری کی بھرپور سپورٹ کے سبب یہاں بھی کڑا مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔ این اے 107 میں مسلم لیگ ن کے حاجی اکرم انصاری کا مقابلہ تحریک انصاف کے شیخ خرم شہزاد سے ہے۔ یہاں اکرم انصاری اپنے حریف سے بظاہر آگے نظر آتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ حلقے کی سب سے اہم انصاری برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور گزشتہ پانچ انتخابات میں اسی وجہ سے بڑے مارجن کے ساتھ کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ شیخ خرم 2013 میں اس حلقے کے نیچے پی پی 72 سے ایم پی اے رہ چکے ہیں اور پارٹی کارکنوں کے تعاون سے بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔ یہاں صوبائی حلقہ پی پی 110 میں بھی مسلم لیگ نواز کے امیدوار ملک محمد نواز کے مقابلے میں تحریک انصاف کے امیدوار خیال کاسترو کو مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسرے صوبائی حلقے پی پی 111 میں دو آزاد امیدوار خواجہ محمد اسلام اور نجم حسین عوامی پذیرائی میں آگے نظر آتے ہیں اور دونوں ہی کو ان کی پارٹیوں نے ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ خواجہ اسلام کا کہنا ہے کہ وہ جیت کر یہ نشست مسلم لیگ ن کو پیش کریں گے جبکہ نجم حسین بھی کامیابی کی صورت میں اپنی جماعت تحریک انصاف کے ساتھ چلنے کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔ یہاں ن لیگ کے امیدوار اسرار احمد منے خان ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار شکیل شاہد ہیں۔
1988سے 2013تک کون جیتا کون ہارا
دیہی علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کی چھ اور صوبائی اسمبلی کی 13 نشستوں پر زیادہ تر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے امیدواروں میں مقابلہ ہے۔تاہم دو حلقوں میں دو آزاد امیدوار بھی کافی نمایاں ہے جبکہ پیپلز پارٹی دو نشستوں پر زیادہ متحرک انداز سے انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ این اے 101 چک جھمرہ اور کھرڑیانوالہ کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہاں مسلم لیگ ن کا کوئی امیدوار موجود نہیں ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ظفر ذوالقرنین ساہی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جبکہ عاصم نذیر نے پارٹی ٹکٹ لینے کی بجائے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کو ترجیح دی ہے۔ دونوں امیدواروں کا ذیادہ انحصار اپنے خاندانی روابطہ اور برادری ووٹ بنک پر ہے۔ یہاں ذیلی صوبائی حلقے پی پی 97 سے سابق سپیکر محمد افضل ساہی جبکہ پی پی 98 سے ان کے بیٹے علی افضل ساہی پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ مسلم لیگ ن نے صوبائی حلقوں میں اپنے سابق امیدواروں آزاد علی تبسم اور رانا شعیب ادریس کو ہی برقرار رکھا ہے۔ یہاں تینوں نشستوں پر مقابلہ سخت رہنے کی توقع ہے۔ این اے 102 جڑانوالہ میں مسلم لیگ ن کے امیدوار اور سابق وفاقی وزیر طلال چوہدری کو اپنے مدمقابل تحریک انصاف کے امیدوار ملک نواب شیر وسیر سے کڑا مقابلہ درپیش ہے۔ یہاں ذیلی صوبائی حلقوں میں بھی دونوں جماعتوں کے مابین بھی سخت مقابلے کا امکان ہے۔ پی پی 99 میں چوہدری علی اختر تحریک انصاف جبکہ چوہدری اکبر گجر مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔ پی پی 100 میں عفت معراج مسلم لیگ ن جبکہ چوہدری ظہیر الدین پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پی پی 101 میں ن لیگ کے رائے حیدر کھرل کا مقابلہ تحریک انصاف کے غلام حیدر باری سے ہے۔ این اے 103 تحصیل تاندلیانوالہ کے علاقوں پر مشتمل ہے اور یہاں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچ امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے علی گوہر بلوچ تحریک انصاف کے سعد اللہ بلوچ کے بھانجے ہیں اور دونوں میں سخت مقابلہ نظر آ رہا ہے تاہم پیپلز پارٹی کے شہادت بلوچ پہلے بھی دو بار اس حلقے سے جیت چکے ہیں اور اس بار بھی ان سے کسی سرپرائز کی توقع کی جا رہی ہے۔ یہاں صوبائی اسمبلی کے ذیلی حلقوں پی پی 102 اور 103 میں اصل مقابلہ ن لیگ اور پی ٹی آئی میں ہے۔ این اے 104 تحصیل سمندری اور تاندلیانوالہ کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں مسلم لیگ ن کے شہباز بابر گجر اور تحریک انصاف کے سردار دلدار احمد چیمہ میں مقابلہ ہے جبکہ آزاد امیدوار خالد محمود گل بھی کافی متحرک ہیں۔ اگر جٹ برادری کا ووٹ دلدار چیمہ اور خالد گل میں تقسیم ہوا تو اس کا فائدہ شہباز بابر کو ہو سکتا ہے۔ یہاں ذیلی صوبائی حلقوں میں مسلم لیگ ن کی نسبت تحریک انصاف کو مشکلات کا سامنا ہے۔ این اے 105 ڈجکوٹ، سلونی جھال اور تحصیل صدر کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں تحریک انصاف کی ٹکٹ حالات کی ستم ظریفی کے سبب رانا آصف توصیف سے رضا نصر اللہ گھمن کو منتقل ہو چکی ہے تاہم اب اصل مقابلہ مسلم لیگ ن کے میاں فاروق اور آزاد امیدوار مسعود نذیر کے مابین ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہاں صوبائی حلقوں میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف مد مقابل ہیں۔ این اے 106 سدھار، ٹھیکری والا اور نڑ والا کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہاں مسلم لیگ ن کے صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ، تحریک انصاف کے نثار جٹ اور پیپلز پارٹی کے سعید اقبال انتخابی مہم میں کافی متحرک ہیں تاہم اصل مقابلہ رانا ثنا اللہ اور نثار جٹ میں نظر آ رہا ہے۔ ذیلی صوبائی حلقے پی پی 108 میں ن لیگ کے اجمل آصف جبکہ پی پی 109 میں ن لیگ کے ظفر اقبال ناگرہ کے مقابلے میں تحریک انصاف کے ندیم آفتاب سندھو کو مشکلات کا سامنا ہے۔
میاں زاہد سرفرازفیصل آبادکی مقامی اور پاکستان کی قومی سیاست کا ایک بڑا نام ہے۔ ایک وقت تھاکہ انہیں فیصل آباد کی پہچان قرار دیا جاتا تھا۔ سابق صدر ایوب خان کے نافذ کردہ بی ڈی سسٹم کے تحت1965 کے عام انتخابات میں ان کا نام ملکی سیاست میں ابھر کر سامنے آیا۔اس وقت ملک کے 22خاندانوں کے سرخیل اور سہگل فیملی کے اہم رکن رفیق سہگل اور میاں زاہد سرفراز کے مابین انتخابی مقابلہ ہوا۔اگرچہ یہ انتخاب ایک حلقے کا تھا لیکن ملک بھر میں سرمایہ داروں کے خلاف جو فکری سیاسی مہم چل رہی تھی اس کے زیر اثرشہر بھر کے لوگ اس میں دلچسپی اور اپنے اپنے انداز میں حصہ لے رہے تھے۔ایک عمومی عوامی فضا بنی ہوئی تھی کہ سرمایہ داروں کوا ڑانا ہے۔