• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابی دوڑ میں تو عمران خان آگے آگے تھے۔ میاں نواز شریف کی تاعمر نااہلی، سزا اور لمبی قید کے بعد تو پنجاب میں میدان تقریباً خالی تھا۔ اور شہباز شریف ’’تبدیلی‘‘ کے آگے اپنی ’’ترقی‘‘ کے اینٹ سریے کا بند نہ باندھ سکے۔ لیکن ’’سونامی‘‘ نے کچھ زیادہ ہی کام کر دکھایا۔ مسلم لیگ ن ہو یا ایم کیو ایم یا پھر متحدہ مجلسِ عمل اور اے این پی، عمران خان کی چومکھی لڑائی کے آگے نہ ٹھہر سکے۔ پرانی جماعتوں کی بار بار کی باریوں کو رائے دہندگان کی بڑی تعداد خاص طور پر نوجوان اور نئے ووٹر ایک اور باری دینے کو تیار نہ تھے۔ کرپشن کے مُدے پہ تو تمام پرانے سیاستدانوں کی ایک مالی طور پر صاف ستھرے کپتان نے خوب گت بنائی کہ وہ صبح شام صفائیاں دیتے دیتے تھک ہار گئے۔ ’’پرانوں کو تو آزمایا جا چکا تھا، کیوں نہ عمران خان کو بھی ایک بار آزما لیا جائے۔‘‘ یہ تھی بہت سوں کی رائے جو کرکٹ ورلڈ کپ ہیرو کے بہت کام آئی۔ پھر عمران خان کے تمام مخالفین کے خلاف جارحانہ باؤنسرز پہ میڈیا میں خوب تالیاں بجائی گئیں جس کی گونج ملک کے کونے کونے میں سُنی گئی۔ اُوپر سے پردہ غیب سے نہ صرف بڑے مخالف پہ اتنی بجلیاں گریں کہ وہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی شکایت کرتے رہ گئے۔ اور پھر خیر سے خاتونِ اوّل (سوم) نے کچھ ایسے چلّے کاٹے کہ جنات تک کورنش بجا لائے۔ سونامی خیبرپختون خوا سے پنجاب اور وہاں سے کراچی پہنچتی پہنچتی کچھ ایسی ماند پڑی کہ سندھ میں بلاول بھٹو کے جادو نے پیپلز پارٹی کو ایک اور زندگی عطا کی۔ بلاول کا جادو جاگا بھی تو دیر سے اور پنجاب پہنچتے پہنچتے بہت دیر ہو چکی تھی۔ لگتا ہے کہ جو مسالا ووٹنگ سے قبل لگایا گیا تھا وہ ووٹنگ کے فوری بعد کچھ جگہوں پر مزید لگانے سے ’’تبدیلی‘‘ کا رنگ نہ صرف چوکھا ہو گیا بلکہ اتنا چوکھا ہو گیا کہ عمران خان کی توقع سے زیادہ کامیابی کو گہنا گیا۔ اوپر سے الیکشن کمیشن نے اتنی زیادہ نااہلی دکھائی کہ نتائج کے التوا نے تحریکِ انصافیوں کا جشن کِر کِرا کر دیا۔ سبھی مخالف پارٹیوں نے اپنے ایجنٹوں کو باہر نکال کر ووٹوں کی گنتی اور فارم 45 پر انتخابی نتیجہ کی عدم فراہمی پر دھاندلی کا نہ صرف سنگین الزام لگایا ہے بلکہ خاص طور پر مسلم لیگ ن، متحدہ مجلس عمل اور ایم کیو ایم نے انتخابی نتائج کو بھی ردّ کر دیا ہے۔ انتخابات کے دن دی نیوز کے مضمون میں میں نے حالات کو بھانپتے ہوئے لکھا تھا کہ جیتنے والے جیت پر فخر نہ کر سکیں گے اور ہارنے والے ہار پر شرمندہ نہ ہوں گے۔ 2013ء کے انتخابات کی طرح 2018ء کے انتخابات کے نتائج پر بھی اگلے انتخابات تک سینہ کوبی کی جاتی رہے گی۔ عمران خان نے گزشتہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ہنگاموں کی جو روایت قائم کی تھی، اب وہ اس کا ذائقہ چکھنے کے لئے تیار رہیں۔ ہمارے ملک میں بیچارے حقِ رائے دہی کے مقدر میں بس یہی لکھا ہے۔
