سیّدالمشائخ ، استاذ الصوفیہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت بغداد (عراق)میں ہوئی۔آپ ولی کامل اور صاحب طریقت بزرگ تھے،آپ ماہر شریعت اور منبع فیوض و برکات تھے، آپ کے خطابات و القابات میں لسان القوم بھی ملتا ہے۔حضرت جنید بغدادیؒ نام ور صوفی بزرگ حضرت سرّی سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے بھانجے اور مرید تھے۔بیعتِ خلافت اپنے ماموں شیخ سرّی سقطیؒ سے حاصل فرمائی۔ حضرت جنید بغدادیؒ اپنے وقت کے شاہی پہلوان تھے۔آپ کا خاندانی نام جنید،والد محترم کا نام محمد اور دا دا کا نام بھی جنید تھا۔ دادا کے نام پر آپ کا نام رکھا گیا۔ابوالقاسم آپ کی کنیت تھی ۔حضرت جنید بغدادیؒ کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے، بعض تذکر ہ نگاروں نے 215 ھ سال ولادت قرار دیا ہے۔آپ کے آبائو اجداد کا تعلق نہاوند سے تھا۔حضرت جنید بغدادیؒ کے والد آئینہ سازی اور شیشہ گری کے آلا ت کی تجارت کیا کرتے تھے ۔
آپ بغداد میں پیدا ہوئے اور یہیں عمر بھر قیام کیا، اسی وجہ سے بغدادی کہلائے۔حضرت مخدوم علی ہجویریؒ نےآپ کا اسم گرامی ان الفاظ میں تحریر کیا ہے شیخ المشائخ ،اہل طریقت، امام الائمہ ابوالقاسم جنید بن محمد بن جنید بغدادیؒ ، آپ کی کنیت ابو القاسم ،لقب سید الطائفہ تھا۔ آپ تیسری صدی ہجری میں اس وقت پیدا ہوئے کہ جب اسلامی علوم نقطۂ عروج پر تھے اور مامون الرشید کے مشاغل دینی کی بدولت بغداد میں بڑے بڑے باکمال علماء وفضلاء جمع تھے۔ تعلیم و تربیت آپ کے ماموں شیخ سرّی سقطیؒ نے کی۔ شیخ سرّی سقطیؒ چاہتے تھے کہ آپ فقر و سلوک کی منازل طے کرنے کے ساتھ ایک زبردست عالم دین اور فقیہ بھی بنیں ،چناںچہ بیس سال کی عمر میں حضرت جنید بغدادیؒایک اچھے فقیہ بنے اور فتوے بھی لکھنے لگے۔ علوم دین میں تکمیل پانے کے بعد آپ نے زہدوعبادت میں رغبت حاصل کی،اس کے ساتھ دنیا کے کاروبارمیں مصروف رہے،شیشے کا کاروبار آپ نے ورثے میں پایا تھا،یہی کاروبار شروع کیا۔آپ ریاضت و مجاہدے کرتے اور دنیا کے کاموں میں بھی مصروف رہتے،ان تمام حدود شریعت کو سامنے رکھ کر فرمایا کرتے کہ تصوف قرآن وسنت کاترجمان ہے جو شخص قرآن وحدیث اورسنت سے واقف نہیں، وہ پیروی کے لائق نہیں۔ ایک وقت آیا کہ شیخ سرّی سقطیؒ نے اپنی آرزو کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جنید بغدادیؒ کو روحانیت کے اتنے بڑے مرتبے پر پہنچا دیا کہ سری سقطیؒ جیسے کامل ترین بزرگ آپ سے رائے اور صلاح مشورہ لینے لگے۔
تیسری صدی ہجری جو تصوف کی تدوین کی صدی ہے،اس پوری صدی کو حضرت جنیدی بغدادیؒ کی صدی قرار دیاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ تیسری صدی ہجری میں علماء و فقہا ،اُدبا و شعراء ، صوفیہ و عرفاء ،اولیاء کا مرجع حضرت جنید بغدادیؒ کی ذاتِ گرامی ہی تھی ۔ آپ کی حیات اس پوری صدی کو محیط اور ذاتِ بابرکت اہل صدی پر حاوی ہے،اس صدی کے اوائل میں ولادتِ باسعادت، اوراواخر میں وصال باکمال ہوا ۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اللہ پاک جس بندے کو جس کام کے لیے پیدا فرماتا ہے، وہ کام اس کے لیے آسان فرمادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت جنید بغدادیؒ سے تدوین تصوف کی عظیم خدمت لینا تھی،اس لئے انہیں ایسے خاندان اور گھرانے میں پیدا فرمایا،جس کے افراد تقویٰ و طہارت ، علم و عمل کے زیور سے خوب آراستہ تھے۔