اگرچہ میاں زاہد سرفراز نے بھی بہت پرجوش اور سرگرم مہم جاری رکھی ہوئی تھی اور دیکھنے میں آیا کہ شہر بھر میں لوگ اپنے اپنے محاذ پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے علاقوں کے بی ڈی ممبرز پر دباو ڈال رہے ہیں کہ مسلم لیگ (کونسل ) کے میاں زاہد سرفراز کو ووٹ دینا ہے۔ تاہم جب نتیجہ آیا تو مسلم لیگ (کنونشن ) کے امیدوار رفیق سہگل 311ووٹ لے کر جیت گئے جبکہ میاں زاہد سرفراز کو 271ووٹ ملے۔ بعدازاں میاں زاہد سرفراز نے 1970میں شہر کے مرکزی علاقے سے پیپلز پارٹی کے معروف ٹریڈ یونین لیڈراور ترقی پسند انقلابی رہنما مختار رانا کے مقابلے میں انتخاب لڑا۔ اس انتخاب میں مختار رانا نے 83ہزار 927اور میاں زاہد سرفراز نے 19680ووٹ لئے۔ مختار رانا بعد میں نااہل ہوگئے اور ان کی نشست پر 1973میں ضمنی انتخاب ہوا تو اس پر تین امیدواروں نے حصہ لیا ۔ پیپلز پارٹی نے معروف ترقی پسند شاعر افضل احسن رندھاوا مرحوم کو ٹکٹ دیا جبکہ مختار رانا گروپ کی جانب سے ان کی چچا زاد بہن زرینہ رانا اور مسلم لیگ کونسل کی طرف سے میاں زاہد سرفراز امیدوار تھے۔ اس الیکشن میں افضل احسن رندھاوا کامیاب رہے۔ 1977کے کے انتخابات میں"پی این اے"کے ٹکٹ پر میاں زاہد سرفراز اور پیپلز پارٹی کی طرف سے میاں محمد اقبال امیدوار تھے۔ اس انتخاب میں زاہد سرفراز 44870ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ میاں محمد اقبال 42ہزار 412ووٹ حاصل کئے۔ پنجاب سے پاکستانی قومی اتحاد نے اس وقت صرف پانچ نشستیں جیتی تھیں ان میں فیصل آباد سے واحد سیٹ میاں زاہد سرفراز کی تھی۔ 1985کے غیر جماعتی انتخاب میں میاں زاہد سرفراز اور راجہ نادر پرویز کا مقابلہ ہوا جس میں نادر پرویز جیت گئے۔ 1988میں مسلم لیگ کی قیادت نے میاں زاہد سرفراز کی بجائے راجہ نادر پرویز کو ٹکٹ دے دیا جس کا شہر بھر میں شدید ردعمل ہوا اور دھوبی گھاٹ میں بہت بڑا تاریخی جلسہ ہوا۔ فیصل آباد کی سیاسی تاریخ میں یہ جلسہ بہت بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ شہر بھر سے لوگوں نے اس جلسے میں شرکت کی لیکن پارٹی ٹکٹ تبدیل نہیں ہوا۔ اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار احمد سعید اعوان مرحوم کے مقابل میاں زاہد سرفراز آزاد حیثیت سے انتخابی میدان میں آگئے ۔اس نشست پراحمد سعید اعوان 54ہزار 438ووٹ لے کر کامیاب رہے اور میاں زاہد سرفراز 49ہزار 745ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے جبکہ راجہ نادر پرویز صرف چار ہزار ووٹ حاصل کر سکے۔یوں مسلم لیگ ن کے انتخابی ٹکٹ الاٹ کرنے کے خلاف عوامی احتجاج اور مخالفت نے ثابت کر دیا کہ عوامی فیصلہ درست تھا۔ اس انتخاب کے تھوڑے عرصے بعد 1989میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 57میں ضمنی انتخاب ہوا ۔ یہاں سے 1988کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار رانا محمد اسلم خان کے مقابل چوہدری نذیر مرحوم آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے۔انہوں نے اس وقت قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے بیک وقت کامیابی حاصل کی تھی اور بعد میں این اے 57جڑانوالہ کی نشست چھوڑ دی تھی۔ اس حلقے میں ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن نے زبردست عوامی دباو پرسابق فیصلے کی تلافی کرتے ہوئے میاں زاہد سرفراز کو ٹکٹ دیا۔ پیپلز پارٹی نے اس مرتبہ اپنے پرانے ٹکٹ ہولڈر کو نظر انداز کرتے ہوئے چوہدر ی خورشید مرحوم (سابق جج ہائیکورٹ) کو امیدوار نامزد کیا۔ یہ مقابلہ بھی عوامی اور سیاسی حلقوں میں زبردست دلچسپی کا حامل رہا جو میاں زاہد سرفراز نے جیت لیا۔1990میں میاں زاہد سرفراز کا پیپلز پارٹی کے امیدوار فضل حسین راہی کے ساتھ مقابلہ ہوا جس میں وہ 62ہزار 536 ووٹ لے کر کامیاب رہے۔1993میں چوہدری شیر علی مسلم لیگ ن اور میاں زاہد سرفراز مسلم لیگ جونیجو کے ٹکٹ پر مد مقابل آئے ۔اس انتخاب میں شیر علی نے 66ہزار 98ووٹ لئے جبکہ میاں زاہد سرفراز کو 50ہزار ووٹ ملے۔1997میں این اے 57پر پھر میاں زاہد سرفراز اور مسلم لیگ ن کے رانا زاہد توصیف کے مابین مقابلہ ہواجو زاہد توصیف نے جیت لیا۔ بعدازاں جب مرکزی حکومت برطرف ہونے کے بعد نگران حکومت بنی تو اس میں میاں زاہد سرفراز کو وزیر داخلہ لے لیا گیا۔2002میں شہر کے مرکزی علاقے این اے 85سے میاں زاہد سرفراز اور راجہ نادر پرویز کے مابین مقابلہ ہواجس میں راجہ نادر پرویز کامیاب رہے۔
چوہدری شیر علی اور رانا ثنا اللہ کا چرچا
گزشتہ دس سال سے مسلم لیگ ن کے دو دھڑوں کی سیاسی اور انتخابی سیاست شہری اور سیاسی حلقوں کی گہری دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس دھڑے بندی کا آغاز اس وقت ہوا جب 2008میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 59کا ضمنی الیکشن ہوا جس میں مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار رانا ثنا اللہ اور پیپلز پارٹی کے اسماعیل سیلا کے مابین مقابلہ ہوا۔ رانا ثنا اللہ کو کامیابی تو ملی لیکن اس انتخاب میں انہیں یہ زبردست شکایت رہی کہ چوہدری شیرعلی نے کھل کر ان کی مخالفت کی حالانکہ رانا ثنا اللہ مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد سے چوہدری شیر علی کے بہت قریب تھے ۔ وہ اٹک قلعے میں قید چوہدری شیر علی سے ملاقات کے لئے بھی باقاعدہ جایا کرتے تھے لیکن جب ان کے درمیان باہمی اختلافات شروع ہوئے اس وقت رانا ثنا اللہ شریف برادران کے بہت قریب ہوچکے تھے۔یہ بھی اتفاق ہے کہ سیاسی حلقوں کے مطابق شہباز شریف کے نزدیک چوہدری شیر علی پسندیدہ شخصیت نہیں تھے۔ چنانچہ جب رانا ثنا اللہ نے پارٹی کے اندر چوہدری شیرعلی کو کارنر کرنا شروع کیا تو شہباز شریف کی انہیں خاموش حمایت بھی حاصل رہی۔ گزشتہ دس سال کے دوران 2013 کے انتخابات ، 2015کے بلدیاتی انتخابات اور پھر 2018کے حالیہ انتخابات کے لئے جو پالیسی رانا ثنا اللہ نے اختیار کی وہی پارٹی قیادت نے قبول کر لی۔ 2013کے انتخابات میں چوہدری شیر علی صرف اپنے بیٹے عابد شیر علی اور سابق ایم پی اے میاں طاہر جمیل کو ٹکٹ دلوا سکے جبکہ دیگر تمام ٹکٹ رانا ثنا اللہ کی تائید سے دئیے گئے ۔بلدیاتی انتخابات میں تو چوہدری شیر علی انتہائی بے بس نظر آئے اور ثنا اللہ گروپ حاوی رہا۔ چوہدری شیر علی کو مجبورا الگ آزاد حیثیت میں اپنے گروپ کو الیکشن لڑانا پڑا اور ایک اچھی خاصی تعداد میں ان کے نامزد امیدوار کامیاب بھی ہوئے ۔ بعدازاں رانا ثنا اللہ نے میئر شپ کے لئے ملک رزاق کو اور چوہدری شیر علی نے شیراز کاہلوں کو نامزدکیا۔ ثنا اللہ گروپ کے امیدوار کے پاس پارٹی ٹکٹ تھا جبکہ چوہدری شیر علی کے امیدوار آزاد حیثیت میں موجودتھے۔ تاہم رانا ثنا اللہ کا گروپ جیت گیا اور ملک عبدالرزاق میئر منتخب ہو گئے۔ اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ 2018کے الیکشن میں چوہدری شیر علی پارٹی فیصلوں میں بہت زیادہ بے بس نظر آئے وہ اپنے بیٹے سمیت کسی امیدوار کو پارٹی ٹکٹ نہ دلوا سکے۔فیصل آباد کی تمام نشستوں پر رانا ثنا اللہ کے امیدواروں کو ٹکٹ مل گئے۔چوہدری شیر علی نے میاں فیملی کے اندر اور کھلے عام بھی اس پر زبردست احتجاج کیا لیکن پارٹی قیادت کو اپنی بات نہ منوا سکے۔ یہ صورتحال چوہدری شیر علی کے لئے ذہنی طور پر بہت تکلیف دہ ہے کیونکہ ماضی میں ان کے بغیر یہاں پتہ بھی نہیں ہلتا تھا چہ جائیکہ اب انہیں کارنر کر دیا گیا ہے اور یہ حالات ان کے لئے سوہان روھ بن چکے ہیں۔ ماضی میں کبھی چوہدری شیر علی کو یہ شکایت میاں زاہد سرفراز کے حوالے سے تھی۔ زاہد سرفراز کے پارٹی چھوڑ جانے کے بعد چوہدری شیر علی فیصل آباد میں سیاہ و سفید کے مالک تھے ۔ وہ تین بار ایم این اے اور ایک مرتبہ میئر منتخب ہوئے ۔چوہدری شیر علی کے بعدان کابیٹا عامر شیر علی ایک بار میئر جبکہ عابد شیر علی تین مرتبہ ایم این اے منتخب ہوا چکا ہے لیکن جب سے حالات رانا ثنا اللہ کے کنٹرول میں آئے ہیں چوہدری شیر علی غیر متعلقہ ہو کر رہ گئے ہیں۔
1985کے غیر جماعتی انتخابات ،نئے چہرے سامنے آئے
پاکستان میں1985کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کروائے گئے جس میں بہت سے نئے چہرے اسمبلیوں میں پہنچے۔ پیپلز پارٹی نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا ۔ اس کے علاوہ راجہ نادر پرویز پہلی بار منتخب ہوئے ان کا مقابلہ میاں زاہد سرفراز سے تھا۔ چوہدری نذیر بھی اس وقت کے حلقہ این اے 71سے کامیاب ہوئے۔این اے 70غلام محمد آباد کے علاقے سے حنیف انصاری منتخب ہوئے اور تھوڑے عرصے بعد ایک حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ اس کے بعد ضمنی انتخاب کے لئے حاجی اکرم انصاری کو نامزد کو کیا گیا لیکن الیکشن نہ ہو سکا۔ اسی طرح فضل حسین راہی بھی پہلی مرتبہ منتخب ہوئے اور اسمبلی میں جنرل ضیا کے خلاف اپنی جذباتی تقریروں سے خوب مشہور ہوئے۔ اس انتخاب میںفیصل آباد سے قومی اسمبلی کے 10اور صوبائی اسمبلی کے20حلقوں سے کامیاب اور رنراپ امیدواروں کی تفصیل درج ذیل چارٹس کے ذریعے دی جا رہی ہے۔
چوہدری اور ساہی خاندان کی سیاست
فیصل آباد کی دیہی سیاست دو خاندانوں سے عبارت ہے۔ چوہدری نذیر فیملی جسے اب چوہدری فیملی کہا جاتا ہے اور دوسری ساہی فیملی جو 1979سے سیاست میں ہے۔ دونوں سیاسی خانوادوں میں ایک فرق موجود ہے کہ ساہی خاندان نے اپنی سیاست چک جھمرہ تحصیل کے ایک قومی اور دو صوبائی حلقوں تک محدود کر رکھی ہے جبکہ چوہدری فیملی کا اثرو رسوخ اور سیاسی مفادات ضلع فیصل آباد کے چھ قومی اور 13صوبائی حلقوں تک پھیلے ہو ئے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ چوہدری فیملی کے سربراہ چوہدری نذیر احمد مرحوم نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز اور عروج ضلع کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے دیکھا جس کے لئے انہیں ضلع بھر کے دیہی علاقوں کے چیئرمینز سے رابطہ کرنا اور ووٹ حاصل کرنا ہوتا تھا۔ ان سے قبل ضلع کونسل کی سیاست میں برادریوں کے جوڑ توڑ کے ذریعے چیئرمین بنتے رہے لیکن انہوں نے پہلی مرتبہ برادریوں سے بالاتر ہو کر اور تمام برادریوں کو ساتھ لے کر دیہی سیاست میں اپنی پوزیشن بنائی اور چیئرمین ضلع کونسل منتخب ہوئے۔