• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم پرویز اشرف کہتے ہیں کہ کسی کی قوم کی روح کچلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ وزیراعظم بڑے سیانے ہیں، لیکن وہ شاید یہ بھول گئے کہ روح نہیں جسم کچلاجاتا ہے اور اس ضمن میں پانچ برس غریب عوا م کے جسموں کو جس طرح کچلا گیا، اس کا پوسٹ مارٹم کیاجائے تو کچلنے کے کتنے ہی انداز سامنے آئیں گے، روح تو صرف نکالی جاسکتی ہے۔ اس کا اختیار خالق نے پیپلزپارٹی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے پاس ہی رکھا ہے، وگرنہ آج روح ہوتی نہ بدن۔ اب ہم اپنے راجا جی سے اور کیاکہیں کہ
جلا لیے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
بس ایک مہربانی وزیراعظم اور ”صدر اعظم“ کی یہ ہے کہ جیسے تیسے کرکے جمہوریت کو اس کی بیساکھیوں سمیت چلا رہے ہیں اور اب بادامی باغ آنے والا ہے۔ اللہ نے چاہا تو بی جمہوریت کسی آنے والے بھلے مانس سے ایک ایک کرکے اپنے دکھ درد بیان کرے گی۔
بچے جمورے ماردے رہے مینوں ساری ساری رات
میں کی کی زخم وکھاواں میرا تن من نیل و نیل
پشتو زبان کی ایک مشہور مثل ہے: ”جنگ ٹھنڈی پڑ گئی تو موذی گرم ہو گیا“ ۔ممکن ہے راجا جی کو یہ مثل سوجھ آجائے۔

کراچی میں بدامنی اور خون کی ہولی جاری۔ ڈاکٹر سمیت 6افراد ہلاک، جبکہ ایاز پلیجو کہتے ہیں کہ سندھ تبدیل ہو رہا ہے۔
کراچی کو ِمنی پاکستان کہیں یا مُنّی پاکستان، لیکن حکمرانوں ہیچمدانوں کو اتنا بتادیں کہ مُنّی برباد ہوئی تیرے کارن، اگرکراچی کی زمین قیامت سے پہلے بول سکتی تو اپنے اندر جذب ہونے والے بے گناہوں کے خون کی مقدار ضرور بتاتی۔ عروس البلاد کراچی کا سارا جہیز لٹ گیا۔ اس کا سہاگ اجڑ گیا۔ اس کا سیندور بکھر گیا۔ کیوں کہ حکمرانوں کا ضمیر مر گیا۔ لاشوں کے قالین پر سیاسی رقص کا یہ انداز دیکھ کرمعلوم ہوا کہ رقص زنجیر پہن کر ہی نہیں قالین پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایک ایسا رقص جو عباسیوں نے امویوں کی لاشوں پر قالین بچھا کر کیا تھا۔ پلیجو صاحب کراچی کی اس پکار کہ ”تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجاکجا نہم“ …”جسم سارا تو زخم زخم ہے مرہم کہاں کہاں رکھوں“ کے بعد سندھ میں کیا تبدیلی دیکھ رہے ہیں؟ اس کا انہوں نے کچھ نہیں بتایا لیکن وہ اور ان جیسے اور سندھی لیڈرز اگرکراچی میں انسانی خون کی ارزانی کا گرم بازار سرد کردیں تو ساحل سمندربھی دعا دے گا کہ وہاں پھر سے رنگ اور نور کی بارات اترے اورکراچی مقتل کے بجائے صنعت و حرفت، حوشحالی و دامن اور گل عزاروں کے نقرئی قہقہوں کاشہر بن جائے۔ یہ بھتے، یہ ٹارگٹ کلنگ ، یہ حشر سامانی نہ رہے۔ کہاجاتا ہے کہ یہ سب کچھ دہشت گردوں، بیرونی پاکستان دشمنوں کی کارستانی ہے۔ لیکن اصل حال تو حافظ شیراز نے بیان کیا ہے:
من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم
کہ بامن ہر چہ کرد آں آشنا کرد
(مجھے بیگانوں سے کوئی گلہ نہیں کہ میرے ساتھ جو کیا وہ اپنوں نے کیا)

خبر ہے کہ حنا، بلاول سے متعلق کہانی گھڑنے والا بنگلہ دیشی صحافی خراب شہرت کاحامل ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ بلاول چاہے تو حنا کو بڑی بہن بلکہ ماما کہہ کر بھی پکار سکتاہے ، حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد رنگ لاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دلہن بننے چلی ہے، وہ خوبرو ہوں نہ ہوں دلکش ضرورہیں مگر بلاول کے لئے نہیں۔ یہ کہانی اگر کسی صحافی نے گھڑی ہے تو یہ قیامت کی گھڑی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ہر بری بات صحافیوں سے کیوں منسوب ہو جاتی ہے ۔کیا صحافی سچ کے صحیفے رقم نہیں کرتے؟ اور اگر کوئی زرد صحافت کرتا ہے، تو زرد پتے کا انجام کیا ہوتا ہے اس سے کون بے خبر ہے۔ خبر گھڑنے والا صحافی نہیں ہوتا۔ سچی خبر جڑنے والا صحافی ہوتا ہے اور کبھی سچ میں کھوٹ کی آمیزش نہیں کرتا۔ ابھی لڑکیوں کا اس دنیا میں اتنا قحط نہیں پڑا کہ لڑکے بالے آنٹیوں کا رخ کرنے پر مجبور ہو جائیں تاہم استنثیٰ کا قانون کائنات میں موجود ہے مگر یہ قانون بھی نارمل نہیں ابنارمل ہوتا ہے کیونکہ استثنیٰ توصرف خالق کائنات کا حق ہے۔ کسی انسان کو استثنیٰ دینا جرم کی زنجیر کھولنا ہے۔ پی پی نے ایک خوبرو خاتون کو وزارت ِخارجہ سونپ کر وزارت کو خارجیوں سے خالی کر دیا ہے اور انکل سام کو بھی یقین دلا دیا ہے کہ ہم روشن خیال ہیں، روشن حال نہیں، ہمارے ہاں یہ بیماری عام ہے کہ ابھی تک مذکر مونث کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں، مرد سامنے آئے تو حسن، اخلاق اور ہوتا ہے عورت سامنے آئے تو حسن اخلاق میں ایسی تبدیلی آجاتی ہے، کہ جیسے فرعون موسیٰ سے زندگی مانگ رہا ہے۔

من موہن سنگھ نے کہا ہے: مستحکم پاکستان اورافغانستان کے خواہاں ہیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ 65 برس پہلے بھارت تھا نہ پاکستان، پھر چرخ نیلی خام نے ایسی گردش لی کہ متحدہ ہندوستان کے شکم سے دو بچے برآمد ہوگئے۔ ایک کا نام پاکستان دوسرے کا نام بھارت رکھ دیا گیا۔ مگر ان دونوں بچوں کی ایک آدھ آنت جڑی ہوئی تھی جس کا آپریشن 65 برس سے مذاکرات کی ٹیبل پر ہو رہاہے لیکن ابھی یہ دونوں بچے جدا نہیں ہوئے اور جدائی شاید اچھی بات بھی نہیں، لیکن اگر بچوں کو کوئی الجھن ہو تو آپریشن کردینے میں کوئی حرج نہیں۔ دونوں آزادانہ جب عید اورہولی کھیلیں گے تو اس خطے کی رعنائیاں اور دیومالائی کہانیاں لوٹ آئیں گی۔ کوئی ہندو ہے، کوئی مسلمان ہے، کوئی سکھ ہے ،کوئی عیسائی ہے تو کیا ہوا جس کا رنگ چوکھا ہوا وہ دوسرے کو اپنے رنگ میں رنگ لے، مگر اس طرح نہیں کہ
سب چھاپ تلک موسے چھین لی ملائی کے موسے نیناں
مذاہب، رنگ، نسل، امیری ، غریبی کے فرق کے باوجود بھی توپیار ہوسکتا ہے، دو ملک بن گئے، یہ کیا کم ہے۔ اب پیار کے بھی دو ٹکڑے کرنے لگے۔ پیار کی کوئی سیما نہیں ہوتی۔ اس لئے اگر کوئی سیما کوئی لکشمی گلے ملتی ہے تو ملنے دیں اس طرح لڑائی نابود اور ترقی و خوشحالی موجود رہے گی۔
تازہ ترین