پاکستان کے عوام کو مبارک باد۔ آئین و قانون کے مطابق عام انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی بنانے پر چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں پاکستان کی عدلیہ کا شکریہ۔ ملک بھر میں انتخابی مہمات کے دوران اور خاص طور پر پولنگ کے دن امن و امان قائم رکھ کر ووٹرز کو تحفظ فراہم کرنے پر پاکستان کی مسلح افواج، سول و فوجی انٹیلی جنس ایجنسیوں، رینجرز، ایف سی، پولیس اور دیگر سب متعلقہ اداروں کو سلام۔ ووٹنگ کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلیٰ انتظامات کو تحسین ۔ البتہ نتائج کی ترسیل کے لئے ٹیکنالوجی کے استعمال کی اہلیت و استعداد بہتر نہ بنا پانے پر الیکشن کمیشن کو قوم سے معذرت کرنی چاہئے۔
پاکستان میں آئین کی بالادستی اور جموریت کے استحکام کے لئے یہ اہم سنگ میل عبور کرنے میں بلوچستان کے انتہائی محب وطن پاکستانیوں کی بڑی تعداد میں قربانیاں ہمیشہ بہت احترام کے ساتھ یاد رکھی جائیں گی۔ پشاور میں ہارون بلور، بلوچستان کے علاقے مستونگ میں نوابزادہ سراج رئیسانی ، ڈیرہ اسماعیل خان میں اکرام اللہ خان گنڈاپور اور انتخابی مہم کے دوران ملک دشمن عناصر کی جانب سے مختلف حملوں میں شہید ہونے والے سب پاکستانیوں کو ’’شہدائے جمہوریت ‘‘ کا خطاب دیا جانا چاہئے۔ ان حملوں میں جاں بحق ہونے والے سرکاری اہلکاروں اور معصوم شہریوں کے ورثاء کی مناسب دیکھ بھال کے اہتمام کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے خصوصی اہتمام ہونا چاہئے ۔
پاکستان بھر میں انتخابی مہم بالعموم پُرامن رہنے کا بڑا کریڈٹ ایک دوسرے کے مدمقابل جماعتوں کے ان لیڈرز اور سیاسی کارکنان کو بھی جاتا ہے جنہوں نے مخالفانہ نقطہ ہائے نگاہ کے لئےاحترام اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔ پاناما کیس میں عدالت سے نااہل ہونے کے بعد نواز شریف نے عدلیہ اور ملکی سیکورٹی اداروں کے بارے میں انتہائی جارحانہ رویہ اختیارکیا ۔ انہوں نے ووٹرز سے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ ان کی جماعت کو انتخابات 2018ء میں واضح اکثریت دی جائے تاکہ آئندہ اسمبلی سے ان کی نااہلی اور سزا کو ختم کرنے کے لئے قانون سازی کروائی جاسکے۔ میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور جماعت میں ان کے قریبی بعض افراد نے پاکستان کی عدلیہ اور اداروں کے ساتھ تصادم کی پالیسی اختیار کی۔ مسلم لیگ کے صدر میاں شہباز شریف تصادم کی اس پالیسی سے لاتعلق نظر آئے۔
25جولائی کو مسلم لیگ (ن) کو ملنے والی نشستوں سے اندازہ ہورہا ہے کہ پنجاب کے ووٹرز نے میاں نواز شریف کی پالیسی کو مسترد کردیا ہے اور میاں شہباز شریف کے طرز سیاست کی تائید کی ہے۔ اس طرح بیک وقت دو مختلف بیانیے رکھنا پنجاب میں مسلم لیگ کے لئے کچھ فائدہ مند ہی رہا۔ میاں شہباز شریف کے بیانئے کو ووٹرز کی تائید ملنے سے مسلم لیگ پنجاب میں نشستیں حاصل کرسکی۔ اگر میاں شہباز شریف اعتدال پسند، مصالحانہ پالیسیاں اختیار نہ کرتے تو بعض مبصرین کے مطابق مسلم لیگ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اتنی نشستیں بھی حاصل نہ کرپاتی۔ شاید یہ کہنا ٹھیک ہو کہ مسلم لیگ (ن) کو حاصل ہونے والے موجودہ ووٹ دراصل شہباز شریف کے ووٹ ہیں۔
کراچی سے تحریک انصاف کی کامیابیاں غیر متوقع یا حیران کن نہیں ہیں۔ کراچی کے ووٹرز کے رجحانات میں تبدیلی کا اشارہ 2013ء کے انتخابات میں ہی مل گیا تھا۔ مختلف جائزوں سے معلوم ہورہا تھا کہ سندھ کے شہری علاقوں میں رہنے والے اردو اسپیکنگ گھرانوں میں اکثر نوجوان ووٹرز اور بڑی تعداد میں خواتین ایم کیو ایم کی حامی نہیں۔ کراچی کے شہری اب لسانی یا جذباتی نعروں کو اہمیت دینے پر تیار نہیں بلکہ کراچی کے نوجوان باہمی تعاون اور سب کی شمولیت کے جذبوں کے ساتھ اس شہر کو ایک پُرامن اور ترقی کرتا شہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ کراچی اردو اسپیکنگ کمیونٹیز کے ساتھ ساتھ سندھی، بلوچ، پختون ،پنجابی ، سرائیکی، ہزاریوال اور پاکستان میں بسنے والی دیگر قومیتوں کا بھی بڑا شہر بن چکا ہے۔ تحریک انصاف کو کراچی کے ہر حلقے سے ملنے والے ووٹ اس حقیقت کا اظہار ہیں کہ کراچی کے بلوچ اور سندھی ووٹرز ، اردو اسپیکنگ ووٹرز او رکراچی میں دو تین نسلوں سے آباد دیگر قومیتوں کے افراد کی بڑی تعداد اب اجتماعی سوچ اختیار کرتی جارہی ہے۔ کراچی اب حقیقتاً کثیر الثقافتی (Multi Cultural) شہر بنتا جارہا ہے۔
