• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوم ملالہ کے سلسلے میں سندھ اسمبلی کی عمارت میں ایک تقریب ہوئی۔ میں وہاں گیا تو بھارتی صحافی شیلا ریڈی سے ملاقات ہو گئی۔ وہ ہمارے قائد محمد علی جناح کی زندگی پر ایک کتاب لکھ رہی ہیں اور ریسرچ کے لئے کراچی آئی ہیں۔ ان سے گفتگو کے دوران میرے ذہن کے پردے پر کئی مناظر آئے اور گزر گئے اور قربتوں اور فاصلوں کی دھند میں یہ سوال واضح طور پر ابھرا کہ بھارت کے پڑھنے، لکھنے، سوچنے، سمجھنے والے طبقے میں پاکستان کے خالق سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ ایک فوری حوالہ تو یہ کہ اس دن ریاست بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار بھی کراچی میں تھے اور وہ قائداعظم کے مزار پر گئے تھے۔ اگلے دن اسی اخبار میں نتیش کمار کا یہ بیان شائع ہوا کہ ان کی قائداعظم کے مزار پر حاضری کی تمنا پوری ہو گئی۔ تمنا پوری ہو گئی؟ یہ تو باقاعدہ کسی سے عقیدت کا اعتراف ہے۔ اب یاد کیجئے کہ 2005ء میں جب بنیاد پرست ہندو جماعت کے رہنما ایل کے ایڈوانی قائداعظم کے مزار پر حاضر ہوئے تو انہوں نے جناح کی تعریف کی اور انہیں ایک سیکولر لیڈر کہا۔ اس بیان نے ایک ہلچل مچا دی۔ اس سے بہت بڑا واقعہ بعد میں یہ ہوا کہ 2009ء میں جسونت سنگھ نے جو بی جے پی کے وزیر خارجہ بھی رہ چکے تھے ”جناح“کے عنوان سے قائداعظم کی ایک ضخیم سوانح حیات لکھی اور اس پر بھی بہت گفتگو ہوئی۔ اختلافی نکتے اٹھائے گئے۔ ڈھائی سال پہلے جب وہ اپنی کتاب کی رونمائی کیلئے کراچی آئے تو میں نے ان کا انٹرویو کیا تھا۔
میرے خیال میں اس دلچسپی کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ بھارت میں تحریک آزادی، تقسیم ہند اور خطے میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے بارے میں تحقیق اور مکالمے کی ایک فضا ہے جس کا افسوس ہم ساتھ نہیں دے پا رہے۔ اس بات کی بھی شاید اہمیت ہے کہ مسلمان، بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہوتے ہوئے تعداد میں تقریباً اتنے ہی ہیں جتنی پاکستان کی آبادی اور پھر برصغیر کے مسلمان حکمرانوں کی میراث کا بڑا حصہ بھارت کا ہے۔
موضوع کچھ زیادہ سنجیدہ ہو گیا۔ بہتر ہو گا کہ میں چند واقعات اور ذاتی مشاہدوں کی بات کروں جن سے بھارت کے ادیبوں کی نہ صرف پاکستان بلکہ اردو زبان اور مسلمانوں کی تاریخ سے دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ اسی سال فروری میں جو کراچی لٹریچر فیسٹول ہوا تھا اس میں اکرم سیٹھ نے بھی شرکت کی تھی۔ اکرم ان ناول نگاروں میں اہمیت رکھتے ہیں جنہوں نے انگریزی ادب میں اپنے لئے جگہ بنائی ہے، وہ شاعر بھی ہیں۔ کراچی کے ادبی میلے میں انہوں نے غالب کے ایک خط کا منظوم انگریزی ترجمہ سنا کر ہمیں حیران کر دیا۔ غالب کے خطوط یعنی غالب کی نثر کے جادو نے انہیں تو مسحور کر دیا لیکن ہمارے کتنے انگریزی دان غالب کو پہچان سکتے ہیں۔ ہاں…”پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟“ اسی طرح انیتا ڈیسائی کا ایک بہت معروف انگریزی ناول ”ان کسٹڈی“ یعنی ’زیر حراست‘ ہے جس کا مرکزی کردار اردو زبان اور اس زبان کے سب سے بڑے شاعر کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ پس منظر میں اردو اور اس کا شاعر ایک ڈوبتے ہوئے معاشرے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ مجھے تو اس کہانی میں غالب کی روح بھٹکتی ہوئی محسوس ہوئی۔
کوئی ہندو، انگریزی کا ناول نگار ہماری یعنی اردو شاعری کو کتنا جان سکتا ہے اس کا اندازہ مجھے اروند اڈیگا کا ناول ’دی وائٹ ٹائیگر‘ یعنی سفید شیر پڑھ کر ہوا۔ اس ناول کو 2008ء میں بکر پرائز دیا گیا جو ایک بڑا ادبی اعزاز ہے۔ اس کا اردو ترجمہ قیصر سلیم نے ’اندھیر نگری‘ کے نام سے کیا ہے۔ ناول کا ہیرو ایک ڈرائیور ہے جو اپنے مالک کو قتل کر کے کامیاب انسان بن جاتا ہے۔ ایک منظر میں وہ پرانی دلّی میں اردو شاعری کی کتابیں بکتے دیکھتا ہے۔ وہ کتب فروش مسلم چاچا سے پوچھتا ہے کہ ان کتابوں میں کیا لکھا ہے؟ پہلے تو مسلم چاچا اسے دھتکار دیتا ہے لیکن پھر اسے بتاتا ہے کہ یہ شاعری ہے۔ مسلم چاچا اسے کئی اشعار پڑھ کر سناتا ہے۔ وہ اسے بتاتا ہے کہ صدیوں سے غریبوں اور امیروں کے درمیان ایک جنگ جاری ہے اور امیر یہ جنگ جیتتے رہے ہیں۔ چند دانا لوگوں نے غریبوں کی محبت میں اپنی شاعری میں ان کے لئے کچھ استعارے اور اشارے چھپا دیئے ہیں جو بظاہر تو لگتا ہے کہ گل و بلبل کی داستانیں ہیں لیکن اگر کوئی انہیں سمجھے تو ان میں یہ راز ہیں کہ غریب کیسے اپنی جنگ جیتیں۔ اس کے بعد ایک اور منظر ہے جب یہ غریب ڈرائیور اپنے بھتیجے کو چڑیا گھر لے جاتا ہے اور وہ حسین پرندوں کو دیکھ کر حیرت میں غرق ہو جاتا ہے اور کہتا ہے…اور یہ بات معنویت سے لبریز ہے کہ ”اس عظیم شاعر اقبال نے کتنی سچی بات کہی تھی کہ جس لمحے آپ یہ جان لیں کہ اس دنیا میں خوبصورتی کسے کہتے ہیں تو پھر آپ غلام نہیں رہتے، یہاں پہنچ کر میں رک گیا۔ اقبال نے یہ کہا تھا…کہاں؟ ایک اقبال شناس کو فون کیا تو انہوں نے فوراً بتا دیا۔ ”غلامی کیا ہے، ذوق حسن و زیبائی سے محرومی“۔ کمال ہے۔ بھارت کا ایک انگریزی زبان کا ناول نگار ہمارے لئے یہ موتی نکال کر لایا ہے اور کہانی میں اس بات کی کافی اہمیت ہے کہ کیسے اگر آپ بچوں میں احساس جمال پیدا کر دیں۔ مثلاً انہیں مصوری سکھا دیں تو وہ پھر دہشت گردوں کے قابو میں نہیں آئیں گے۔
اور اب گرش کرناڈ کا ذکر۔ وہ بھارت کے ایک بڑے ڈرامہ نگار نہیں۔ کرناٹک کے ہیں اور بیشتر ڈرامے انہوں نے اپنی علاقائی زبان میں لکھے ہیں‘ جن کے انگریزی ترجمے موجود ہیں۔ وہ آکسفورڈ کے طالب علم تھے اور ایک مشہور‘ اعزازی اسکالر شپ انہیں ملی تھی۔ میں 2006ء میں ایک صحافتی وفد کے ساتھ ممبئی گیا تو دوسری کتابوں کے ساتھ‘ ان کے ڈراموں کی کتاب بھی خرید لی۔ چند مہینوں بعد گرش کرناڈ اور دوسرے بھارتی ڈرامہ نگاروں کے ساتھ پاکستان آئے تو کراچی سے بھی ان کا گزرنا ہوا۔ میرے دوست سہیل ظہیر لاری ان کے ساتھ آکسفورڈ میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے گرش کرناڈ کو اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ مجھے مدعو کرتے وقت انہوں نے پوچھا ”تم جانتے ہوگرش کرناڈ کون ہے؟“ میں نے بتایا کہ میرے پاس تو ان کے ڈراموں کی کتاب بھی ہے۔ فرضی‘ جب سہیل کے گھر ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس کتاب پر ان سے دستخط کرنے کی درخواست کی تو وہ حیران رہ گئے کہ کراچی میں کسی کے پاس ان کے ڈراموں کا تازہ ایڈیشن بھی ہے۔ کتاب کے ایک ڈرامہ کا عنوان ہے ”ٹیپو سلطان کے خواب“ یہ ڈرامہ انہوں نے بی بی سی کی فرمائش پر‘ آزادی کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر‘ انگریزی میں لکھا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس ڈرامے کی ریسرچ انہوں نے کیسے کی۔ اب سنیئے کہ انہوں نے کیا جواب دیا۔ ٹیپو سلطان کے ڈراموں پر ڈاکٹر محمود حسین نے بہت سالوں پہلے ایک کتاب لکھی تھی جو کراچی سے شائع ہوئی تھی اور اسی کتاب سے انہوں نے اپنے ڈرامے کا مواد حاصل کیا۔ ڈاکٹر محمود حسین‘ پاکستان بننے کے بعد کے ابتدائی سالوں میں ہمارے وزیر تعلیم بھی رہے اور کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی۔ ٹیپو سلطان نے اپنے خواب فارسی میں لکھے تھے جن کا مسودہ انگریزوں کے ہاتھ لگا اور وہ لندن میں محفوظ ہے اور ڈاکٹر محمود حسین نے جو تاریخ کے استاد تھے‘ ان کا ترجمہ کیا۔ اس واقعہ کے دو‘ تین سال بعد جب میں نے ”جیو کتاب“ کا پروگرام شروع کیا تو مجھے یہ بات یاد آئی اور میں کراچی یونیورسٹی کی لائبریری گیا کہ اس کتاب پر گفتگو ہو۔ یقین جانیے۔ بہت مشکل ہوئی اس کتاب کو ڈھونڈنے میں… بالآخر مل گئی۔ مجھے تو نہ لگا کہ اس کتاب کو کسی نے دیکھا یا پڑھا ہو۔ گرش کرناڈ جو فلموں کے اداکار بھی ہیں‘ پچھلے ہفتے ایک متنازع شخصیت بن گئے۔ جب پہلے تو انہوں نے ٹیگور کے ڈراموں کو نچلے درجے کے ڈرامے کہا اور پھر وی ایس نائپال کی اس لئے مخالفت کی کہ وہ مسلمانوں کے بارے میں تعصب سے کام لیتے ہیں اور انہیں بالکل نہیں پتہ کہ مسلمانوں کا بھارت کی تاریخ میں کیا کردار رہا ہے۔ نائپال کو ادب کا نوبل مل چکا ہے۔ اس لئے ان پر انگلی اٹھانا آسان نہیں ہے اور ہاں… گرش کرناڈ کا ایک اہم ڈرامہ ”تغلق“ ہے۔
میں نے اس کالم کا آغاز بھارتی صحافی شیلاریڈی سے ملاقات کے ذکر سے کیا تھا۔ بہار کے وزیراعلیٰ کے دورے کی بات بھی ان سے ہوئی اور یہ بھی کہ چند سالوں میں بہار میں کتنی تیز رفتار ترقی ہوئی ہے۔ شیلا کے شوہر ایک بڑے سرکاری افسر ہیں۔ جب شیلا کراچی آرہی تھیں تو ان کے شوہر نے کہا کہ کراچی آج کل ویسا ہی ہے جیسا لالو کے زمانے کا بہار۔ گویا حالات تبدیل ہوسکتے ہیں اگر کوئی چاہے۔ تو کیا ہمارا فکری اور تہذیبی ماحول بھی بدل سکتا ہے؟
تازہ ترین