آج پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور اس کی ترقی (GDP)کی شرح اسی خطے کے دوسرے ممالک (مثلاً بنگلا دیش، سری لنکا، انڈیا) کے مقابلے میں کہیں کم ہے جبکہ یہ ممالک نہایت سبک رفتاری سے ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں۔ اس تنزلی کی وجہ اہم ترقیاتی منصوبوں اور دوسرے ملکی اداروں میں بڑے پیمانے پر ہونے والی بدعنوانی اور ہیرا پھیری ہے جس نے ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے اور ملک کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) اور عالمی بنک سے لئے ہوئے ادھار پر چلنا پڑرہا ہے لہٰذا انہی کے اشاروں پر ناچنا پڑتا ہے۔ صد افسوس کہ اب ہم ایک خود مختار ریاست نہیں بلکہ اقتصادی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں اور ایک غلام قوم بن چکے ہیں۔ ہماری بیشتر صنعتیں بنگلہ دیش منتقل ہو گئی ہیں جہاں پیداواری اخراجات بھی کم ہیں اور بجلی کی قلت جیسے مسائل بھی نہیں ہیں جس سے ہماری ٹیکسائل اور دیگر صنعتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ سری لنکا میں جنگ کے اختتام کے ساتھ ہی پاکستان کا کثیر سرمایہ وہاں بھی منتقل ہو گیا کیوں کہ وہاں ٹیکس کی شرح نہایت مناسب یعنی تقریباً 12فی صد ہے اور سرکاری اداروں میں بدعنوانی نہیں ہے۔ لوگ شائستہ اور تعلیم یافتہ ہیں اور کام کے لئے تعلیم یافتہ افرادی قوت بآسانی دستیاب ہے۔ سوال یہ ہے کہ حالیہ صنعتی بحران، غیر ملکی قرض اور غربت کے دلدل سے کس طرح باہر نکلا جائے؟ اس کا جواب بہترین حکمرانی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کے جاگیردارانہ تسلط پر مشتمل کابینہ اور پارلیمنٹ پاکستان میں اس منتقلی کی ہر گز حمایت نہیں کرے گی جو کہ Knowledge Economyیعنی علم پر مبنی معیشت پر مبنی ہو۔ اعلیٰ تعلیم کا شعبے نے 2003-2008 ء میں شاندار ترقی کا مظاہرہ کیا اس کے ترقیاتی بجٹ کو نہایت تیزی سے کم کر دیا گیا ہے۔ جس بجٹ کو2012ء میں چالیس ارب روپے مالیت کا ہوجانا چاہئے تھا وہ اب صرف 15/ارب ہی رہ گیا ہے۔
افسوس کہ شعبہ تعلیم موجودہ حکومت کے لئے کسی ترجیح کا حامل نہیں ہے ہم اپنے GDP کا صرف 1.7فی صد حصہ تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں۔ اس طرح ہمارے ملک کا شمار دنیا کے ان سات ممالک میں ہوتا ہے جو تعلیم پر اپنی GDPکا سب سے کم حصہ خرچ کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت کی طرف سے منظور شدہ پالیسی کے تحت شعبہ تعلیم کے لئے GDPکا 7فی صد تعلیم کے لئے مختص ہونے کی منظوری دی گئی تھی جس کا پانچواں حصہ (GDPکا 1.4% ) اعلیٰ تعلیم پر خرچ ہونا تھا لیکن افسوس کہ ہمارے حکمرانوں کی طرف سے اس پالیسی پر عمل درآمد ترک کر دیا گیا۔
میں نے اپنے پچھلے مقالے ”ایک علیحدہ جمہوریت“ میں ایک مختلف طرز کی جمہوریت کی ضرورت پر زور دیا تھا جس میں ایک ایسے صدارتی نظام جمہوریت کو متعارف کرایا تھا جو ”بزرگوں کی عدالتی کونسل“ کی زیرِ نگرانی ہو اور تمام اہم عہدوں پر تقرریاں جن میں صدر، وفاقی و صوبائی وزراء، اہم عوامی تنظیموں کے سربراہان مثلاً FIAاور NAB وغیرہ شامل ہیں انہی کی جانچ پڑتال کے بعد ہوں۔ موجودہ نظام کی بارہا ناکامی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آئین کو فوری تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف اور صرف اسی وقت تعلیم کو صحیح مقام حاصل اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔
علم پر مبنی معیشت (Knowledge Economy)کے حصول کے لئے اعلیٰ تربیت یافتہ افرادی قوت کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ چین میں صنعتی پیداوار کی طرف بڑھتا ہوا تسلط اور بڑے پیمانے پر حاصل کردہ ترقی صرف اس لئے ممکن ہوئی کہ اس نے پی ایچ ڈی کی سطح کی افرادی قوت کی پیداوار پر زور دیا۔ آج چین کے سالانہ پی ایچ ڈی کی پیداوار50,000/افراد ہے جو کہ امریکہ سے بھی کہیں زیادہ ہے،جو کہ 20,000پی ایچ ڈی سالانہ ہے۔ اسی طرح بھارت بھی اس میدان میں عالمی لیڈر ہے۔ جس کی سالانہ پیداوار 9,000 پی ایچ ڈی ہے جو کہ آئندہ سالوں میں ان کے منصوبوں کے مطابق 2020ء میں 20,000پی ایچ ڈی تک ہو جائے گی۔ بھارت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ بھی پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی شعبے کی تقلید کرے گا۔ دسمبر2011ء میں بھارتی کابینہ نے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (UGC) ختم کرنے کا فیصلہ کر دیا، ٹھیک اُسی طرح جس طرح پاکستان نے کیا تھا اور اس سے زیادہ طاقتور وفاقی ادارہ ” اعلیٰ تعلیمی کمیشن “ (HEC) کی طرز پر ”قومی کمیشن برائے اعلیٰ تعلیم و تحقیق (National Commission of Higher Education & Research, NCHER) کرنے کی منظوری دے دی۔
