• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا ،اے اللہ! تو انسانوں کو پیدا کرتا ہے اور پھر ماردیتا ہے،اس میں کیا حکمت ہے؟بارگاہ خداوندی سے جواب آیا ،اے موسیٰ ! تو اس لیے معلوم کرنا چاہتا ہے، تاکہ لوگوں کو ہماری حکمتوں سے آگاہ کردے، ورنہ تجھے مخلوق کے پیدا کرنے میں ہماری حکمتیں معلوم ہیں۔ اے موسیٰ ،میں جانتا ہوں کہ تو ناواقفوں کو حکمتوں سے واقف کرنا چاہتا ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا، اے موسیٰ! تم بیج( کھیتی باڑی کے لیے )بودو۔ 

چناںچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زمین میں بیج بویا اور پھر جب کھیتی تیار ہوگئی تو انہوں نے درانتی کے ساتھ کھیتی کو کاٹ ڈالا۔ غیب سے ارشاد ِ خداوندی ہوا، اے موسیٰ! تم نے خود کھیتی بوئی اور پھر خود ہی اسےکاٹ دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، اے اللہ! کھیتی کے پکنے پر اس میں دانہ اور بھوسہ تھا اور دونوں کو مِلا جلا دینا مناسب نہ تھا ۔حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ دونوں کو الگ الگ کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ یہ عقل تم نے کہاں سے حاصل کی؟ 

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ یہ عقل و دانش آپ کی عطا کردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ انسانوں کی روحیں دو قسم کی ہیں، ایک پاک اور ایک ناپاک ،سب انسانی جسم ایک رتبے کے نہیں ہیں۔ چناںچہ ان روحوں کو بھی اسی طرح ایک دوسرے سے علیحدہ کردینا مناسب ہے جس طرح گندم کو بھوسے سے، تاکہ نیک روحیں جنت میں چلی جائیں اور بُری روحیں جہنم میں ۔ پہلی حکمت تو موت کی تھی۔ پیدا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ہماری صفات کا اظہار ہوجائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں پوشیدہ خزانہ تھا،میں نے چاہا کہ میں پہچانا جائوں، لہٰذا میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔ 

اس واقعے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں مومن کی بھلائی مضمر ہے ۔ مومن کی موت بھی مومن کے لیے راحت و مسرت کا پیغام ہے ، اس کی دنیا میں آمد بھی خوشی و مسرت کا باعث بنتی ہے۔(حکایاتِ مثنوی)

تازہ ترین
تازہ ترین