تبدیلی تو آ گئی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی سیاسی پود کی جگہ، اب جنرل مشرف کی سیاسی پود سامنے آ گئی ہے۔ اس میں جو اچنبھے کی بات نہیں وہ یہ ہے کہ پی این اے کی تحریک سے مذہبی جماعتوں کی سیاست کو جو وسعت ملی تھی وہ اب اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے۔ لیکن مولانا فضل الرحمان جیسے متین علما کی جگہ جو فرقہ پرست سامنے آئے ہیں وہ کوئی اچھا شگون نہیں۔ نواز شریف کی عدم موجودگی میں مسلم لیگ ن کو بہت دھچکا لگا ہے اور اُن کے خاندانی جانشین برادرِ خورد ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا پرچم تھامنے میں ناکام ہو گئے۔ مسلم لیگ ن اب پنجاب میں لمبے عرصے تک چھائے رہنے کے بعد پسپائی کی طرف جائے گی۔ مسلم لیگ ن کو اب ایک جاندار قیادت کے لئے مریم نواز کی رہائی کا انتظار کرنا ہوگا۔ ان انتخابات میں بہت سے پُرانے بت ٹوٹ گئے اور سیاست میں نئی قیادت اور نئی پود کا اضافہ ہوا ہے، جو خوش آئند ہے۔ ان میں پی ٹی آئی میں بھی بہت سے نئے چہرے سامنے آئے ہیں جن میں نہایت تیز و طرار پڑھے لکھے فواد چوہدری بھی ہیں۔ سب سے بڑا نیا نام نوجوان بلاول بھٹو ہیں جنہیں اپنے ترقی پسند خیالات، عوام دوستی اور اُصول پسندی کے باعث وسیع تر حلقوں میں پذیرائی ملی ہے اور جن سے آئندہ ایک بڑے رول کی اُمید کی جا رہی ہے۔ اے این پی، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی کی شکست کے بعد بلوچ اور پختون قوم پرست قیادتوں کو نئے لوگوں کے لئے راہ چھوڑنی ہوگی۔ اب وقت ہے کہ آصف علی زرداری بھی بلاول بھٹو کے لئے جگہ چھوڑ دیں۔ نئی پود کو صاف ستھری سیاست، آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی خود مختاری، ذمہ دار اور اچھی حکومت اور عوام کی خدمت کا وطیرہ اپنانا ہوگا کیونکہ پرانی سیاست کا آلودہ پیرہن اوڑھنے کے قابل نہیں رہا۔
اپنی انتخابی مہم کے زبان دراز بیانیے کے برعکس، عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے منتظر لیڈر کے طور پر تقریر سادہ، نرم گو، سنجیدہ اور عوامی تھی۔ مبینہ انتخابی دھاندلی پہ تمام حلقے کھولنے کی دعوت دے کر اُنھوں نے اپوزیشن کی احتجاجی کال کی ہوا نکال دی ہے۔ سادگی اپنانے، اچھی حکومت دینے، احتساب اور خود احتسابی کی باتیں سب اچھی ہیں۔ خارجہ امور پر ہمسایوں سے اچھے تعلقات قائم کرنے کا عزم بھی قابلِ تعریف ہے۔ لیکن نئے وزیراعظم کے سامنے بہت بڑے چیلنج ہیں۔ خان صاحب نے ’’تبدیلی‘‘ اور ’’اسٹیٹس کو‘‘ کے نعروں سے عوام اور نوجوانوں میں بہت بڑی اُمیدیں پیدا کر دی ہیں جو ناکامی کی صورت میں سخت ردّعمل کو بھی جنم دے سکتی ہیں۔ انہیں پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر سخت اپوزیشن کا سامنا ہوگا اور قانون سازی کے لئے انہیں اپوزیشن جماعتوں کی حمایت درکار ہوگی، اس کے لئے سیاسی مخالفین کے خلاف کسی طرح کی انتقامی کارروائی سے پرہیز کی پالیسی کا اعلان اچھا ہے۔ البتہ مرکز، پنجاب، پختون خوا اور بلوچستان میں ممکنہ مخلوط حکومت کے باعث اُن کے لئے اپنے ایجنڈے کے گیارہ نکات پر عمل کرنے میں آسانی ہوگی کیونکہ اُن کے 11 نکاتی ایجنڈے کا زیادہ تر تعلق صوبائی معاملات سے ہے۔ ملک کو جو معاشی و مالیاتی بحران درپیش ہے، اس کے سدِباب کے لئے فوری اقدامات ضروری ہوں گے۔ جس میں کشکول توڑنا تو دُور کی بات بھیک کا دامن اور پھیل جائے گا۔ ترقی کے جس ماڈل کی وہ بات کر رہے ہیں اس کا مرکز انسانی ذرائع کی ترقی ہے جس میں صحت، تعلیم، تربیت، روزگار اور کاروبار کے مواقع ہیں۔ ان کا سب سے بڑا ٹیسٹ یہ ہوگا کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے غیرپیداواری اخراجات کتنے کم کرتے ہیں اور لوگوں پہ کتنا اور کہاں خرچ کرتے ہیں۔ ٹیکسوں کے نظام اور ریاستی اداروں میں اصلاحات کوئی آسان کام نہیں۔ اس پر 50 لاکھ گھروں، ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ پہلے 100 دن کا امتحان، شاید پاکستان کی تاریخ میں کسی لیڈر کا سخت ترین امتحان ہے۔ اور اپوزیشن کو انہیں کام کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمان کی آل پارٹیز کانفرنس میں یقیناًبہت شور اُٹھے گا، لیکن پیپلز پارٹی اس میں زیادہ حصہ دار نہیں بنے گی اور مسلم لیگ ن کو اپنے لیڈر کی رہائی کی فکر لاحق رہے گی۔ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان پاکستان کے اردوان بننے جا رہے ہیں۔ جبکہ مہاتیر محمد اُن کے رول ماڈل ہیں۔
یقیناًاُن میں ان دو رہنماؤں کی طرح عوامیت پسندی اور آمرانہ پن کے دونوں رجحان ہیں۔ لیکن ان کے پاس اردوان کی طرح ایک دائیں بازو کی جدید منظم جماعت نہیں اور نہ ہی وہ ان بیساکھیوں سے جان چھڑا پائیں گے جن کے سہارے وہ وزیراعظم ہاؤس پہنچے ہیں جس میں رہنے سے وہ ہچکچا رہے ہیں۔ بڑا ڈیزائن تو یہی تھا کہ ایک پاپولر، سخت گیر اور اصلاحی پاور بلاک تشکیل پائے اور جس میں اداروں کا سکہ چلے۔ دیکھتے ہیں کہ عمران خان ایک تابع مہمل وزیراعظم بنتے ہیں (جو اُن کی شخصیت میں نہیں) یا ایک مضبوط سویلین حکمران کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ یا پھر ایک آمر؟ ان کے لئے بڑا چیلنج اچھی حکومت کو یقینی بنانا، معاشی بحران کو حل کرنا اور دُنیا میں پاکستان کی تنہائی کی وجوہات کو دور کرنا ہوگا۔ اگلے چھ ماہ میں یا تو ان کے کس بل نکل جائیں گے یا پھر وہ آگے بڑھ جائیں گے۔ یہ تبھی ہوگا کہ کچھ قوتوںکی حد سے بڑھی ہوئی مداخلت آئینی دائرے تک محدود کر دی جائے۔ اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کتنی ہو پائے گی یا نہیں، اس کے لئے اگلے انتخابات تک انتظار کرنا پڑے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین