پناہ بلوچ
استاد ایک اعزازی خطاب ہے جو وسطی مشرق کا استعمال ہوتا ہے تاریخی طور پر یہ لفظ معلمین،فن کاروں،موسیقاروں کے ساتھ ساتھ معاشرے میں سماجی طور پر درس و تدریس اور فن کی تربیت دینے والوں کے رتبے کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جب کہ انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ فلپائن اور سنگاپور میں اسلامی عالموں کے لیےہوتا ہے، جن کے لیے عرب ممالک میں شیخ اور برصغیر کے اکثر علاقوں میں مولانا بھی استعمال ہوتا ہے اس کے علاوہ مالدیپ میں استاد الائنس یافتہ وکیل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
دیکھا نہ کوہ کنی کوئی فریاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
معلم یا استاد ہمارے معاشرے کا اہم فرد ہوتے ہیں، وہ تاریک راہوں میں روشنی کا چراغ ، امن و آشتی،مہر ومحبت، اخوت و مساوات،دوستی و بھائی چارے کی خوش بوہے وہ گمراہوں کے لیے اتالیق ہے۔ منزل مقصود کی جانب رہنمائی کرنے والےرہبر ہوتے ہیں۔دائرہ المعارف کے مطابق استاد وہ معلم ہے جو متعلم یا طالب علم کی مدد و معاونت رہنمائی کرتا ہے ابتدائی اور ثانوی مدارس‘ اسکولوں‘ کالجوں میں یاپھر جامعات میں غرض یہ کہ درس گاہ کوئی بھی ہو معلم کے بغیر اس کا تقدس بالکل ایسا ہے ،جیسے ماں کے بغیر گھر ۔ ایک معلم تربیت کے عمل میں انتہائی موثر و مستند رہبر ثابت ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں ابتدائی درس و تدریس سے منسلک،استاد‘ثانوی درجے پر لیکچرر اعلیٰ ثانوی عہدے پر پروفیسر کے رتبے پر فائز ہیں استاد‘لیکچرر اور پروفیسر کی ذمے داریاں ایک جیسی ہی ہیں تاہم خطاب الگ الگ ہیں یہ خطاب ان کے عہدے کی تفریق کو واضح کرتے ہیں استاد کے نقطی معنی تو پہلے تفصیلی طور پر واضح کئے گئے ہیں تاہم کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ابتدائی سطح معلم کو لیکچرر کہاجاتا ہے جس کے معنی ہیں مقرر‘ درس دینے والایا مضمون پڑھانے والا ہے جبکہ پروفیسر کالجوں اور خصوصاً جامعات اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی اداروں میں درس و تدریس کے عمل میں اعلیٰ عہدے پر فائز تجربہ کار معلم کو کہاجاتا ہے اسی طرح ایسوسی ایٹ پروفیسر (شریک معلم) اور اسسٹنٹ پروفیسر (معاون معلم) کے مراحل طے کرنے کے بعد پروفیسر کاعہدہ ملتاہے۔
درس تدریس کے شعبے کے علاوہ بھی ہمارے سماج میں پروفیسر موجود ہیں شوہر کو تابع رکھنے‘ جادو ٹونے کے اثرات کو ختم کرنے‘ ساس کو رام کرنے‘ محبوب کو قدموں میں گرانے‘ دشمن کے زیر کرنے سمیت قسمت کے بند تالوں کھولنے کے دعویٰ دار بھی ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہروں میں دیواروں پر دیدہ زیب لکھائی اور پرکشش اشتہارات کے ذریعے اپنے آپ کو پروفیسر بنگالی بابا‘ پروفیسر نگالی بابا‘ پروفیسر چھومنتر وغیرہ بھی لکھتے دکھائی دیتے ہیں مختلف شہروں کے فٹ پاتھ پر توتے اور خستہ حال لفافے سامنے رکھ کر بدحالی کا شکار شخص بھی دیگر لوگوں کے قسمت کا حال سنانے اور تقدیر سنوارنے کے لیے گتے پر اپنا نام پروفیسر لکھ کر بیٹھا دکھائی دیتا ہے اسی طرح اسکولوں کالجوں چوراہوں‘ میدانوں‘ تفریحی مراکز وغیرہ میں جادو کے کمالات کے نام پر شعبدہ بازی یابچہ جمبورے کی چالاکی سے کرتب بازی ا ور سرکس میں پھرتیاں دکھاکر کردار وصول کرنے والے بھی اپنے آپ کو پروفیسر کہتے ہیں افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ معیاری تعلیم کے فروغ کا دعویٰ کرنے والے نجی شعبے میں قائم تعلیمی اداروں نے بھی اپنے دیوہیکل سائن بورڈوں میں ابتدائی اور ثانوی درجہ پر فائز اساتذہ کو پروفیسر لکھ کر اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت دے کر سادہ لوح طالب علموں اور والدین کو لوٹنے کا سامان فراہم کیا۔