حضرت جنیدؒ فرما تے ہیں کہ میں نے شیخ سرّی سقطیؒ کی ہدا یت کے مطا بق سب سے پہلے حدیث اور فقہ کا علم حضرت سفیان ثوریؒ سے حاصل کیا ، آٹھ سال آپ کی خدمت میں رہے ، پھر تصوف کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے شیخ ابوعبداللہ حار ث محاسبیؒ کی خدمت میں حاضری دی اور تین سال تک آپ کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے بعد اپنے حقیقی مرشد کی با ر گاہ میں حاضر ہوئے۔ حضرت سری سقطیؒ کے دستِ حق پر باقاعدہ بیعت کی ۔ شیخ فرید الدین عطا رؒ آپ کے مجاہدات بیا ن کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت جنید بغدادیؒ اہل تصوف کے پیشوا تھے۔ وہ آپ کو سید الطائفہ ”گروہ صوفیاءکے سردار “ کہتے اور طائوس العلماءاور سلطان المحققین لکھتے تھے۔ آپ شریعت اور حقیقت کی انتہا پر تھے۔ زہد و عشق میں بے نظیر تھے اور طریقت میں مجتہد کا درجہ رکھتے تھے ۔ حضرت علی ہجویریؒ نے ’’کشف المحجوب‘‘ میں آپ کو طریقت میں شیخ المشا ئخ اور شریعت میں امام الائمہ لکھا ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ کی ذات بابرکت علماء و فقہاء شعراء و ادباء صوفیاء و اولیاء کے درمیان آفتاب روشن کی طرح ہے ۔ جس کی روشنی سے ہرایک مستفید ہوتا ہے۔حضرت جنید بغدادی ؒکے لئے ایک بڑا خراجِ عقیدت تو یہ ہے کہ تصوف کے تمام سلاسل نے بالاتفاق اُنہیںاپنا پیشوا تسلیم کیا۔ہر عہدکے صوفیاء اپنا انتساب انہی کی طرف کرتے رہے ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ تصوف کے سلاسل اپنے اوراد میں باہم مختلف ہیں ،لیکن اپنے نسب میں سب حضرت جنیدؒ پر متفق ہیں۔ تصوف کے سلاسل حضرت جنیدؒ کے واسطے ہی سے اوپر کو پہنچتے ہیں ۔ حضرت سیّد علی ہجویری داتا گنج بخش ؒ نے جن دس سلسلوں کو حق پر قائم قرار دیا ہے، ان میں سے ایک سلسلہ جنیدیہ جس کے مؤسس حضرت جنیدؒ ہی ہیں اور باقی نوسلسلوں میں سے پانچ ایسے ہیں، جن کے بانیوں کا حضرت جنید ؒسے گہرا قریبی اور روحانی تعلق ہے ۔
حضرت جنید بغدادیؒ ایک مرتبہ محفل میں بیٹھے ہوئے تھے تو کسی مرید نے دریافت کیا کہ انسان خود میں کیا اوصاف پیدا کرے کہ اسے اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل ہوجائے؟آپ نے فرمایا، آٹھ اوصاف رکھنے والا شخص اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرسکتاہے۔سخاوت،رضا،صبر،خاموشی،غربت،سیاحت،گدڑی اور فقر۔یہ آٹھ اوصاف آٹھ برگزیدہ انبیاء میں سے ہیں۔
٭…سخاوت حضرت ابراہیمؑ سے کہ آپ نے اپنے فرزند حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے پیش کیا۔٭…صبر حضرت ایوبؑ کی طرف سے کہ آپ نے انتہائی مصائب پر صبر فرمایا اور اللہ کی جانب سے آزمائش پر ثابت قدم رہے۔٭…خاموشی حضرت زکریا ؑسے کہ آپ نے تین دن تک لوگوں سے اشارے سے کلام کیا اور اپنے رب کو آہستہ پکارا۔٭…غربت حضرت یحییٰ ؑسے کہ اپنے وطن میں مسافروں کی مانند رہے اورخاندان میں رہتے ہوئے اپنوں سے بیگانہ رہے۔٭…سیاحت حضرت عیسیٰ ؑسے کہ آپ نے یکہ و تنہا زندگی گزاری،سوائے ایک پیالے اور کنگھی کے اپنے پاس کچھ نہیں رکھا۔جب آپ نے دیکھا کہ کسی نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملاکر پانی پیا تو آپ نے اپنا پیالہ توڑدیا،جب کسی نے انگلیوں سے بالوں کو کنگھی کی تو آپ نے کنگھی بھی توڑ دی۔ ٭…گدڑی حضرت موسیٰ ؑ سے کہ آپ نے قیمتی لباس کے بجائے معمولی لباس پہنا۔٭…اور فقر سید عالم ﷺ سے ہے کہ جنہیں کائنات کے تمام خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئیں اور ارشاد ہوا کہ آپ ﷺ خود کو مشقت میں نہ ڈالیے،بلکہ ان خزانوں کو استعمال کیجیے،لیکن آپ ﷺ نے عرض کیا کہ اے میرے رب،مجھے اس کی حاجت نہیں ،میری خواہش یہ ہے کہ ایک روز شکم سیر ہوںتو دو روز فاقے میں رہوں۔حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ جس میں یہ آٹھ صفات ہوں ،سمجھ لو کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں سرخ رو ہوا اور اللہ کا مقرب بندہ بن گیا۔