میں نے اپنے کالم مطبوعہ 8جولائی 2018ء بعنوان ’’کراچی کب تک اپوزیشن کا شہر رہے گا؟‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’ اندازہ ہو رہاہے کہ کراچی کے کئی حلقوں میں اٹھارہ تا پینتیس سال کے درمیان افراد کے ووٹ اور چالیس سال سے زائد عمر افراد کے ووٹ الگ الگ جماعتوں کو جائیں گے اور اس طرح کراچی کے ووٹ تین چار سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہوجانے کا امکان ہے۔‘‘ ان اندازوں کے عین مطابق کراچی کے نوجوان ووٹرز (چاہے ان کا تعلق کسی بھی زبان بولنے والے خاندان سے ہو) کے ووٹ زیادہ تر تحریک انصاف کی طرف گئے۔ مسلم لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کے لئے مسلم لیگ کی صوبائی قیادت نے بہت سوچ سمجھ کر کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن کا انتخاب کیا ہوگا لیکن بلدیہ ٹاؤن میں تحریک انصاف کے فیصل واڈوا کے حق میں پڑنے والے اکثریتی ووٹ صاف بتارہے ہیں کہ اس حلقے کے ووٹرز نے اپنی رائے کا اظہار لسانی وابستگیوں سے متاثر ہوئے بغیر کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دہائیوں پرانے گڑھ لیاری سے بلاول بھٹو کے مدمقابل تحریک انصاف کو ملنے والے ووٹ بھی اس حلقے کے ووٹرز کی سوچ اور ترجیحات میں بڑی تبدیلی کے واضح اشارے ہیں۔
اہل کراچی نے 1971ء سے 2013ء تک ہونے والے تمام عام انتخابات سے ہٹ کر ایک بالکل مختلف فیصلہ کرکے یہ واضح کردیا ہے کہ کراچی کے ووٹرز اب اپنے شہر کی ترقی کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے عوام کے مفادات کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں کراچی سے منتخب اراکین کی موجودگی (خواہ ان کا تعلق تحریک انصاف سے ہو یا پیپلز پارٹی سے) نہ صرف کراچی کو درپیش دیرینہ مسائل مثلاً پانی، ٹرانسپورٹ، انفرا انسٹرکچر، صفائی، صحت ، جیسے معاملات کو بہتر بنانے میں معاون ہوگی۔ سرکاری اسکولوں میں تعلیم کے معیار کو بہتر بناکر غریب اور مڈل کلاس والدین کے بچوں کو حکومت کی طرف سے معیاری تعلیم کی فراہمی بھی یقینی بنائی جائے گی۔ کراچی کے صنعتی علاقوں میں سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مالیاتی دارالخلافہ، ملکی خزانے کو سب سے زیاد ہ ریونیو اور لوگوں کو سب سے زیادہ روزگار دینے والے شہر کراچی کو فضائی، آبی اور شور کی آلودگی سے بچانے کے لئے بھی مؤثر اقدامات فوری طور پر کئے جائیں گے ۔
الیکشن 2018ء میں ووٹرز نے صاف طور پر بتادیا کہ کراچی اب اپوزیشن مائینڈ سیٹ سے چھٹکارا پاچکا ہے۔ تحریک انصاف اور، پیپلز پارٹی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس وسیع وعریض شہر کو ملکی اور عالمی سطح پر اہم ترین شہر بنانے کے لئےنہایت سنجیدگی کے ساتھ موثر اقدامات یقینی بنائیں۔ 1970کی دہائی تک کراچی ائیرپورٹ یورپ اور مشرق بعید کے درمیان راابطہ کا ذریعہ تھا امریکا، یورپ ، افریقا سے جنوبی ایشیائی ممالک ، چین، جاپان، آسٹریلیا کے درمیان سفر کرنے والی تقریباً ہر ائیر لائن کے جہاز کراچی ائیر پورٹ سے ہوتے ہوئے پرواز کرتے تھے۔ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم سمیت سب جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کراچی کی معیشت کی ترقی اور کراچی ائیرپورٹ پر انٹرنیشنل ائیر ٹریفک کی بحالی میں اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کریں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)