وطن عزیز میں پسماندگی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ اور مفلوک الحال عوام کو غربت بھوک‘ افلاس‘ تنگ نظری موقع پرستی خود غرضی ابن الوقتی جیسے موذی امراض کا شکار کرنے والے رہنمائوں‘ نسل درنسل مقتدر حلقوں کی خوشنودی سے نظریہ‘ ترقی اور تبدیلی کے دعوئوں سے منتخب نمائندوں عہدے‘ مراعات اور ناجائز اختیارات کے ذریعے مزے لوٹنے والے منصب داروں نے بھی انتخابات سے قبل نیا جبہ‘ نئی بوتل‘ نئی عینک اور نئے میک اپ کا سہارالے کراور عوام کی ہمدردی کا مرہم کا بیانیہ لے کر سابق ادوار میں ہونے والی ناانصافیوں سے اپنے آپ کو مبراقرار دے کر خوش کن کے فریب سے دوسروں کے خلاف مدح سرائی کرکے دوبارہ ووٹ ملنے کی صورت میں قوم کی عاقبت سنوارنے کے دعویدار فصلی بٹیر بھی ہمارے کچھ دوستوں کی نظر میں پروفیسر ہی ہیں بات کہاں سے چلی کہاں تک نکل گئی۔
کچھ دن قبل اسکول میں پڑھنے والے بیٹے کے ہمراہ کہیں جانے کا اتفاق ہوا وہیں ایک شخص سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے تعارف کرایا کہ وہ جامعہ سے منسلک ہیں اور پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں وہ خوش شکل خوش مزاج اور فعال شخصیت کے مالک تھے جیسے ہی وہ شخص رخصت ہوئے تو بچے نے کہا، بابا اس انکل کے بیٹے میرے کلاس فیلو ہیں گزشتہ دنوں ان کے والد ہمارے اسکول آئے تھے میں نے اپنے کلاس فیلو سے پوچھا کہ یہ کون ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ان کے والد ہیں جو پہلے اسکول ٹیچر تھے اب میں جامعہ میں لیکچرر تعینات ہوئے ہیں یہ تو دو تین ماہ قبل کی بات ہے آج انکل بتارہے ہیں کہ وہ پروفیسر ہیں کیا جامعات میں لوگوں کو اتنی جلدی ترقی مل جاتی ہے؟میں نے معاملات کو رفع دفع کرنے کے لیے کہہ دیا کہ جامعات میں پڑھانے والے استاد اپنے آپ کو پروفیسر ہی کہتے ہیں۔پھر کچھ فاصلے سے جامعہ کے ایک استاد جو اپنے درس و تدریس سے زیادہ میڈیا اور تقریبات فعال نظر آتے ہیں کو دیکھا جو خود لیکچرر ہیں اور اپنے آپ کو پروفیسر کہتے ہیں میں نے خوش قسمتی سمجھا معلومات پر اس سے سابق استاد کو مغلظات سے نواز کر بتایا کہ جمعہ جمعہ دس ہوئے ہیں اپنے آپ کو پروفیسر کہتا اور بیٹی کی موجودگی میں رخصت کو عافیت سمجھ کر جان چھڑائی غور کیا تو اپنے اردگرد بہت سارے جان پہچان والے لیکچروں کو پروفیسر تعارف کراتے دیکھا اور سنا، بیٹے کے ایک سوال کے بعد سر تھام کر بیٹھ گیا عہدے اور رتبے کو یوں بڑھاکر پیش کرنا کہیں احساس کمتری کا عمل تو نہیں؟اپنے آپ کو غلط اندازہ لگاتے ہوئے دوسروں کے مقابلے میں خود کو حقیر سمجھنے کو نفسیات کی اصطلاح میں احساس کمتری کہا جاتا ہے،یہ ایک انتہائی منفی پہلو کے ساتھ ہمارے زندگی اور شخصیت و کردار پر اثرانداز ہوتا ہے حسد چڑچڑاپن سخت گیری بے حسی، خودغرضی، شدت پسندی بداخلاقی، بدلحاظی یہ تمام برائیاں اسی احساس کمتری کا نتیجہ بن جاتی ہیں معاشرے میں ہر فرد تہذیبی عمل کے حصے کے طور پر اپنے شعبے پیشے اور رتبے کے لحاظ سے سماجی کردار نبھاتا ہے تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں تہذیبی عمل میں شریک ہر شخص بلاتفریق رتبہ، پیشہ اور شعبہ لازوال کردار ہوتے ہیں تمام شعبے اور پیشے معتبر حیثیت رکھتے ہیں خصوصاً تعلیم کے شعبے سے منسلک استاد یا معلم تو دنیا بھر معزز ترین پیشہ اور رتبہ کہلاتا ہے جس کے بارے میں اشفاق احمد لکھتے ہیں، ایک مغربی ملک میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مجھے جرمانہ عائد کیا گیا میں مصروفیات کی وجہ سے چالان جمع نہ کراسکا تو مجھے کورٹ میں پیش ہونا پڑا کمرہ عدالت میں جج نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ نے چالان کیوں جمع نہیں کیا، تو میں نے جواب دیا کہ میں ایک پروفیسر ہوں اکثر مصروف رہتا ہوں اس لیے چالان جمع نہیں کرسکا تو جج نے کہا’’ The Teacher in a Court‘‘، ایک استاد عدالت میں اور جج سمیت سارے لوگ احتراماً کھڑے ہوگئے اسی دن میں نے اس قوم کی ترقی کا راز مضمر ہے۔