انہوں نے دیہی علاقوں میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے حتی کہ آج بھی دیہی سیاست میں اس کے اثرات موجود ہیں۔1993میں انتخابی مہم کے دوران ان کا انتقال ہو گیا جس کے بعد ان کے بیٹوں زاہد نذیر، شاہد نذیر اور عاصم نذیر نے ان کی سیاسی میراث کو آگے بڑھایا اور آج تک ان کے کام کی بدولت ملنے والے فیض کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔چوہدری نذیر کے انتقال پر عمومی خیال تھا کہ ان کی جگہ ان کے بچے سنبھال نہیں سکیں گے لیکن ان کے بیٹے زاہد نذیر نے اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا اور ان کی سیاست و انداز سیاست کو آگے بڑھایا جس کے نتیجے میں انہیں بھی ضلع بھر میں تمام برادریوں کی زبردست حمایت حاصل ہے۔ وہ ضلع کونسل کی چیئرمین شپ کے علاوہ دیہی علاقوں پر مشتمل قومی اور صوبائی حلقوں میںاپنے اثر و رسوخ کی بدولت سیاسی جماعتوں کے لئے بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔زاہد نذیر اس وقت چیئرمین ضلع کونسل ہیں اور ان کے چھوٹے بھائی عاصم نذیر( سابق ایم این اے) این اے 101سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ ان کا بیٹا مسعود نذیربھی اپنا پہلا الیکشن این اے 105سے بطور آزاد امیدوار لڑ رہا ہے۔یہاں مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں فاروق ہیں۔ چوہدری نذیر مرحوم کی انتخابی تاریخ یوں ہے کہ 1985میں این اے 71سے ایم این اے منتخب ہوئے پھر 1988میں این اے 57سے آزاد اور این اے 61سے آئی جے آئی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔1990میں آئی جے آئی کے ٹکٹ پر این اے 61سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔شاہد نذیر 1993میں این اے60سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے اور 1997میں مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں فاروق سے ہار گئے۔ عاصم نذیر 2002،2008اور 2013میں این اے77سے مسلسل تین مرتبہ منتخب ہو چکے ہیں۔زاہد نذیر 2003میں ضلع ناظم اور 2015میں چیئرمین ضلع کونسل منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ 1997میں پی پی 43سے آزاد حیثیت میں منتخب ہو کر مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے۔2008میں انہوں نے این اے 76سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ موجودہ الیکشن کے دوران چوہدری فیملی اور مسلم لیگ کے مابین انتخابی ٹکٹوں کے حوالے سے دلچسپ آنکھ مچولی ہوتی رہی ۔اندرونی حقیت یہ ہے کہ چوہدری خاندان این اے 101اور این اے 105پر بوجوہ اپنا آزاد پینل بنا کر الیکشن لڑنا چاہتا تھا۔ و ہ اس انتظار میں تھے کہ کب مناسب موقع پر وہ اس کا اعلان کریںکیونکہ وہ مسلم لیگ کی قیادت کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے تھے ۔انہوں نے مسلم لیگ کی ٹکٹ پر اس شرط کے ساتھ الیکشن لڑنے کی آمادگی ظاہر کی تھی کہ دونوں علاقوں میں انہیں اپنی مرضی کے پینل بنانے کی اجازت ہولیکن اس پر مسلم لیگی قیادت تیارنہیں تھی۔ دونوں طرف انتظار کرو اور دیکھو کی صورتحال تھی کہ اس دوران 16مئی کو ساہی خاندان کے چوہدری غلام رسول ساہی (سابق ایم این اے) اور محمد افضل ساہی (سابق ایم پی اے) مسلم لیگ ن چھوڑ کر تحریک انصاف میں چلے گئے۔ پی ٹی آئی نے انہیں چک جھمرہ کی تینوں نشستوں کی ٹکٹیں دے دیں ۔اب این اے 101سے غلام رسول ساہی کے بیٹے ظفر ذوالقرنین ساہی، پی پی 97سے افضل ساہی کے بیٹے علی افضل ساہی اور پی پی 98سے افضل ساہی خود امیدوار ہیں۔ ایسے میں مسلم لیگ کے پاس چوہدریوں کا مطالبہ ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا جس پر این اے 101کو مسلم لیگ نے خالی چھوڑ کر عاصم نذیر کی حمایت کا اعلان کر دیااور نیچے دونوں صوبائی حلقوں میں اپنے امیدوار آزاد علی تبسم اور شعیب ادریس کو ٹکٹ جاری کر دیا۔اسی طرح این اے 105پر مسعود نذیر نے بھی آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابی مہم شروع کر دی۔ جہاں تک ساہی خاندان کا تعلق ہے افضل ساہی 1979سے1991تک ضلع کونسل کے رکن رہے۔وہ1988، 1993، 1997،2002اور 2013میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تاہم2008کے الیکشن میں انہیں پیپلز پارٹی کے حاجی لیاقت کے مقابلے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔افضل ساہی 2002میں ضلع کونسل کے نائب ناظم منتخب ہونے کے علاوہ دو دفعہ صوبائی وزیر اور ایک مرتبہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر بھی منتخب ہوئے۔ علاوہ ازیں ان کے بھائی غلام رسول ساہی 2002میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر این اے 75سے ایم این اے منتخب ہوئے جبکہ 2008میں پی پی کے طارق محمود باجوہ سے ہار گئے۔2013کے الیکشن میں وہ دوبارہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے۔ انہوں نے 2003میں زاہد نذیر گروپ کے امیدوار رانا زاہد توصیف کے خلاف ضلع کونسل کا الیکشن بھی لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔اب انہوں نے سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے اور اپنی جگہ اپنے بیٹے ظفر ذوالقرنین کو ایم این اے کا الیکشن لڑوا رہے ہیں۔ساہی خاندان ایک عرصہ سے اقتدار میں ہے اس دوران اہم وزارتیں ان کے پاس رہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومت سے علاقے کے لئے فنڈز کی انہیں کمی نہیں رہی۔ اس لئے تعمیراتی کاموں کے حوالے سے ان کے گہرے اثرات موجود ہیں پھر وہ علاقے میں دھڑے بندیوں کے ذریعے سیاست کو آگے بڑھاتے ہیں جو ان کی بنیادی طاقت ہے۔اب بھی وہ علاقائی دھڑے بندیوں اور برادریوں کے حوالے سے جوڑ توڑ کے ذریعے ایک مضبوط قوت شمار ہوتے ہیں۔ان کے گہرے اثر ورسوخ کا ہی نتیجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو چوہدری فیملی کے ساتھ تعاون کرنا پڑا ورنہ اندرون خانہ مسلم لیگی قیادت ان سے ناخوش تھی۔ اس علاقے میں اب کڑے مقابلے کا امکان ہے۔ چوہدری عاصم نذیر نے تادم تحریر اپنا پینل نہیں بنایا جبکہ دونوں ملحقہ صوبائی حلقوں میں موجود مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار اور آزاد امیدوار ان کی حمایت لینے کی کوششوں میں ہیں۔
انتخابی امیدواروں میں برادریوں کا تناسب