’دنیا کے مشہور ترین سائنسی جریدے Nature نے موجودہ حکومت کو 2008ء میں رائے دی تھی کہ”منتخب سیاستدانوں کی نسبت فوجی جیالوں نے پاکستان پر زیادہ عرصہ حکومت کی ہے اور حیرت انگیز طور پر قوم کے سائنسدانوں کو غیر مستحکم جمہوری انتظامیہ سے بہتر طریقے سے استعمال کیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف جن کی نو سالہ حکومت18 /اگست ان کے استعفے سے اختتام پذیر ہوئی وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔ اُن کی حکومت میں مختلف علمی شعبوں کی مضبوط بنیادیں رکھی گئیں مثلاً علم پر مبنی معیشت، اداراتی اصلاحات جن میں بڑے پیمانے کے تحقیقی بجٹ شامل تھے، جامعات کا تعمیراتی’ پروگرام، ملک گیر ڈیجیٹل لائبریری کا قیام، بین الاقوامی فیکلٹی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی اسکیم اور کارکردگی کی بنیادوں پر پروفیسروں کی تنخواہوں کا تعین شامل ہیں۔گزشتہ سالوں میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں کو بیرونی جانچ کے بعد بہت سراہا گیا ہے جن میں عالمی بنک امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی اور برٹش کونسل شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی کو اس سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہیکیونکہ سائنس سے متعلق اس کا پچھلا ریکارڈ دوسری تمام منتخب حکومتوں کی نسبت سب سے زیادہ کمزور ہے۔ پیپلز پارٹی کو چاہئے کہ مشرف دور میں جو تیزی سے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ترقی ہوئی ہے اس کو اور آگے لے کے چلے، نہ کہ اُس سے پہلے کے پتھر کے دور میں واپس لے جائے۔ نئی حکومتوں کو ضرورت ہے کہ جنرل مشرف کی کوششوں کو تسلیم کریں۔ اس بات سے قطع نظر وہ انہیں جتنا بھی ناپسند کرتے ہوں کیوں کہ ایک جنرل نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی ہے۔ جس پر وہ مزید تعمیر کر سکتے ہیں۔ Nature 454, 1030 (28 Aug 2008)“
2002ء سے 2008ء کے دوران جب میں وفاقی وزیر و چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کے منصب پر فائز تھا اس وقت میری ذمہ داری صرف اعلیٰ تعلیمی شعبوں تک محدود تھی اور پرائمری، سیکنڈری اور کالج کے درجے کے تعلیمی معیار کی بہتری کے لئے کوشش نہیں کر سکتا تھا کیونکہ قانوناً ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ذمہ داریوں میں صرف جامعات اور اُن سے منسلک ڈگری دینے والے ادارے شامل ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود میں نے دو تجاویز پیش کیں جو میرے اس مضمون کے ذریعے برسرِ اقتدار حکومت اور مستقبل میں آنے والی حکومتوں کے زیرِ غور آسکتی ہیں۔ پہلی تجویز یہ تھی کہ ایسا ”نیشنل ایجوکیشن سروس“ پروگرام ترتیب دیا جائے جس کے تحت ہر طالب علم کو ڈگری حاصل کرنے سے پہلے (بیچلر یا ماسڑز کا امتحان دینے کے بعد) لازمی ہو کہ وہ دو سال بحیثیت استاد کسی بھی شہر یا گاؤں کے اسکول میں پڑھائے۔ لڑکوں کو گاؤں وغیرہ بھیجا جا سکتا ہے اور لڑکیاں ان کے اپنے شہر یا گاؤں میں استانی کے فرائض انجام دے سکتی ہیں۔ اس طرح وہ مسئلہ جو اکثر و بیشتر سامنے آتا ہے کہ معیاری اساتذہ کا فقدان ہے وہ بھی حل ہو جائے گا۔ اس قسم کے پروگرام کو پاکستان کے مختلف اضلاع میں شروع کرنے اور اس کے بہتر نفاذ کے لئے ریٹائرڈ آرمی افسران کی خدمات لی جاسکتی ہیں۔
میری دوسری تجویز اس سے بھی زیادہ پر اثر تھی وہ یہ کہ ایک ایسا قانون نافذ کیا جائے کہ تمام سرکاری ملازمین کے لئے اپنی اولاد کو قریب ترین سرکاری اسکولوں ہی سے تعلیم دلانا لازمی ہے اور یہ اطلاق صرف نچلے درجے کے ملازمین کے لئے نہیں بلکہ آفیسروں اور وزیراعظم تک ہونا چاہئے۔ اس طرح سرکاری آفیسروں کا دھیان بھی سرکاری اسکولوں کے معیار کو بہتر بنانے کی طرف مبذول ہو گا اور فنڈز کی مستقل فراہمی بھی ممکن ہوجائے گی۔
اگر پاکستان اس معاشی بحران سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ مضبوط علم پر مبنی معیشت(Knowledge Economy کی تشکیل دی جائے اور وہ معیاری تعلیم ہی کی بنیادوں پر منحصر ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ صرف اور صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے تعلیم، تعلیم اورتعلیم۔