• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم بدلتے ہیں رُخ ہواؤں کا

سید عون عباس

وقت بدلتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ، ملک و قوم کے لوگوں کے حالات بھی بدلتے رہتے ہیں، کسی قوم کے حالات بہتر ہوجاتے ہیں، تو کسی کے مزید بد تر، اگرآج کوئی ریاست تاریکی کے اندھیروں میں غرق دکھائی دے رہی ہے، تو ضروری نہیں ہے کہ اس کا مستقبل بھی تاریک ہی ہو۔ مایوسی یا حالات کی تنگ دستی جب کسی معاشرے کا دامن پکڑ لیتی ہے تو ایسے دور میں کسی معجزے یا کرشمہ قدرت کا انتظار کرنے کے بہ جائے ہر کسی کی توجہ اور توقع اس قوم کے نوجوانوں پر مرکوز ہوجاتی ہے، کیوں کہ وہ کسی بھی ملک و قوم کے لیے قیمتی اثاثے کی سی اہمیت رکھتے ہیں۔

تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ 1799ء میں انقلاب فرانس ہو، 1979ء میں انقلاب ایران، 18دسمبر 2010 تیونس میں آنے والی تبدیلی کی بات دہرائی جائے ، 25جنوری 2011 میں مصر کی سلطنت کی تباہی کا تذکرہ ہویا پھر 2011ء میں لیبیا اور اس کے بعد 2012ء یمن میں آنے والا ،وہ انقلاب جس کے نتیجے میں صدیوں سے چلنے والی موروثی حکومت کا راج ختم ہوا۔ تاریخ ِعالم میں برپا ہونے والے ان تمام انقلابات کے پیچھے بنیادی کردار اور محنت صرف اور صرف ان ممالک کے نوجوانوں کی ہے۔

اگر تاریخ پاکستان کی بات کی جائے تو اس میں بھی ہمیں نوجوانوں کا ہی کردار سب سے اہم نظر آتا ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ندوۃالعلماء ہو یا علی گڑھ ، تعلیمی اداروں نے مسلم طلباء میں بیداری پیدا کرنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ سر سید احمد خان کا لندن جانا اور وہاں جاکر ڈینیئل ڈیفو اور رچرڈ اسٹیل جیسے معروف صحافیوں کے رسالوں سے متاثر ہونا بھی بے معانی نہیں تھا،جب وہ واپس ہندوستان لوٹے، تو انہوں نے ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ نکالا، جس کا بنیادی مقصد مسلمانوںبالخصوص مسلم نوجوانوں میں شعور بیدار کرنا تھا۔سر سید احمد خان نے جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا، وہ یہی تھی کہ اگر کسی چیز میں مسلمانوں کی بقاء و سلامتی پوشیدہ ہے ،تووہ صرف اور صرف یہی ہے کہ نوجوانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ ان کی یہ باتیں صرف کتابی نہیں تھیں، بلکہ پورے برصغیر نے دیکھا کہ کس طرح مسلم نوجوانوں نے تحریک ِپاکستان میں اپنا کردار ادا کیا۔ ایک مقام پر قائداعظم نے علی گڑھ کالج کے طلباء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ’’علی گڑھ تحریک کے نوجوان پاکستان کا اسلحہ خانہ ہیں۔‘‘بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے جہاں قوم کی بقاء کے لیے اس میں اتحاد، تنظیم اور یقین محکم جیسی خوبیوں کا ہونا لازمی قرار دیا، وہیں دوسری جانب اس بات کا بھی یقین دلایا کہ کسی بھی ملک کے قیام امن میں جو کردار نوجوان نسل ادا کرسکتی ہے ،وہ کسی اور کے حصّے میں نہیں آسکتا۔ اور پھر قائداعظم کے وہ تاریخی جملے کہ’’آج کے نوجوان کل ملک کے معمار ہوں گے‘ ‘اس بات کی دلیل ہیں کہ انہیں نسل نو سے کتنی امیدیں وابستہ تھیں،مگر بد قسمتی سے آج کا نوجوان باشعور ہونے کے باوجودبے سمتی کا شکار ہے، اس میں جوش و جذبے، عقل وذہانت کی کمی نہیں ہے، لیکن اسے یہ نہیں معلوم کے اس دولت کا استعمال کیسے کرنا ہے، جس دن اس نے اپنی منزل تک پہنچنے کا روستہ کھوج لیا، اپنی اصل طاقت کو پہچان لیا ، بس اسی دن سے اس وطن عزیز کی قسمت بدل جائے گی۔ علاوہ ازیں، نسل نو کو ا س بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ آگے بڑھنے کے لیے بزرگوں کی رہنمائی انتہائی اہم ہے، نوجوان کتنے ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائیں ان کی سمت کا تعین کرنے میںبزرگوںکا ہی کلیدی کردار ہوتا ہے۔

نوجوانوں کو مل سکے منزل

یہی اس ملک کا ہے مستقبل

تازہ ترین