1985 کے غیر جماعتی عام انتخابات سے برادری کے نام پر ووٹ ڈالنے کا جو رجحان شروع ہوا تھا وہ اب بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکا ہے۔ اس حوالے سے آرائیں برادری سب سے آگے ہے جبکہ راجپوت دوسرے اور جٹ تیسرے نمبر پر ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں ہونے والے آٹھ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقوں سے منتخب ہونے والے امیدواروں میں مجموعی طور پر 23 آرائیں، 18 راجپوت اور 11 جٹ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ برداری سے تعلق رکھنے والی سات شخصیات جبکہ انصاری اور کشمیری برادری سے تعلق رکھنے والے امیدوار اپنے اپنے حلقے سے چھ، چھ مرتبہ کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ آبادی کے لحاظ سے فیصل آباد میں جٹ پہلے، آرائیں دوسرے اور راجپوت تیسرے نمبر پر ہیں۔ علاوہ ازیں حالیہ انتخابات میں بھی انہی تین برادریوں کے امیدوار نمایاں ہیں۔ اس وقت قومی اسمبلی کی 10 نشستوں پر الیکشن لڑنے والے امیدواروں میں سات کا تعلق آرائیں، سات کا جٹ اور چھ کا راجپوت برادری سے ہے۔ آرائیں برادری سے تعلق رکھنے والے چوہدری عاصم نذیر این اے 101، طلال چوہدری این اے 102، میاں محمد فاروق، چوہدری مسعود نذیر اور اعجاز چوہدری این اے 105، میاں فرخ حبیب این اے 108 اور میاں عبدالمنان این اے 109 سے امیدوار ہیں۔ جٹ امیدواروں میں سے ظفر ذوالقرنین ساہی اور طارق محمود باجوہ این اے 101، سردار دلدار احمد چیمہ این اے 104، رضا نصر اللہ گھمن این اے 105، چوہدری سعید اقبال اور ڈاکٹر نثار احمد جٹ این اے 106 جبکہ یونس سلیمان این اے 110 سے امیدوار ہیں۔ راجپوت برادری سے تعلق رکھنے والے نواب شیر وسیر اور شاہ جہاں کھرل این اے 102، رانا فاروق سعید این اے 104، رانا ثنا اللہ این اے 106، رانا محمد افضل اور راجہ ریاض این اے 110 سے امیدوار ہیں۔ این اے 103 سے تین بلوچ امیدوار علی گوہر بلوچ، سعداللہ بلوچ اور شہادت خان بلوچ کے مابین مقابلہ ہے۔ اس کے علاوہ شیخ برادری کے دو امیدوار شیخ خرم ظفر این اے 107 اور شیخ محمد افضل این اے 109 سے امیدوار ہیں۔ ملک برادری کے بھی دو امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے ملک اصغر علی قیصر این اے 108 اور ملک محمد سردار این اے 107 سے امیدوار ہیں۔ علاوہ ازیں انصاری، کشمیری اور کموکا برادری کا ایک ایک امیدوار الیکشن لڑ رہا ہے۔ ان میں سے حاجی اکرم انصاری این اے 107، عابد شیر علی این اے 108 اور فیض اللہ کموکا این اے 109 سے امیدوار ہیں۔
30سال میں 7عام انتخابات، صرف2خواتین براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوئیں
گزشتہ 30 برس کے دوران ہونے والے سات عام انتخابات میں اب تک صرف دو خواتیں براہ راست ووٹوں سے رکن اسمبلی منتخب ہوئی ہیں۔ ان میں سے راحیلہ پروین بلوچ 2008 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر این اے 78 سے منتخب ہوئی تھیں جبکہ عفت معراج نے 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر پی پی 53 سے کامیابی حاصل کی تھی۔ یاد رہے کہ حالیہ عام انتخابات میں ضلع بھر سے پانچ خواتین الیکشن لڑ رہی ہیں جن میں پی پی 100 سے عفت معراج مسلم لیگ ن جبکہ این اے 101 اور پی پی 108 سے عفیفہ صدیقی ایم ایم اے کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ عام انتخابات میں حصہ لینے والی دیگر خواتین میں این اے 102 سے سعدیہ اختر، این اے 106 سے عاصمہ الیاس اور این اے 107 سے رابعہ مختار شامل ہیں جو آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑیں گی۔